کالمز

بچوں پر سوشل میڈیا کے اثرات

تحریر: محمد قاسم نیئر مہدی آبادی

ایک دفعہ کسی کے گھر میں بھڑوں نے چھتّا بنانا شروع کر دیا تو گھر کے مالک نے دیکھتے ہی چھتّا ختم کرنے کے لیے قدم بڑھایا تو بیگم مزاحم ہوئی اور بولی کہ ان بے چاروں کو کیوں پریشان کرتے ہو۔ لگا رہنے دو ۔ مالک اپنے کام پہ چلا گیا ادھر گھر میں بھڑوں نے اس بیگم پر بری طرح حملہ کر دیا۔ جب مالک گھر واپس آیا تو بیگم کا برا حال تھا بےچاری ڈانک کے زہر اور درد کی وجہ سے ادھر ادھر بھاگ رہی تھی اور شور مچا مچا کر واویلا کر رہی تھی اوپر سے شوہر بھی غصے میں آیا اور کہنے لگا کہ یہ سب تیری بیوقوفی کا نتیجہ ہے۔ تو نے کہا تھاچھتّالگا رہنے دو کچھ نہیں ہوتا ۔اب پچھتانے کاکوئی فائدہ نہیں۔

بالکل اسی طرح ہمارے آج کل کے بچے ہیں۔ جو گھر کے گوشے میں بیٹھ کر ہمہ وقت بڑی بڑی سکرین والے موبائلز ہاتھ میں پکڑ کر انگلیوں کو سکرین پر اوپر نیچے پھیرتے ہوئے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر خاموش اور با ادب دکھائی دےرہے ہوتے ہیں ۔ باپ کو اگر چہ بچے کی یہ حرکت اچھی نہیں لگتی اور وہ سمجھا نے لگ جاتا ہے تو صنف نازک بیچ میں دیوار بن کے کھڑی ہوتی ہے اور کہتی ہےرہنے دو ، آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ بچہ ہے موبائل سے کھیل رہا ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے ہی بیٹھاہوا ہے۔ اس پر بھی بلا جواز اعتراض کرےتو بچہ بگڑ جائے گاـ شاید ماں کو اس بات کا اندزہ نہیں کہ نور نظر سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر کے بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے۔ والدین اس چیز سے بالکل نا واقف ہیں کہ سوشل میڈیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی سے بچوں کی اخلاقیات بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کےغلط استعمال سے معاشرے میں بہت تیزی سےبرائیاں پھیل رہی ہیں اور ان برئیوں میں اکثر نو عمر بچے بچیاں ہی ملوث اور متاثر ہو رہے ہیں ۔آجکل کے دور میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتارترقی نے سوشل میڈیا کو ہماری زندگی کا اہم حصہ بنا دیا ہے ۔جو تفریح کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ آج موبائل فون ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ کی زینت ہے اس موبائل میں موجود انٹرنیٹ ، فیس بک، ٹیوٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور یوٹیوب وغیرہ وغیرہ ۔۔ نے نوجوان نسل کو اپنا اسیر بنا لیاہے۔

پرانے زمانے میں انسان دریاوں ، سمندروں ، چاند اور ستاروں کو اپنا دیوتا سمجھتا تھا ۔ رفتہ رفتہ انسان نے عقل، شعور ، سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کی کہ وہ سمندر کے گہرایوں میں چھپے خزانوں تک پہنچ گیا۔ زمین کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے بعد چاند تک رسائی ممکن ہوئی۔ آج کا انسان ماضی کے انسان سے کوسوں آگے ہے۔ آج دنیا میں کوئی بھی معاشرہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ان ثمرات سے چشم پوشی نہیں کر سکتا ہے۔ آج انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا بھی سائنس کے کرشموں میں سےاک کرشمہ ہےاس ٹیکنالوجی نے نئی نئ ایجادات اور انکشافات سے دنیا کیلے سہولیات اور معلومات کے انبار لگائے ہوئے ہیں۔ جن کے مثبت اور مفید پہلوؤں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر ان کے غلط استعمال سے انسان کو تباہ کن نتائج کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ دور جدید کے نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کو سوشل میڈیا کی منفی سرگرمیاں ایسی جگہ لا رہی ہیں جہاں پہنچنے کے بعد جب آنکھیں کھلتی ہیں تو ” آگے کنواں پیچھے کھائی” دیکھتے ہیں۔ نوجوان نسل کو یہ بے حیائی اور بے غیرتی کی طرف راغب کرنے میں بھر پور کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے نو عمر لڑکے ہمیشہ سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے میں مصروف نظرآتے ہیں۔ موبائل سکرین کو تھوڑی جنبش دے دیں تو کئی طرح کی معلومات کا سمندر تصویروں ، تحریروں ، اور ویڈیوز کی صورت میں نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور ساتھ غلاظت کے جوہڑ بھی ابل رہے ہوتے ہیں اور ہماری نو خیز اور نوجوان نسل ان جوہڑوں میں غوطہ زنی کا شوق رکھتی ہیں۔ نوجوان نسل بے حیائی کے ویب سائیٹ میں اس درجہ غرق ہو کر رہتی ہےـ کہ نا زیبا اور فحش تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھ کر انکی سوئی ہوئی خواہشات نفسانی میں تحریک پیدا ہوتی ہےـ نتیجے میں وہ نفسانی خواہشات کی تکمیل اور تسکین کے لیےراہ ڈھونڈنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کا دماغ شیطانی خیالات کا ٹھکانہ بن جاتا ہے یہ شیطانی خیالات انکے اندر ہیجان، بے قراری اور بے چینی پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہ کیفیت اس قدر شدید ہوتی ہے کہ فوری تسکین کیلئے اسے قریبی ماحول میں ذرائع اور مواقع تلاش کرنے کی منصوبہ بندی میں لگا دیتی ہے۔ اس پر نہ کسی کی نظر ہوتی ہے نہ پہرہ ـ اس لئے رفتہ رفتہ یہ رجحان معاشرے میں ایک وبا کی شکل میں پھیل جاتا ہے

