کتابی باتیں
شاہ عالم علیمی
زاتی تجربہ ہے کہ اگر انسان ایک مہینے تک کسی اچھی کتاب کا مطالعہ نہ کریں تو خود کو جاہل محسوس کرتا ہے۔
میرے نزدیک وہ وقت محض ضیاع ہوا جس میں اپ نے کسی اچھی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا۔ اور وہ کوئی زندگی ہی نہیں ہے جس میں کتاب کا عمل داخل نہ ہو۔
کتاب پڑھنے سے پہلے بہت ضروری ہے کہ اپ سمجھ لیں کہ اپ کیا پڑھنے جارہے ہیں، اسی طرح پڑھتے ہوئے ہمیشہ زہن میں رکھیں کہ اس کتاب میں لکھی ہر بات سچائی پر مبنی نہیں ہے یا کم از کم اپ کے مطلب کی نہیں ہے جس سے اپ اختلاف کا پورا حق رکھتے ہیں اس کے علاوہ یہ کہ اپ اس کتاب سے زہنی طور پر بہت زیادہ متاثر ہونے کی کوشش نہ کریں۔ کتاب پڑھنے کے بعد اس پر سوچ بچار کرنا بھی ضروری ہے۔ اس پر تنقیدی نظر سے سوچنا اور اسی موضوع پر کچھ دوسرے مصنفین کو پڑھنا اور ان کا آپس میں تنقیدی تقابل کرنا بھی ضروری ہے۔ ہر کتاب من و عن سچائی پر مبنی نہیں ہوتی تاہم ہر کتاب بیکار بھی نہیں ہوتی۔ لیکن ہمیشہ ایسی کتابوں سے دور رہیے جو محض وقت کا ضیاع ہوں۔
کچھ دن پہلے ایک سروے کے حوالے سے یہ بات سامنے ائی ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ یعنی اسی فیصد سے زیادہ لوگ سکول کالج کی نصابی کتابوں کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں پڑھتے۔ کسی بھی معاشرے کے متحرک ہونے کا انحصار اس معاشرے میں کتاب کے عمل دخل سے ہے۔
بہت سارے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ یار اپ کیسے ہمیشہ پڑھتے رہتے ہیں میں تو ایک صفحہ پڑھنے کے بعد اکتا جاتا ہوں۔ سچ پوچھئے تو مجھے اگر ایک ہفتے تک پڑھنے کا موقع نہ ملے تو میں بہت دُکھی ہوتا ہوں کہ زندگی بیکار جارہی ہے۔
پڑھنے کا عمل ایک زہنی اور دماغی عمل ہے۔ اپ کوئی اچھی کتاب خرید لیں اج اس کا ایک صفحہ پڑھ لیں کل پھر نکال کر دیکھ لیں اپ دو صفحے پڑھ لیں گے۔ پرسوں تین اور اگلے دن اپ پوری کتاب پڑھے بیغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ایک کتاب پڑھنے کے بعد مزید پڑھنے کی طلب ہوگی۔ یہ نشہ ہے جس طرح ایک نشائی مے کے بیغیر نہیں رہ سکتا ہے اسی طرح پڑھنے والا کتاب کے بیغیر نہیں رہ سکتا۔ یاد رکھیں یہ سب سے اچھا نشہ ہے۔
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کتاب کھولنے کے کچھ دیر بعد ہی دل میں خیال اتا ہے کہ کب جلدی جلدی پڑھ کر اخری صفحے تک پہنچ جاؤں، اس خیال کا ایک اعلاج تو یہ ہے کہ اپ کتاب کو بیج سے پڑھنا شروع کریں مثال کے طور پر اپ باب سوم سے پڑھ لیں بیج میں اگر کوئی باب غیر دلچسپ ہو تو اسے بھی چھوڑ کر اگے بڑھیں اپ اخری باب پڑھنے کے بعد بڑے اشتیاق کے ساتھ واپس آکر دوسرے تیسرے یا جہاں سے اپ نے سیکپ کیا تھا وہاں سے پڑھنا شروع کریں گے۔ اس طرح پوری کتاب پڑھ لیں گے۔ جب مطالعہ ختم ہوگا تو اپ اپنے اپ اس پر سوچ بچار کریں گے اور جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے اسے زہنی طور پر جوڑنا شروع کریں گے۔
ایک پروفیشنل ریڈر ہمیشہ ہر ایک صفحہ نہیں پڑھتا یعنی پوری کی پوری کتاب نہیں پڑھتا، بلکہ وہ اس بنیادی نکتے کو سمجھنے تک پڑھتا ہے جو وہاں بیان ہوا ہے۔ اگر ہر صفحہ پڑھنا شروع کردیں تو پھر مہینے میں اپ بمشکل دو تین کتابیں پڑھ پائیں گے۔ تاہم یہ کتاب کے موضوع اور اس کے مواد اور مصنف/ لکھاری کے لکھنے کے انداز اور انداز بیان پر بھی منحصر ہے کہ اپ کتاب کا کتنا فیصد پڑھتے ہیں۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا حرف بہ حرف پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور کچھ ایسی بھی ہیں جنھیں دو دو بار پڑھنے کو دل کرتا ہے۔
