کالمز

ماحولیاتی بے خبری اور موسمیاتی جنگ (قسط اول)

دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اس آبادی کے بڑھنے سے دنیا کے وسائل میں کمی آرہی ہے۔ ماضی میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے صنعتی دور کا آغاز ہو ا، اور دنیا ترقی کرتا رہا اور لوگوں کی ضروریات کو سائنسی بنیادوں پر پورا کرناشروع ہوا۔جہاں یہ ضروریات پوری ہوئی اس کے ساتھ ساتھ اس ترقی نے دنیا میں منفی اثرات چھوڑاجو کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ بنی۔

پھر صنعتوں سے خارج ہونے والے دھویں میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ فضائی آلودگی کا باعث بنتے رہے۔

یہ کاربن آکسائیڈ ز درجہ حرارت میں اضافہ کرتے ہیں جسے ہم گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔ جس سے گلیشرز کے پیگھلاو شروع ہوتا ہے۔

دنیا میں دہشت گردی اور عالمی معاشی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سب سے زیادہ زیر بحث آنے والامسئلہ بن چکا ہے جس کے اثرات دنیا میں ہر طرح سے اثرانداز ہو رہا ہے۔جس نے سائنسدانوں اور ماہرین کو ممکنہ حل کے لئے ایک جگہ بیٹھنے پر مجبور کیا ہیں۔ا گر پچھلے تیس سالوں سے ابھی تک دیکھا جائے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ موسم بدلا ہے، آلودگی بڑھی ہے، زلزلہ میں تیزی آئی ہے، سمندری طوفان میں تیزی، سیلاب اور برفباری، قحط سالی، گلیشرز کا پگھلاو اور جانوروں کے مسکن پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف WWF نے ICIMODکے تعاون سے انوائرمنٹل جرنلزم کے نام سے گلگت میں تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔جس میں صحافی، کالم نگار اور بلاگرز شریک تھے۔اس ورکشاپ کا مقصدپرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا بہتر استعمال کرتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے صحافیوں کو آگاہ کر کے لوگوں میں شعور اُجاگر کرنا شامل تھا۔اور ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر قدرتی ماحول کی تحفظ اور موسمی اثرات کے حوالے سے گلگت کی سطح پر پالیسی مرتب کر کے اس کے نفاذ کو یقینی بنانا شامل تھا۔یہ بات ناگزیر اس لئے بھی ہے کہ پاکستان میں تقریباً اسی فیصد گلیشرز گلگت بلتستان میں ہے۔ جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے تیزی سے پگل رہے ہیں۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ ملک خشکی میں تبدیل ہوجائے گا۔

اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کرے تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات یہاں پر بہت زیادہ ہے اور دنیا میں اس سے متاثرہ ممالک کے فہرست میں پاکستان آٹھواں نمبر پر ہے۔ دنیا میں بائیس ممالک اور جنوبی ایشیا میں تین ممالک ایسے ہے جہاں سردی، گرمی، بہار اور خزاں یعنی چاروں موسم پائے جاتے ہے ان تین میں سے ایک پاکستان بھی شامل ہے۔

ماحولیاتی ماہرین نے اس بات سے پاکستان کو آگاہ کرچکے ہے کہ جس تیزی سے پاکستان میں درختوں اور جنگلوں کی کٹائی ہورہی ہے۔ اگر اسے نہ روکا گیا اور نئے درخت نہ اُگائے گئے تو آنئدہ دس سالوں میں پاکستان میں صرف دو موسم سردی اور گرمی رہ جائیں گے۔

پاکستان کے بیشتر افراد اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ ملک میں جو بجلی استعمال ہوتی ہے وہ اُس جگہ سے آتی ہے جہاں پر توانائی کی پیداوار کے لئے کوئلہ، تیل اور دوسری ایسی چیزوں کا استعمال کرتے ہے جس سے ہوا، پانی آلودہ ہوتی ہے۔ زمین اور جنگلی حیات تباہ ہوتی ہے، ماحولیات کو نقصان پہنچتاہے۔لوگوں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔

موسمی تبدیلی اور ان سے ہونے والے نقصانات یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔بلکہ دنیا والوں کو یہ پہلے سے معلوم تھا کہ یہ سب ہونے جا رہا ہے اور اس کی وجہ 1750ؑؑؑؑؑسے شروع ہونے والا صنعتی انقلاب، اور عالمی جنگوں نے دنیا کے موحول کو تباہ و برباد کیا ہے۔

مختلف ممالک میں حیرت انگیز طور پر موسم تبدیل ہو رہا ہے جو پوری دنیا میں پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ماہرین ماحولیات کے مطابق جنوری 2019کے صرف 31دنوں میں گرمی کے 35 اور سردی کے دو نئے ریکارڈ قائم ہوگئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ کاربن گیسوں کا اخراج ہے۔

اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق 2000 سے کوئلے کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور اسے روکنے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق خطرہ یہ بھی ہے کہ 2100 تک زمین کی سطح کے درجہ حرارت میں 3.7اور 4.8ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

اقوام متحدہ نے دسمبر 2015میں پیرس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تھیں۔کرہئ ارض کے درجہ حرارت کے عمل کو روکنے اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اہداف مقرر کئے گئے تھے۔

موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں اب تک ہزاروں افراد متاثر ہوئے،اربوں روپے مالیت کے فصلیں، مکانات وغیرہ سیلاب کی نظر ہوگئے ہیں۔جس میں 2010کا سیلاب نمایاں ہے۔ پاکستان کے تین بڑے شہر کراچی، لاہور فیصل آباداور گلگت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خطرناک تصور کئے جاتے ہے۔ 2015میں آنے ولے ہیٹ ویو سے تھر اور کراچی کے ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پاکستان بھی ان 190ممالک میں شامل ہے جنھوں نے پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ پر دستخط کئے ہے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کے درجہ حرارت میں اسی طرح سے اضافہ ہوا تو بہت سے ممالک ڈوبنے کا اندیشہ ہے۔اور ساتھ ساتھ بحرہ عرب بڑھنے سے کراچی اور ملیر کے ڈوبنے کا بھی اندیشہ موجود ہے۔اور بین الاقوامی اداروں نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ اگر کراچی ڈوب جائے تو تین سے چار کروڈ افرادماحولیاتی مہاجرین بن سکتے ہے۔

اس ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کے دریاوں میں 15 سے 20فیصد کمی آچکی ہے۔اور پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21ارب ڈالرمالیت کا پانی سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔جبکہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30دن ہے۔

بی بی سی کے مطابق سائنس دان کہتے ہے کہ موسم اچانک تبدیل ہونے کی وجہ سے جانداروں کی نسلیں ناپید ہونگے، بارشوں میں اضافہ ہوجائے گا، سمندر سے دور علاقوں میں خشک سالی ہوگی اور موسم گرما کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔اور زیادہ اثر غریب ملکوں پر پڑے گا جہاں اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے وسائل کی کمی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا ہے کہ پانی سے پیدا ہونے والے بیماریاں، اور قحط سالی سے لاکھوں لوگ مر جائیں گے۔

مختلف ماہرین اور اداروں کے مطابق سال 2018 میں انسانی استعمال سے سینتیس کروڑ ٹن اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہماری فضا میں داخل ہوئی۔اور اس میں سے پاکستان کا حصہ تقریباً ڈھائی لاکھ ٹن ہے۔اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ سال میں چھ کروڑ سے زائد افراد ماحولیاتی تبدیلی سے براہ راست متاثر ہوئے اور نقل مکانی کرنا پڑی۔

انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج اور نیشنل اوشین اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن کے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2016 نے گذشتہ برس کے بھی درجہ حرارت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اور گذشتہ 137برسوں سے جب سے درجہ حرارت کو ریکارڈ کیا جا رہا ہے اس وقت سے ابھی تک یہ گرم ترین سال رہا ہے۔

ایک اور طبی جریدے دی لینسٹ کی رپورٹ کے مطابق 2015میں دنیا میں 90 لاکھ افراد کی ہلاکت کی وجہ آلودگی تھی۔سائنسدانوں کا کہناہے کہ پیرس معاہدے کی پاسداری کرنا ہوگی جس میں 150 سے زائد ممالک عالمی حدت میں دو سنٹی گریڈ محدود کرنے پر متفق ہوئے ہیں۔ (جاری ہے)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button