کالمز

انٹر نیٹ کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت کی جدوجہد

سعیدالرحمن 

مختلف بین الااقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ 1992 میں متعارف ہوا تھا تب سے کچھ اداروں میں اسکا بہت ہی محدود استعمال ہوتارہاہے جبکہ 1996 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا ادارہ قائم کیاگیا۔ 2007 میں جب سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ کاآغازہواتو اسکے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اسی لئے 2009 میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کیلئے سائبرکرام ایکٹ نافذ کیاگیامگر اسکے خلاف بہت سارے لوگوں نے بولنا شروع کیا۔ مخالفت کرنے والوں کاکہناتھا کہ اس ایکٹ کے ذریعے عام لوگوں کی آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر حکومت کا مؤقف تھا کہ سوشل میڈیاکے ذریعے دہشت گردی اور نفرت آمیز مواد کی روک تھام کیلئے یہ ایکٹ لگایاگیاہے۔ اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد بھی سوش میڈیا کیاستعمال میں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اس میں راتوں رات اضافہ ہوتارہا جس کے بارے میں 2014 کی ایک رپورٹ میں اعدادوشمار بتاتے ہوئے لکھاگیاکہ پاکستان میں دو کروڑ سے زائد لوگ سوشل میڈیا کااستعمال کرتے ہیں جن میں سے دو تہائی کی عمر تیس سال یا اس سے کم ہے اور یہ کہ اس میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ پاکستان میں جوں جوں سوشل میڈیاکے استعمال میں اضافہ ہواہے وہاں ہر دور کی حکومت نے اسکو محدود کرنے کی بھی کوششیں کی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں 70 فیصد لوگ صرف فیس بک استعمال کرتے ہیں۔لوگ فیس بک کا استعمال اپنی تصاویر اپلوڈ کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ اپنی رائے کا کھل کر ا ظہار کرنے کاکام بھی لیتے ہیں۔پاکستان میں سوشل میڈیا نے روائتی میڈیا انڈسٹری کی سمت تبدیل کردی ہے۔پہلے جہاں میڈیا اپنی مرضی کی خبریں نشر کرتاتھاجس میں بہت ساری اہم خبریں نشر نہیں ہوپاتی تھی مگر سوشل میڈیا نے ہر فرد کو آواز دی اب اگر کسی اہم موضوع کو عام میڈیا نشر نہیں کرتاتو سوشل میڈیا پر نشر کرنے سے منٹو اور گھنٹوں میں پوری دنیا تک وہ خبر پہنچ جاتی ہے ایسے میں میڈیا چینلز کی بھی مجبوری بن جاتی ہے کہ اس خبر پر خصوصی پروگرامز کئے جائیں۔ پاکستان میں اسکی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جن واقعات پر میڈیا نے خبر نہیں چلائی، سوشل میڈیا پر زیادہ وائرل ہونے کی وجہ سے اسی واقعے پرپورا پروگرام کرناپڑا۔

ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیاکے استعمال نے لوگوں میں شعور اور سنجیدگی پیداکرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔بے شمار اچھے لکھاری سوشل میڈیا کی ہی بدولت پیداہوئے جنکو کوئی جانتاتک نہیں تھا آج دنیا میں اپنا نام رکھتے ہیں۔اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو ایسے لوگ کہیں دب کر رہ جاتے۔ بدقسمتی سے یہی اچھے لکھاری مختلف اکاؤنٹس سے نفرت آمیر موادبھی سوشل میڈیاپرڈالتے رہتے ہیں جس سے معاشرے میں انتشار اور فسادپھیلتاہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مشال کے قتل میں سوشل میڈیا کاکتنااہم کردار تھا۔ سوشل میڈیا مختلف سیاسی تنظیمیں اپنی سرگرمیوں کے اشتہار کیلئے اور کارکنان کو جوڑے رکھنے کیلئے بھی استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا جہاں اچھے کاموں کیلئے استعمال ہورہاہے وہاں اسکے منفی استعمال میں بھی انتہائی شدت آئی ہے۔ایک رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والوں میں خواتین کی نسبت مردوں کی تعدا دو گناہ ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ ساری خواتین ہیں اسی رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی کہ خواتین کے ان فیس بک اکاؤنٹس 60 فیصد فیک ہیں۔ بہت ساری شدت پسند تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیامیں اپنا کام چلا رہی جسکی تازہ مثال کراچی کی ایک طالبہ کا داعش کے ہاتھوں عراق تک پہنچناہے۔