اج کل کتابوں کی قیمتیں بھی کافی بڑھ گئی ہیں۔ ایسے میں ہر کتاب خرید کر پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم جدید دنیا کی اچھائیوں میں سے ایک اچھی بات اب کتابوں کا سوفٹ کاپی کی صورت میں ملنا ہے۔ اب اپ انٹرنیٹ پر ہزاروں بلکہ لاکھوں بہت ہی اہم اور قیمتی کتابیں تقریباً مفت میں پڑھ سکتے ہیں۔ اب ایسے ایپ Applications انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں جہاں اپ سینکڑوں کتابوں کو ایک وقت میں ایک ہی جگہ ڈاؤن لوڈ کرکے مزے سے پڑھ سکتے ہیں۔ میں جب گریجویشن کررہا تھا تو اس وقت فلسفے کی تقریباً تمام کتابیں مارکیٹ میں دستیاب نہی تھیں۔ پھر میں نے ان کو انٹرنیٹ پر ڈھونڈا اور یہ لیں پلک جھپکنے میں میری مطلوبہ کتابیں میرے سامنے تھیں اور وہ بھی بالکل مفت۔ آن لائن کتابوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اپ اپنے ‘محبوب’ موبائل فون سے جدا ہوئے بیغیر آرام کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ آجکل نہ صرف کتابیں پڑھی جاتی ہیں بلکہ سنی بھی جاسکتی ہیں۔ جی ہاں دراصل آجکل درجنوں ایسے ویب سائٹس ہیں جہاں اپ آن لائن یا ڈاؤن لوڈ کرکے اف لائن اپنی پسندیدہ کتاب سن سکتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اپ چلتے پھرتے دوڑتے آرام کرتے یا لیٹے کسی بھی حالت میں کتاب کو سن سکتے ہیں البتہ یہ سہولت ترقی یافتہ زبانوں جیسے انگریزی وغیرہ میں دستیاب ہے اردو میں میرا نہیں خیال کہ ایسا کوئی کام ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو مجھے بھی بتائے گا۔
ہمارے یہاں بدقسمتی سے لوگوں کا رجحان روح کی تسکین نہیں بلکہ جھوٹی انا کی تسکین کی طرف زیادہ ہے۔ ہمارے علم کا معیار بہت پست اور علم کے زرائع سنی سنائی باتیں جعلی یا مسخ شدہ تاریخ اور جعلی سائنس ہیں یہی وجہ کہ مجموعی اور انفرادی زہنی سطح بہت نیچ ہے۔
لوگوں کی زندگی کی گاڑی چند مذہبی کہانیوں کی پٹڑی پر چلتی ہے۔ خود مذہب کے حوالے سے ان کو صیح علم نہیں ہے۔ اپ ان سے بحث کریں ان کی سوچ اور گفتار کی دنیا شخصیت پرستی اور انا پروری پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ بحث و مباحثہ سے پہلے ہی وہ طے کرچکے ہیں ہوتے ہیں کہ وہ ان کا مذہب ان کے باپ دادا ان کے پیر و مرشد ہی سچائی کے راستے پر ہیں اور کسی کا سچا ہونا محال ہے۔
جب اپ ان سے پوچھیں کے کہ اپ نے اپنے متعلقہ مذہب، فرقےیا دھرم کی آسمانی کتاب زندگی میں ایک بار دو تین اہل علم کے اس کتاب مذکور پر کمینٹری کے ساتھ پڑھ چکے ہیں تو اپ کو جواب ہمیشہ آئیں بائیں شائیں ہی ملے گا۔
یہ مذہبی لوگوں کا المیہ ہے، آجکل ہمارے ہاں ایک بڑا طبقہ مذہب مخالف لوگوں کا بھی ہے۔ میں نے نوٹس کیا ہے کہ ان میں اور مذہبی لوگوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ان کی اکثریت فیشن کے طور پر یا توجہ حاصل کرنے کے لیے یا اپنے مخالف مذہبی لوگوں کو سبق سیکھانے کے لیے مذہب خدا اور مذہبیوں پر بیہودہ الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان کا مخصوص لیٹر یچر سے متاثر ہونا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ پڑھتے وقت احتیاط کرلیں کہ اپ کیا پڑھ رہے ہیں اور یہ کہ ایک ہی قسم کی کتابیں نہ پڑھا کریں۔ مخلوط کتابیں پڑھیں جس سے وسعت نظر و وسعت قلبی پیدا ہوگئی اور دماغ کھل جائیگا۔
یہاں مذہب کی بات ہمارے معاشرے کی مجموعی ذہنی کیفیت کی وجہ سے ائی ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ جسے ہم نے پچھلے ایک مضمون میں بھی بیان کیا ہے ہمارے نصابی کتابوں میں دی جانی والی تعلیم ہے۔ تقریباً ہر کتاب میں چاہئے وہ تاریخ کی ہو سائنس کی ہو ادبیات کی ہو سیاسیات ہو جیوگرافی کی ہو اس میں مذہب کو کسی نہ کسی طرح ضرور گھسیٹا گیا ہے، ایسے میں یہ امتیاز کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ کتاب دراصل کس موضوع پر ہے۔
بہرحال اگر اپ روزانہ صرف آدھے گھنٹے مطالعہ کریں تو ایک سال میں اپ دو ملین الفاظ پڑھ پائیں گے۔ پڑھنے سے جہالت کی بیماری ختم ہوتی ہے۔ اپ اس وقت تک جوان رہتے ہیں جب تک اپ پڑھتے رہتے ہیں۔ کتاب اپ کی تنہائی کی ساتھی اور قصہ گو ہے لہذا اپ کبھی بھی خود کو تنہا نہیں پائیں گے۔ لہذا کتاب پڑھنا شروع کریں اور تنہائی اور جہالت سے دور رہیے۔