کالمز

آدم تیرے بیٹوں کی نظر ٹھیک نہیں ہے

تحریر: عابدہ اسلام
گاہکوچ

ایک مخلوق جو  کبھی وحشی جانوروں اور درندوں  کی صف میں  شمار ہوتی تھی ،   جنگلوں  اور غاروں میں   گزر اوقات کیا کرتی تھی ، آج چاند  اور ستاروں پر کمندیں ڈالتے ہوئے  سیاروں اور ستاروں     کی باسی  بننے کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ یہ ہے حسرت انسان     جس کا سفر غار وں  اور جنگلوں سے شروع ہوا  اور آج  گلوبل  ویلج      کی برقی  منزل سے نکل کر  نا معلوم   منزل کی جانب گامزن ہے  ۔ اس سفر میں    انسان کی مطمع نظر ایک ہی چیز رہی اور  وہ یہ کہ  زندگی کو کس طریقے سے  آسان سے آسان تر بنائی جاسکے ۔   سوچیں تو انسان  نے سب کچھ کرنے کے بعد کچھ بھی نہیں کیا ہے ۔

 ؎
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کيا
زندگی کی شب تاريک سحر کر نہ سکا!

 انسان نے سائنس کے میدان میں اتنی ترقی کی کہ اس کے پاس ہر درد کی دوا موجود ہے ۔ لیکن اُس گھٹا ٹوپ اندھیرے  کا کوئی علاج دریافت نہیں کر سکا  جو صدیوں سے اس معاشرے پر چھا یا ہوا ہے ۔ ہمار ےمعاشرے کی مثال اُس  چراغ  کی ہے  جو اپنے نور سے کبھی  مستفید نہیں ہو سکا۔

میں شاید غلط  ہو سکتی ہوں لیکن  میرے اندر  کا  انسان  کہہ اٹھتا  ہے کہ  ہمارے معاشرے میں ایک ایسی تاریکی اور ایک ایسا  جان لیوا   بیماری انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹائے جا رہی ہے  جس کا مداوا آج تک نہیں ہو سکا     ۔  یہ ایک ایسا  مہلک  مرض ہے  جو آج تک کئی ایک معصوم   زندگیوں  کا چراغ گل کر چکاہدے   ۔ یہ  مرض  اُس وقت سر اُٹھاتا  ہے جب   حوا کی بیٹی  اپنے بنیادی حقوق کے وصول کےلئے  جائز آواز  بلند کرنے کی سعی کرتی ہے  ۔ یہ بہت ہی افسوس ناک امر ہے کہ   ہمارے  معاشرے میں عورت   کی حیثیت ایک ایسی مخلوق  کی ہے کہ  جس کو  اس کرّرہ   ارض  پر  جینے کا کوئی حق حاصل نہ  ہو سکا ۔ ہمارا تعلق کسی اور دین سے ہوتا  تو  بات کسی حد تک  ٹھیک تھی لیکن        جب اسلام  کی بات ہوتی ہے تو  یہ وہ دین ہے   جس نے عورت کو  ایک  اعلی ٰ مقام  سے نوازا ہے ۔  عورت جس کسی  بھی سانچے میں ڈھلی  ہو  ئی  ہو قابل احترام ہے ۔ عورت ماں ہے ، بہن ہے بیٹی ہے اور بیوی ہے لیکن  جب    غیرت کا نام نہاد لفظ آڑے آتا ہے تو  وہاں  سارا قصہ   دم توڑ دیتا ہے ۔

یاد رہے کہ جب ایک عورت پید ا ہوتی ہے تو کسی کی بیٹی ہوتی ہے ۔ شادی کے بعد کسی کی بیوی بن جاتی ہے اور پھر کسی کی ماں ۔۔۔۔ کیا آپ نے غور کیا ہے کہ  بیٹی جب میٹرک پاس کر لیتی ہے تو گویا  اُس کی زندگی کی کہانی  یہیں ختم ہوتی ہے  ۔ میٹرک سے آگے   کسی اچھی یونیورسٹی   کے داخلہ فارم  کی  جگہ نکاح نامہ تھما دیا جا تا ہے   لیکن ہم یہ بھی درست مان لیتے ہیں    لیکن کیا آپ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ  ہمارے معاشرے میں ایک عورت جب گھر سے  کسی کام سے نکلتی ہے تو   اپنے ہی معاشرے نظریں   اُس پر اس حد تک مرکوز ہوتی ہیں کہ عزت نفس چھلنی ہو جاتی ہے  ۔   معاشرے کو  ایک لفظ خوب ازبر ہے اور وہ  ہے  "غیرت” جسے انہوں نے  صرف اور صرف عورت   کی ذات تک محدودرکھا  ہے ۔ قتل و غارت گری ،  معاشرتی  نا ہمواری ، چوری ڈکیتی  ،   مذہبی شدت پسندی ، بعض و کینہ   اور  آپس میں نفرتوں کے بیچ  بوتے وقت  کسی کو کوئی غیرت کا سوال نہیں سوجھتا ۔  افسوس ناک بات یہ ہے کہ  ہمارا معاشرہ  ٹیڑھا  ہوتا  جا رہا ہے ۔ کہنے کی حد تک سب کہتے ہیں  مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیوں کی مثال ہیں  لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔  کیا میں آپ سے  کر سکتی ہوں کہ  آپ نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر  اپنا احتساب بھی کیا ہے ؟ آپ نے کبھی اپنی مرد اولاد سے  بھولے سے بھی پوچھنے کی جسارت کی ہے  ان کی سرگرمیاں کیا ہیں ؟    میری نظر میں معاشرے کے اس متعصبابہ  رویئے  کی وجہ سے کئی ایک برائیاں جنم لیتی ہے ۔ ۔ مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی  کہ  غیرت کا  ڈھنڈورایٹنے  والوں کی غیرت کہاں  سوئی ہوئی ہوتی ہے جب   ذینب جیسی معصومہ  کو   وحشیانہ ہوس کا شکار بنایا جاتا ہے   ،کہاں تھی ان کی غیرت جب پنجاب کے کسی پنچائیت کے حکم پر بنت حوا کو وحشی بھیڑیوں نے دبوچ لیا ۔ہم روز یہ خبریں سنتے  سنتے تھک گئے ہیں کہ فلاں جگہے میں ایک عورت پر  تیزاب پھینک دیا  گیا   اور کبھی  ٹیلی وژن پر یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے   کہ معصوم بچیوں کو جانوروں کی طرح  زنجیروں میں جکڑے  رکھتے ہیں    ۔ آخر کس نے ان  انسان نما  درندوں کو یہ حق دیا ہے کہ  عورت کو اپنی مرضی سے ظلم کی چکی میں پیستے رہیں ۔آدم تیرے بیٹوں کی نظر ٹھیک نہیں ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button