اس وقت پاکستانی حکومت انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کیلئے نیا قانون متعارف کروارہی ہے مگر سوالیہ نشان یہاں لگتاہے کہ کیایہ قانون عملی طور پر نافذ ہوپائے گا کیونکہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ مختلف حکومتوں نے اس حوالے سے قوانین بنائے مگر عملی طور پر ان قوانین کا نفاذ نہیں ہوپایا۔اب نئے سرے سے جو قانون بنایاجارہاہے اسکے حوالے سے حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے روک تھام کرناہے مزید یہ کہ پاکستان میں لوگ انٹرنیٹ پر بہت زیادہ مواد ڈالتے ہیں جس سے اسکے مالکان بہت زیادہ کمارہے جبکہ اسکا پاکستانی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔حکومت کا یہ مؤقف درست ہے اور انٹرنیٹ کو کنٹرول کرناکوئی غلط بات بھی نہیں مگر نئے قانون کے حوالے سے لوگوں کے شبہات یہ ہیں کہ انٹرنیٹ ماہرین اگر قانون بنائیں تو وہ قابل عمل بھی ہوگا اور اس میں غلطیوں کی کمی بھی متوقع ہوگی مگر یہاں اسکے برعکس ہورہا۔پچھلی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی قانون انہی کے ذریعے بنوارہی جنکا خود انٹرنیٹ شاید کوئی واسطہ ہو۔پھر جوقانون کی کچھ شقیں سامنے آئی ہیں وہ دیکھ کر ہنسی روکنا مشکل ہوتاہے جیسے فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر اکاؤنٹس بنانے کیلئے رجسٹریشن ضروری ہوگی اور یہ کہ رجسٹریشن کی فیس بھی دینی ہوگی۔ پہلی بات تو یہ طے ہے کہ اس سے سوشل میڈیا یوزرز کی تعداد میں بہت زیادہ کمی آئے گی کیونکہ لوگ پہلے ہی مختلف موبائل کمپنیوں کے انتہائی مہنگے پیکجز خرید کر سوشل میڈیا استعمال کررہے ایسے میں فیس دے کر رجسٹریشن کروانی والی بات عوام برداشت نہیں کرے گی ہاں البتہ ایک حد سے زیادہ لائکس، فالورز اور سبسکرائبرز ہوں تب رجسٹریشن کروانا لازمی قرار دیاجائے تو یہ کام آسانی سے ہوسکتا ہے کیونکہ مسلسل محنت اور صبر سے کام لینے کے نتیجے میں وہ اس مقام تک پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ جہاں صرف رجسٹریشن فیس نہ دینے کی وجہ سے اپنے اکاؤنٹس بندکروانا گوارا نہیں کرسکتے۔

موجودہ حکومت کو سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ پچھلی حکومتوں سے زیادہ ہوجانا چاہیے کیونکہ اسکے برسراقتدار آنے میں سوشل میڈیا کاکردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ایسے میں یہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں کے نقش قدم پر چل پڑے گی تو اس قانون کا بھی پچھلے قوانین والا حال ہوجائے گا۔

سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے قانون بنانا وقت کی ضرورت ہے مگر یہ قانون جلد بازی اور ناتجربہ کار لوگوں کے ذریعے بنوانا غلط ہے۔ اتنی کوئی جلدی نہیں کہ کچھ ہی دنوں میں یہ کام ہوجائے۔ اگر مہینے لگنے ہیں تو سال لگ جائے مگر یہ کام انٹرنیٹ ماہرین اور پاکستان میں اسکامؤثر استعمال کرنے والے مختلف سٹیک ہولڈرز کی تجاویز کی روشنی میں تیار کیا جائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button