یعنی معاشرہ بے راہ روی کی طرف گامزن ہونے لگ جاتا ہے۔اور پھر اس معاشرے میں اخلاقی اقدار کی قبائیں تار تار ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہلکی پھلکی چہ میگوئیاں سنتے سناتے زبان عادی ہو جاتے ہیں اور کان پک جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پورے کا پورا معاشرہ بے حسی کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔

مولانا سید محمد جواد ہادی صاحب فرماتے ہیں”” اس میں شک نہیں کہ جوانی میں فطری خواہشات اور جذبات عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس عمر میں لڑکے اور لڑکی میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں کم ہوتی ہیں اور وہ عام طور پر جذباتی ہوتے ہیں اور ہر اس اقدام پر آمادہ رہتے ہیں ۔ جن سے ان کی خواہشات پوری ہو سکتی ہیں۔ اس زمانے میں لڑکے اورلڑکیاں معاشرتی اقدار، معاشرے کے امن و سکون ، قانون اور ضابطے کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر بچوں کی تربیت میں کمی رہ گئی ہو اور ان کو انسانی اور اسلامی اقدار کا پابند بنانے کی کوشش نہ کی گئی ہو اور انہیں ہر ضابطے اور قانون سے آزاد رکھا گیا ہو تو پورے معاشرے کا امن و سکون تباہ ہو سکتا ہے۔ لہزا نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اخلاقی اور اسلامی تہذیب اور اقدار کا پابند بنایا جائے تاکہ شرم و حیا کا خیال رکھیں اور جوانی کے مشتعل جذبات اور بے لگام خواہشات کی تکمیل کی خواہش میں معاشرے کے لیے مشکلات کا سبب نہ بنیں۔ "””

بچوں کے تیزی سے بدلتے ہوئے روئیے ، بے جا غصہ آنا ، چھوٹوں پر تشدد کرنا، الجھن کا شکار رہنا ، بد تمیزی سے پیش آنا ،شرم و حیا کا فقدان ہونا، غیر مناسب طرز گفتگو ہونا اور بڑوں کو خاطر میں نہ لانا جیسی علامتیں منفی اثرات کے آثار ہو سکتے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں پرکڑی نظر رکھنا چاہیے کہ انکے بچے کس قسم کے دوستوں سے ملتے ہیں اور ان کے حرکات وسکنات اورانداز گفتگو کا بھی جائزہ لیتے رہنا ضروری ہے۔ماں باپ شروع میں بچوں کے ہم صحبتوں پر دھیان نہیں دیتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے ہیں۔ اور روتے چلاتے ہیں کہ ہماری اولاد بگڑ گئی۔ ۔یہ سب والدین کی نادانی اور غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔

عقل کے کچے اور جذبات کے اندھے آج سوشل میڈیا پر غلط مواد کا مشاہدہ کر کے اپنی تسکین کیلے اخلاق کے حدیں پار کر لیتے ہیں اور اپنی قدر و منزلت کھو بیھٹتے ہیں ایسے نفسانی خواہشات کے دیوانے انسانی معاشرے کےلئے ناسور ہوتے ہیں۔

