پت جھڑ کی ایک اداس شام
درکوت میں ائے ہوئے ہمیں چھ مہنے بیت چکے ہیں۔یہ بیتے ہوئے پل یادیں بن کر ذہين کے کسی گوشے میں پیوست ہو چکے ہیں۔ دل کے بند دریچے جب بھی کھلتے ہیں تو یادیں ہجوم بن کر دل و دماغ پر چھا جاتی ہیں ۔ یادوں کے انبار دل میں لئے حسب معمول غم روزگار سے فراغت کے بعد سٹاف ہاؤس کے ایک کمرے میں ”جس کی کھڑکی غمو بر کی طرف تھی“ مقید ہوگئے۔ اس مقام سے درکوت کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے لگے، نظاره آشام لوگوں کی صفوں میں ہم بھی شامل رہے ہیں ،کیونکہ اِس جگہ سے درکوت کا نظاره منفرد لگتا ہے۔
غمو بر سے آنے والی یخ بستہ ہوائیں جب گالوں سے ٹکراتی ہیں، تو اُس کی شدت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ غمو بر کا پانی جو کسی اژدهے کی طرح بل کھاتا ہوا غمو بر جھیل میں گرتا ہے۔
اِن دنوں سطح سمندر سے 8878 فٹ کی بلندی پر واقع درکوت میں موسم خزاں کی آمد آمد ہے۔ زرد پتے درختوں کو الوداع کہنے کے لئے کسی جھونکے کے منتظر ہیں۔ یہ زردی مائل پتے ہندوکش کے باسیوں کو موسم سرما کی آمد کا سندیس دیتے انہی مناظر کا نظاره کرتے ہوئے نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا کہ یکایک ہوا کا ایک تیز جھونکا نہیں معلوم کس سمت سے وادی میں وارد ہوا!
کون سا جھونکا بجھا دے گا، کسے معلوم ہے۔۔
زندگی اک شمع روشن ہے ہوا کے سامنے۔۔
خزاں کی دھوپ میں ٹہنی پر لٹکے ہوئے پتوں کو شاید اِسی آوارہ ہوا کے جھونکے کا انتظار تھا،
پل بھر میں زرد پتے ٹہنی کو الوداع کہہ کر کر بکھر گئے۔ دیکھنے والوں کے لئے تو یہ نظاره دل فریب تھا ، پر میرے دل و دماغ پر یہ لمحے گراں گزرے۔ منظر گویا قہر بن کر دل پر ٹوٹ پڑا، اور دل اُداسی کے ایک گہرے سمندر میں اتر گیا ۔ کہاں بہار کی وہ رت ، اور کہاں خزاں کی یہ اُداس سرمئی شام ۔۔۔
مئی کے آغاز سے درکوت کا قدرتی حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ ہر طرف ہریالی ،گرتے ہوئے شفاف پانی کے جھرنے۔۔ گنگناتے گیت گاتے ہوئے دریا ، پردیسی پرندوں کی آمد اور اُن کی شورو غل سے فضا میں ایک سحر طاری ہو جاتی ہے ۔درکوت کو تاریخ میں منفرد حیثیت حاصل رہی ہے ،کیونکہ درکوت تین وادیوں کے سنگم پر واقع ہے ،ان میں غمو بر ، گیکوشی ،اور گلتنز بر شامل ہیں۔ غمو بر کے راستے تھوئی ،گیکوشی کے راستے بروغل ،اور گلتنز بر کے راستے اشکومن تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ درکوت کی شہرت اِس وجہ سے بھی ہے کہ یہاں پر جولائی 1870 میں روئل جیوگرافیکل سوسائٹی کے جارج ہیورڈ مہاراجہ کشمیر کے ایماء پر قتل ہوئے تھے۔ وہ انتہائی اہم مشن پر پامیر جا رہے تھے ۔اس وجہ سے درکوت کا نام عالمی سطح پر نیک نامی میں نہیں، بلکہ بدنامی میں مشہور ہوئی۔
اِسی سال جولائی کے مہنے میں ایک جرمن سائیکلسٹ کاسٹین ٹینو ونڈرا اپنے سائیکل پر طویل مسافت طے کر کے درکوت میں ائے ،ٹینو سائیکل پر کم و بیش 20 ممالک کا سفر کر چکے تھے ۔ میں نے اِن سے دریافت کیا کہ درکوت کے بارے میں معلومات کہاں سے ملے ،تو اُس نے اپنے موبائل میں تین کتب جو سافٹ میں تھیں دکھائیں ، جو کہ گریٹ گیم کے بارے میں تھیں، اور اِن کتب میں جابجا درکوت کا ذکر موجود تھا ۔انہوں نے بتایا کہ یہی کتب مجھے درکوت کھنچ لائے ہیں۔کسٹین ٹینو تین دِن ہمارے پاس قیام کرنے کے بعد واپس اسی سائیکل پر لوٹ گئے۔
