کالمز

میرے کبوتر اور شکاری پرندے

یاسن کو یوں تو حروف عام میں عقابوں کی سرزمین کہا جاتا ہے ،عرصہ دراز تک یاسن کی فضاؤں میں شکاری پرندوں کا راج رہا۔جن میں سنہرا عقاب ،شکرا یا باز جس کو مقامی زبان میں ”سایورج“ کہا جاتا ہے ،اِن کے علاوه شاہین،اُلو، حتیٰ کہ تمام چھوٹے بڑے شکاری پرندے ہما وقت شکار کی تلاش میں یاسن کی فضاؤں میں محو پرواز ہوتے تھے۔ پرانے وقتوں میں شوقین حضرات اِن شکاری پرندوں کو بحفاظت پکڑ کر اِن کو مختلف مراحل سے گزار کر شکار کے لئے تیار کرتے تھے۔ مختصر مدتی ٹریننگ کے بعد یہ پرندے اپنے مالک کے وفادار ہوتے تھے ۔گئے وقتوں میں صاحب استطاعت لوگوں کے لئے باز رکھ کر شکار کھیلنا ایک بہترین مشغولہ ہوا کرتا تھا،ایک عدد گھوڑا، ایک کتا، اور ساتھ ایک شکاری پرندہ، پھر دور دراز علاقوں میں شکار پر جانا یقیناً  تمام مشغلوں سے شاید  افضل ترین مشغلہ تھا۔جب انسانوں کا ہجوم بڑھتا گیا تو اِن کے پاؤں کی دھول نے اس مشغلے کو ہی دھندلا کر دیا، مادیت پرستی ،لالچ ،بغض وغیرہ نے ہمیں اس نہج تک پہنچا دیا کہ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، یہاں سے  پیچھے مڑ کر جب دیکھتے ہیں تو اپنے سائے کے سوا کچھ بھی نظر نہیں اتا۔ بدلتے لمحوں کے ساتھ انسانی صفات ختم ہوتے گئے اور ہم وحشی بنتے گئے ،ان معصوم پرندوں کی نسل کشی کرنے میں ہم نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڈی۔ آج یاسن میں فضا وہی ہے، پہاڑ وہی ہیں ،دریا وہی ہے ۔ندی نالے وہی ہے ،اگر کوئی نہیں ہے تو بس یہ شکاری پرندے۔ہمارے کردار اور ہمارے نفسیات کو جانچ کر باقی ماندہ پرندے بھی یہاں سے ہمیشہ سے لئے پرائے دیس میں کوچ کر گئے ہیں۔دنیا کے وحشی مخلوق  میں  ہمارا نبمر شاید ٹاپ میں ہو گا۔آج ایک بہت ہی محترم دوست سید کریم حسین کے وال پر ایک پوسٹ پر نظر پڑی ،جس میں کریم بھائی ایک باز کے ساتھ شکار کے مقام پر موجود تھے۔معدوم ہوتا ہوا مشغلے کو دوباره زندہ کرتے ہوئے انہیں  دیکھ کر خوشی کی انتہا نہیں رہی۔سید کریم حسین کے دادا مرحوم پیر شاہ سلامت صاحب قد آور شخصیت کے مالک انسان تھے۔پیر شاہ سلامت صاحب اپنی زندگی میں باز پال کر شکار کھیلنے کے شوقین تھے۔پیر صاحب کی دنیا سے جانے کے بعد ایک عرصے تک باز پالنے کا خاندانی مشغلہ غالباً ختم ہو چکا تھا۔لیکن میرے  دوست نے اپنے دادا کے مشغلے کو جاری رکھ کر اس خاندان میں ایک بہترین شخصیت ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔اور اِن دنوں پورے یاسن ہی نہیں، بلکہ پورے غذر میں  اس مشغلے سے وابستہ واحد شخصیت  ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ہم اس کے اس کاوش کو تہ دل سے سلام پیش کرتے ہیں۔
باز پالنے کا رواج یاسن میں ہی نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان میں کئی دہائیوں پہلے ختم ہو چکا ہے۔اس کے کئی وجوہات ہو سکتں ہیں، جن میں  سے ایک وجہ مصروفیات کا زیادہ ہونا بھی ہے،اور دوسری وجہ باز کو پکڑنے کا ہنر ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل نہیں ہو سکا،کیونکہ لوگوں کا رجحان  تعلیم اور روزگار کی طرف ہونے لگا، تو اس مشغلے کو ہی بیکار تصور کیا جانے لگا، حالانکہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔
باز کو زندہ پکڑنے کا ایک مخصوص طریقہ ہوتا تھا ہر عام و خاص یہ کام سرانجام نہیں دے سکتے تھے۔ کسی نے ان ماہرین سے باز پکڑنے کا ہنر نہیں سکھا، اور یوں وہ لوگ اپنے ہنر کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔باز کو ٹریننگ دینا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے ،کیونکہ بغیر معلومات کے، اور رہنمائی کے ہر کوئی باز کو ٹریننگ نہیں دے سکتا، کہا جاتا ہے کہ دوران ٹریننگ  باز کو مسلسل سات روز تک سونے نہیں دیا جاتا ۔ دف بجا کر اس کی نیند کو کوسوں دور بھگایا جاتا ہے،یہ سب کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ باز لوگوں اور ماحول کے شور و غل سے پریشان نہ ہو  ۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد باز کا تازہ گوشت سے خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ یوں اِن  اعصاب شکن مراحل سے گزارنے کے بعد باز کو اس قابل بنایا جاتا ہے، کہ وہ شکار کو لے کر اپنے مالک کے پاس واپس لوٹ جاتا ہے ۔اگر دوران ٹریننگ زرا سی بھی غفلت  اور غلط برتاؤ کیا گیا،تو باز کو ایک دفعہ جب  شکار کے لئے چھوڑا جاتا ہے تو واپس اپنے مالک کے پاس انے کے بجائے  اپنے بسیرے، یعنی پہاڑ کی چوٹیوں کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
میرے فہم میں یاسن میں دو اشخاص کے پاس باز ہوا کرتا تھا،ایک مرحوم پیر شاہ سلامت صاحب اور دوسری شخصیت سندھی سے مرحوم صاحب جان صاحب کے پاس ہوا کرتا تھا۔ سن ١٩٩٥ اور ١٩٩٦  کی دہائیوں کی بات ہے، جب مرحوم صاحب جان حیات تھے،مرحوم سماجی ورکر ہونے  کے ساتھ ساتھ کھیل تماشوں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے،طاوس فٹبال گراونڈ میں اکثر اپنے باز کو کلائی پر بیٹھا  کر  فٹبال میچ دیکھنے تشریف لاتے تھے۔ہم چھوٹے تھے ،کھیل سے زیادہ باز کو دیکھنے کا شوق  ہوتا تھا۔ باز کو قریب سے دیکھنے کی حسرت دل میں لئے سٹیج کے اَس پاس ٹہل رہے ہوتے تھے، لیکن مرحوم سٹیج پر لوگوں کے ہجوم کے درمیان بیٹھے ہوتے تھے،باز کے قریب پہنچنا ہمارے لئے جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔
مرحوم  کے عقب میں اور دائیں بائیں جانب ہر طرف لوگ کھڑے ہو کر فٹ بال میچ دیکھ رہے ہوتے تھے۔ سٹیج پر لوگوں کا جم غفير ہوتا تھا،عمر رسیدہ افراد کے لئے تین چار بوسیدہ قسم کی کرسیاں قریب ہی موجود ہائی سکول سے منگوائیں جاتی تھیں،ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی ٹیمیں تو موجود ہوتی تھیں،لیکن ہر ٹیم کے پاس اپنی یونیفارم موجود نہیں ہوتی تھیں۔میدان میں اترنے والی ہر ٹیمیں وہی یونیفارم استعمال کرتے تھے،اس لئے حریف اور دوست ٹیم کی پہچان مشکل ہوتی تھی ۔
ہم موقع دیکھ کر  ہجوم کے بیچ میں گھس کر باز کو دیکھنے کی کئی بار کوشش بھی کرتےرہتے تھے، لیکن بڑوں کی کوسنے کی وجہ سے (لے گوموش کیش الجی سے لے بو شچم با یر) گرج دار آواز میں یہ الفاظ گویا تیر بن کے ہمارے سینوں میں اُترتے تھے۔ ہمیں  منہ کی کھانی پڑتی تھی ،اور پلٹ کر پہلے والے پوزیشن پر ہی واپس آتے،لمحہ بھر کے لئے ہمارے دلوں میں سکوت طاری ہو جاتی۔خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر پھر اگے جانے کی جستجو کرتے ،لیکن دل کے گوشے سے وہی گرج دار آواز سنائی دیتی، ہم وہی کھڑے کھڑے اپنے آرمانوں کا خون ہوتے ہوئے اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے تھے۔ ابھی سوچتا ہوں معاشرے نے ہمارے چھوٹے چھوٹے خواہشات کو کس بے دردی سے پاؤں تلے روندے تھے۔ہم اُسی عہد کے پیداوار ہیں، کہ آج بھی ہم صحیح فیصلے خود سے کرنے میں خوف محسوس کرتے ہیں۔ ہم چھوٹے تھے ،بہت جتن کے بعد ہی ایک پل کے لئے باز پر نظر پڑتی تھی ،پھر لوگ سامنے آتے اور ہم دیکھنے سے قاصر رہتے۔ آخر کار بے بس ہو کر دل کی بٹھاس کھڑے لوگوں پر لعن طعن کر کے نکالتے تھے۔
ان شکاری پرندوں کو دیکھنا ان کے بارے میں معلومات کی کھوج لگانا بچپن سے ہی ایک جنون تھا،اور یہ شوق آج بھی وہی آب و تاب سے ہمارے دل میں موجود ہے،بچپن میں ہم ان شکاری پرندوں کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے،تھوڈی کوشش کے بعد ہی معلوم ہوا کہ شکاری پرندوں کی بھی مختلف اقسام ہوتے ہیں۔باز یا شکرا جسامت میں چھوٹے ہوتے ہیں،انکی رفتار ٣٤٢ کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے ،یہ شکار کو اپنی چونچ سے ٹکڑے کرتا ہے،اس کے آنکھیں زرد مائل ہوتی ہیں۔شاہین جسامت میں شکرا سے بڑا ہوتا ہے ،یہ شکار کو اپنے پنچوں سے چیر پھاڑتا ہے،سید کریم حسین کے پاس جو شکاری پرندہ ہے وہ باز (شکرا) ہے ۔
باز کی تیز نگاہیں انسان کے مقابلے میں آٹھ گنا صاف دیکھ سکتں ہیں،اس لئے دوران پرواز یہ زمین پر موجود ہر چیز کو بڑی آسانی سے  دیکھ لیتا ہے ،اور اپنے ٹارگٹ کو سیٹ کرنے کے بعد کمال پھرتی سے اس پر جھپٹ پڑتا ہے،اس کی تیز دھار نما چونچ شکار کو بچنے کا کم ہی موقع دیتا ہے۔
شکاری پرندوں میں عقاب بھی ایک خونخواد شکاری پرندہ ہوتا ہے ،یہ جسامت میں باز اور شاہین سے بڑا ہوتا ہے ،اس کے پنجوں میں بے انتہا طاقت ہوتی ہے ،شکار ایک بار اس کے پنجوں کی زد میں آ گیا ، تو پھر آرام سے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔عقاب ہمیشہ اونچی اڑان کرتا  ہے،عقابوں کی بھی کئ اقسام پائی جاتیں ہیں،گولڈن عقاب شکاری پرندوں کی فہرست میں اوّل نمبر پر ہے،کہتے ہیں کہ، جنگل میں شیر کا ،پانی میں شارک کا، اور فضا میں گولڈن ایگل کی حکمرانی ہوتی ہے۔ بقول ایڈووکیٹ شکور خان صاحب ” سنہرا عقاب جب فضا میں نمودار ہوتا ہے ،تو باقی تمام شکاری پرندے لومڑی کے مانند اپنے اپنے بلوں میں چھپ جاتے ہیں“مجھے شکور خان صاحب کی ایک تحریر سے ہی معلوم ہوا ،کہ گولڈن ایگل کو بروشسکی زبان میں ”گرمون “ کہتے ہے۔گرمون کے بارے میں ہمیں معلوم  تو تھا ہی ،لیکن انگريزی میں اسکی شناخت کے بارے میں معلومات نہیں تھے۔بروشسکی لوک کہانیوں میں” گرمون” اور کوا ”غامون “کا ذکر جا بجا سننے کو ملتا ہے،کوے کی عمر کم و بیش دو سو سال ہوتی ہے۔بڑوں سے سنتے اہیں ہیں کہ گرمون چھوٹے جانوروں کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔اس کی مرغوب غذا رام چکور  ہے۔مجھے  پہلی بار ١٩٩٥ میں شکاری پرندوں سے واسطہ پڑا ،ان دنوں ایک دوست کے وساطت سے مجھے کبوتر پالنے کا شوق پیدا ہوا،یوں کافی کوشش کے بعد ، میں بھی کبوتروں کا مالک بن گیا۔اِن کی افزائش نسل بہت تیز ہوتی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے میرے پاس اِن کی تعداد پچاس ساٹھ تک جا پہنچی ۔ میں نے انکے قیام و طعام کے لئے  بناسپتی والے  بڑے ٹینوں کا بندوبست کیا تھا،انکو میں نے ایک مخصوص انداز میں لائن میں دیوار کے ساتھ اس طرح لگایا تھا،کہ زمین سے حملہ آور بلیوں کی پہنچ  وہاں تک نہ ہو۔بلی عموما چار فٹ تک ہوا میں چھلانگ لگا سکتی ہے، اس حساب سے میں نے پانچ فٹ کی بلندی پر کبوتروں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کیا تھا۔ میں نے اِن ڈبوں کے حصول کے لئے کم و بیش طاوس کے ہر گھر کا خاک چھانتا رہا ہوں۔
ہر بدلتے دنوں کے ساتھ میرے پاس کبوتروں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ تعداد کے بڑھنے کے ساتھ ہی خطرے کے بادل بھی میرے گھر کے آس پاس منڈلانے لگے،باز ،عقاب ، شاہین بھی وقفے وقفے سے فضاؤں میں نمودار ہونا شروع ہوئے۔
جب بھی کبوتر ہوا میں اُڑ رہے ہوتے تھے،عقاب قریبی پہاڑوں سے نمودار ہوتا، اور پہلے کبوتروں کے  جھنڈ میں شیر و شکر ہوتا، پھر ان کو منتشر کر کے ایک کبوتر پر زور آزمائی کرتا،لیکن تمام پرندوں میں شاید کبوتر ہی وہ واحد پرندہ ہے، جو اپنے دشمن کو کمال مہارت سے چکمہ دینے میں ماہر ہوتا ہے۔ ان شکاری پرندوں کے زیادہ تر حملے ناکام ہوتے تھے ۔بعض اوقات کبوتر شکاری کے ہاتھوں چڑھ جاتے تھے۔ میں بے بسی کے عالم میں یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا تھا۔  چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ فضا میں ایک اپنی بقا کے لئے،  اور دوسرا اپنی جان بچانے کی تگ و دو میں ہوتا تھا۔ میری تمام ہمدردیاں اپنے کبوتروں کے ساتھ ہوتی تھیں ۔  زمین پر اپنے کبوتروں کے لئے تمام تر حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے،لیکن فضاؤں پر میرا دسترس نہیں ہوتا تھا ۔ خطرہ یک طرفہ نہیں تھا ،رات کی تاریکیوں میں جنگلی بلیوں اور لومڑیوں کا ہما وقت خطرہ موجود ہوتا تھا،شام  ڈھلنے  کے ساتھ ہی محسوس ہوتا تھا، کہ لومڑیاں موقعے کی تاک میں ہیں،کم و بیش یہ احساس مجھے ہر رات ہی محسوس ہوتا تھا۔یہ جنوری ١٩٩٨ کی ایک سرد رات تھی، کڑاکے کی سردی میں،میں نے آخری بار اپنے کبوتروں کو دیکھا۔ لمبے سایوں کے ساتھ سورج بھی غروب ہو گیا۔
اس شام سردی کے ساتھ اُداسیوں نے بھی دل میں ڈھیرے جما لئے تھے، کیونکہ آنے والے پل مجھ پر بھاری گزرنے والے تھے۔صبح ماں نے مجھے یہ خبر سنائی کہ میرے تمام کبوتروں کا رات کی تاریکیوں میں جنگلی جانوروں نے صفايا کر دیئے ہیں۔عمر کے حساب سے غالباً یہ میرے لئے بڑی تکلیف دہ مرحلہ تھا۔
غرض وقت کی رفتار نے درد کے دریچوں کو  کسی حد تک بند ہی کر دیا۔آج بھی ہم تنہائی میں جب یادوں کی سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں تو اُن ہی یادوں کی پرچھائیاں نظر اتی ہیں
آج پڑوس میں کبوتر پالے جاتے ہیں۔ لیکن میں نے کبھی کسی شکاری پرندے کو ان پر حملہ آور ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حالانکہ ١٩٩٦ کی دہائیوں میں ہر روز وقفے وقفے سے شکاری پرندے فضا میں نمودار ہوتے رہتے تھے۔سوال یہ پیدا ہوتا  ہے، کہ آخر یہ شکاری پرندے کہاں گئے؟ اُن کے یوں غائب ہونے میں ہمارا بھی شاید کلیدی کردار ہو سکتا ہے، یا موسمی تغیرات کا نتیجہ بھی ہو  سکتا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button