مثبت اور صحت مندانہ مسابقت کے رجحانات کی بجائے منفی اور غیر صحت مندانہ مقابلہ بازی معاشرے میں تیزی سے اپنی جگہ بناتی ہے۔ علم و حکمت والے مواد کم، مگر سطحی خیالات اورجذبات کے تبادلے کو فوقیت دیتے ہیں۔ ایسےرجحانات معاشرے کو تنزلی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔جو ایک تلخ حقیقت ہے۔ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی بگاڑ داخل ہو چکا ہے۔آج وطن عزیز میں روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ انٹر نیٹ کا بآسانی بچوں کے دسترس میں آنا ہے۔ ملک میں آئیے روز معصوم ہزاروں بچے بچیاں انسان نما درندوں کی ہوس پرستی کا شکار ہوتے ہیں ایک کہانی کچھ یوں تھی کہ جنگل میں ایک درندے نے دوسرے سے کہا ” کھبی بھول کربھی انسانی بستی کے قریب نہ جانا وہاں درندگی اور سفاکی ہم سے بھی زیادہ ہے۔ بالکل اس درندے نے سچ کہا آج معصوم بچے بچیاں درندگی کی بھینٹ چڑھنے کے بعد قتل بھی کردیئے جاتے ہیں ۔ وطن عزیز میں ظلم کی ایسی سینکڑوں داستانیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ تعجب ہے کہ ہمارا معاشرہ علمی کمالات، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے پیش نظر تہذیب اور اخلاقیات کی ترقی میں تناسب معکوس پایا جاتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اب درندے اور بھیڑیے جنگلوں کے بجائے انسانی معاشرے میں انسان ہی کےروپ میں دکھائی دے رہےہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں بھی جب معاشرہ اس طرح بگڑتا تو اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آتی قوم لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابل ہدایت نہ ہوئی تو اللہ تعالی نے عذاب نازل کیا۔ بحثیت مسلمان اسلام کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوے ہمیں اپنے دامن کو ایسے گناہوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات فیس بک پر نامعلوم صنف نازک کی طرف سے فرینڈ ریکویسٹ آتا ہے۔ حالانکہ یہ فیک اکاوئنٹ ہو تا ہے ۔ متعدد فیک اکاوئنٹس ایک ہی آئی ۔ پی ایڈریس سے چلا رہا ہوتا ہے یہ کام زیادہ تر لڑکے کرتے ہیں جو لڑکیوں کے نام سے منسوب اکاوئنٹ بنا لیتے ہیں۔ یہ لڑکے اپنے آپ کو لڑکی ظاہرکرکے چھوٹے بڑے سب کے جذبات سے کھیل کر سکون اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ انکی ایسی حرکتوں سے پست خیالات اور تہی مغز لوگوں میں منفی سوچ پیدا ہوتی ہیں۔ مبادا ! اگر انکے مابین کسی قسم کی نازیبا پوسٹوں کا سلسلہ جاری رہے تو یہ دغابازی ان سادہ لوح افراد کے ذہنوں کو خراب کرتے ہیں۔ اور اس طرح کئی لوگ فیک آئی۔ پی کے ذریعے سے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں لگے ہوتے ہیں۔

حضور ؐ کا ارشاد ہے کہ حیا جزو ایمان ہے۔ نبی کریم ؐ شرم وحیا کے پیکر تھے ۔ شرم و حیا عورت کا زیور اور مرد کی زینت ہے۔ حیا اخلاق کی روح ہے اور بے حیائی برائی کی جڑ ہے ۔ جو شخص حیا سے محروم ہو جا تا ہے وہ بدی کا بڑی بے خوفی سے ارتکاب کرتا ہے۔ عرب زمانہ کفر میں جن برائیوں میں مبتلا تھے ان میں سے ایک بے حیائی بھی تھی۔ ارشاد ہوتا ہے "” جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ، ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ( النور ١٩ )

اس وقت الیکٹرانک سوشل میڈیا ابلاغ کے عام اور سب سے موثر ذرائع ہیں ہر کوئی اپنے خیالات اور جذبات کا بلا جھجک اظہار کرسکتا ہےـ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ سوشل میڈیا سے کم سن نسل کو دور رکھا جائےتاکہ انکی پہنچ کہیں ایسی تصاویر یا ویڈیوز تک نہ ہو جو ان کے معصومانہ ذہنوں کو پراگندہ کرکے بے راہروی کی طرف مائل نہ کرے۔سوشل میڈیا پر اخلاقی اقدار تباہ کرنے والی چیزیں ہمارے دماغ پر گہرااثر ڈالتی ہیں چونکہ جن چیزوں کو انسان خلوت میں دیکھنا اور پڑھنا گوارہ نہیں کر سکتا۔ وہ یہاں پر عام اور خاص کے لیے میسرآتی ہیں ۔ یہ چیزیں اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے کے ساتھ انسان کے ضمیر کو بھی مردہ کردیتی ہیں۔ طلبہ و طالبات کو تفریح کی بجائے صرف تعلیمی مقاصد کیلے حسب ضرورت استفادہ کر لینا چائیےکیونکہ ان ذرائع کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنا دیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں زیادہ نوجوان اور طلبا فیس بک کا استعمال کرتے ہیں۔ اس درجہ فیس بک کا استعمال انکے دماغی صحت پر گہرا اثرڈالتا ہے۔ معاشرے میں طلبا کا اس طرح وقت ضائع کرنا علما کرام ،اساتذہ اور والدین کی اپنی زمہ داریوں سے چشم پوشی کی علامت ہے۔ تعلیمی اداروں میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے بھیانک نتائج کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ ضرور حاصل کریں مگر ساتھ ساتھ اس کے درست اور غلط استعمال کے فوائد اور نقصان کو پیش نظر رکھا جانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button