اِسی سال اگست کے اواخر تک میں پانچ غیر ملکی سیاحوں سے مل چکا تھا ۔تاہم ستمبر کے بعد یہاں رونقیں ماند پڑھ گئی ہیں، اگست تک درکوت میں خوب رونق اور چہل پہل ہوتی ہے۔ شہر کے بہنگم بھیڑ میں مرجھائے ہوئے چہرے یہاں پہنچ کر کھل اڑتے ہیں ۔
مگر آج اِس لمحے نہ وہ چہل پہل تھا نہ ہی کچھ اور ۔۔ بے ساختہ لبوں پر شعر یاد ا گیا۔۔
یہ کس سکوت کی صحرا میں قید ہیں ہم
کہ زندگی کی کہیں دُور تک صدا بھی نہیں۔۔
مجھے کھڑکی کے پاس بیھٹے کافی وقت گزر چکا تھا ،میں نے نگاہیں جب آسمان کی طرف کیں، تو سورج کی آخری کرنیں بھی خلتر کے پہاڑ کو الوداع کہنے والی تھیں ۔ اس لمحے ڈوبتے سورج کی کرنیں دلکش نظاره پیش کر رہی تھیں۔۔لیکن سر ہنری نیوبلٹس نے اپنی نظم میں چڑھتے سورج کی کرنوں کا ذکر کر چکے تھے ۔ تعجب والی بات ہے کہ سر ہنری نیوبلٹس زندگی میں کبھی درکوت ائے نہیں تھے، لیکن نظم کچھ اِس انداز سے لکھی تھی کہ پڑھ کر آنکھ ضرور پرنم ہو جاتی ہیں ۔
خزاں کی رت کو بہکی بہکی نظروں سے دیکھنے کے بعد میں پیچھے مڑ کر بیٹھ گیا۔
میرے عقب میں، کمرے کے ایک طرف حضرت آمان صاحب لیٹے ہوئے تھے اور کسی گہری سوچ میں گھوم تھے۔ حضرت آمان صاحب میرے سٹاف بھی ہیں اور رومیٹ بھی۔۔
صاحب مؤثق مزاج کے مالک اِنسان ہیں، لیکن کبھی کبھی شاہانہ مزاج بھی رکھتے ہیں ، ہنسی مذاق میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ، بیٹھے بیٹھے اچانک اٹھ کر دیسی ڈول کی تھاپ پر” جو عموماً ہمارے موبائل فون میں ہوتے ہیں“ رقص پیش کریگا ،اور ہم اس رقص سے لطف اندوز ہوتے۔
ایک بہترین دوست کے تمام لوازمات بہ درجہ اتم اِن میں موجود ہیں ۔گفتگو کے دوران انگريزی زبان بولنے کو فوقیت دیتے ہیں اور ہمیں بھی بولنے پر مجبور کرتے ہیں۔زندگی کا بیشتر حصہ خدمت میں گزار چکے ہیں ۔اور آج بھی ادارجاتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ میں نے صاحب کو آواز دی۔۔
میرے بلانے پر چونک گئے ۔۔
میں نے حضرت امان صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔
”سر سردیاں ہماری چوکھٹ پر پہنچ گئی ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں“ ۔۔
صاحب اپنی جگہ سے اٹھیں اور میرے پہلو میں اکر کھڑے ہوئے ،اور باہر کا نظاره کرنے لگے ،
ایک لمبی سانس لینے کے بعد کچھ دیر خاموش رہے ، پھر بنا کچھ بولے واپس اپنی جگہیں پر جا کر بیٹھ گئے ۔چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ خزاں کی یہ شام مجھے ہی نہیں، حضرت امان صاحب کو بھی اُداس کر گئی ہے۔۔
میں ایک زوردار قہقہا لگا کر کمرے سے باہر نکل گیا ،،
شاہد صاحب جو ایک نرم مزاج انسان ہیں اور ہمارے رومیٹ بھی ہیں مجھے کہنے لگے ۔۔
ظفر صاحب بازار جانا ہے ۔۔۔
ہم باہر نکلے اور شام کے دھندلکوں میں صوبیدار درویش کی دکان کی طرف نکل گئے۔۔