عقل سے پیدل لوگ اور کورونا وائرس
عبدالکریم کریمی
ہمارا دین ہمیشہ عقل و برہان پر زور دیتا رہا ہے اور ہماری بدقسمتی کہ ہم ہمیشہ عقل کے حوالے سے پیدل واقع ہوئے ہیں۔ کل سے تو خود کو انسان کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی ہے جب جوان سال ڈاکٹر اسامہ کے حوالے سے بے بنیاد خبریں وائرل کی گئیں۔ ہم کیسے لوگ ہیں اور نہیں معلوم ہماری صحافت کن جاہل ہاتھوں میں یرغمال ہے۔ ہم صاحبِ اولاد لوگ ہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیئے گا کہ ایسی حماقتوں سے ڈاکٹر اسامہ کے گھر والے کس کرب سے گزرے ہوں گے۔ بی بی سی لندن کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ قابلِ فخر فرزند ابھی چند لمحے پہلے رحلت کر گئے ہیں۔ وہ صرف ریاض صاحب کے بیٹے یا فرزند دیامر نہیں بلکہ ہم سب کے بیٹے ہیں اور ہمارا فخر ہے۔ اللہ پاک اپنے حبیب کے صدقے اس روحِ نو رفتہ کو غریقِ رحمت فرمائے۔ آمین!
نہیں معلوم کچھ لوگوں نے ریٹنگ کے چکر میں دو دن پہلے ہی اس قابلِ فخر فرزند کی موت کی بے بنیاد خبر دے کر سوشل میڈیا کو قبرستان کیوں بنایا تھا۔ اللہ معاف کرے۔ پھر ایک نجی ٹی چینل پر ایک نوے سالہ بزرگ، جو طبعی موت مرے ہیں، کو بھی کورونا کا مریض ثابت کرکے نہ جانے صوبائی حکومت دُنیا میں گلگت بلتستان کا کیا امیج قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس خبر پر صوبائی حکومت کو فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ اور سوشل میڈیا کے یوزرز سے بھی دردمندانہ گزارش ہے کہ علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش نہ کیجئے گا۔ خدا کے لیے۔ آپ کی یہ بے تکی حرکت دیکھ کر مرحوم جون ایلیا بے اختیار یاد آئے۔ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی تھی کہ جن لوگوں کو پڑھنا چاہئیے وہ لکھ رہے ہیں۔
اب ذرا بات کرتے ہیں اس وبا کی کہ جس نے پوری دُنیا کو اپنے شکنجے میں لیا ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر اندھی تقلید کا مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہمارا دین سات سو چھپن بار عقل پر زور دیتا ہے۔ اس حوالے سے علما کا کہنا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں مصافحہ سنت ہے، وہ درست کہتے ہیں، مگر ان کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ نقصان کے اندیشے کے باوجود مصافحہ کرنا سنت ہے، بلکہ یہاں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے، ثقیفہ کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربارِ رسالت میں حاضر ہوا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملاً بیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ ان کا سامنا کیا۔ (دیکھئے صحیح مسلم کی حدیث بائیس سو ایکتیس) گویا ایسے موقعے پر مصافحہ کرنا نہیں، نہ کرنا سنت ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں، ایمان کے ہوتے ہوئے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں، وہ صحیح نہیں کہتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو، جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کر بھاگتے ہو۔ (دیکھئے بخاری شریف کی حدیث نمبر پانچ ہزار سات) گویا ایسے موقعے پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ بھی صحیح نہیں کہتے ہیں، سرکار دو عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان مقدس ہے، اونٹ کا گھٹنہ باندھو اور پھر توکل کرو۔ (دیکھئے ترمذی شریف کی حدیث نمبر پچیس سو سترہ) گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں۔
جو لوگ کہتے ہیں، کچھ ہو گیا تو ہمیں پھانسی دے دیں، ہمارا ایمان قوی ہے، وہ بھی صحیح نہیں کہتے ہیں، کیونکہ خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے، انھوں نے احتیاط کی تھی، چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا، خواہ وہ یہ بھی کہے کہ مجھے گولی مار دو یا پھانسی دے دو۔
یہ اسلامی تاریخی حقائق ہے جہاں جہاں ضرورت محسوس کی گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اہلِ بیت علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اپنے کردار و عمل سے دکھایا کہ کب کیسے اور کہاں اسلام کی عقلی تعلیمات کو زادِ راہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے خدارا! ہمیں اسلام کی حقانیت کو مدنظر رکھ کر جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیتے ہوئے اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔ سنا ہے کہ یہ وائرس بہت خطرناک ہے، دُنیا کی تاریخ میں اس سے زیادہ خطرناک وائرس نہیں آیا۔ اسی لیے ساری دُنیا لاک ڈاون ہو رہی ہے۔ آپ بھی لاک ہو جائیں۔
ان تمام ہدایات کو ہلکا یا مذاق میں نہ لیں ورنہ بعد میں پچھتانے کا موقع نہیں ہو گا۔ اگر تاریخ کے پندرہ سو سالوں میں خانہ کعبہ میں نماز بند ہوسکتی ہے تو میرے اور آپ کے محلے کی مسجد میں نماز بند ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارش میں بھی گھر میں رہ کر نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ وائرس بارش سے ہزار گنا زیادہ خطرناک ہے۔
غیر ضروری طور پر اپنے ایمان کی مضبوطی کا مظاہرہ نہ کریں، اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچائیں۔ بیماریاں اللہ کی طرف سے ہیں لیکن بقول قرآن ہمیں حکم ہے کہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ (البقرہ)
اللہ پاک عالمِ انسانیت کو اس خونی اور جان لیوا وبا سے نجات دے۔ آمین!
و ما علینا الا البلاغ المبین!