کالمز

بدعنوانی

تحریر: صابر حسین

بدعنوانی کو میں کچھ یوں  بیان کروں گا, ایسا کام  جو  وقتی طور پر کسی فرد واحد یا مخصوص گرؤ کو فائدہ  پہنچائیں لیکن معاشرتی طور پر کسی بڑے نقصان کا سبب بنے اور قانونی طور پر جس کی حوصلہ شیکنی ہو.

اس سے پہلے  میں نے اپنی ایک تحریر میں   حکومتی نظام  کے مختلف درجہ بندی کر کے بیان کیا تھا اور سب سے آخری درجے کو میرٹ کی بحالی اور پامالی کا ذمہ دار ٹہرایا تھا جس کو ہم نے فرسٹ لائین منیجمنٹ کا نام دیا تھا. لیکن واضع رہے کہ درمیانی درجہ (میڈل  مینجمنٹ ) کا کرپشن میں سب سے بڑا ہاتھ ہے  میڈل منیجمنٹ میں ہم نےعوام کے ان منتخب نمائندوں کا شمار کیا تھا جو گورنمنٹ کے مخصوص محکمہ جات کے وزرات سنبھال لیتے ہیں اور اپنے اختیارات کا استعمال کر کے اپنے ماتحت  گورنمنٹ کے ملازمین  (بیوروکریسی) کے ذریعے کسی محکمے کو شفاف اور کرپٹ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں.

کرپشن پہ بات کرنے سے پہلے ایک بات   کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے. وہ یہ کہ ہم اکثر باتوں باتوں میں کہتے ہیں کہ پاکستان ایک کرپٹ ملک  ہے یا فلاں ادارہ کرپٹ ہے کہہ کر کسی حکومتی ادارے کا نام لیتے ہیں  جو کہ انتہائی غلط ہے. کیونکہ کوئی  ملک یا کسی ملک کا ادارہ کبھی کرپٹ نہیں ہوتا وہ تو بس ایک نام ہے. کرپشن کسی  ملک یا ادارے سے نہیں بلکہ بندے سے جنم لیتی ہے جو ملک اور ملک کے ادارے چلانے والے ہوتے ہیں.   آج کسی ادارے میں کوئی  کرپٹ آفیسر ہے تو  کل کو کوئی  اچھا آفیسر اس ادارے کو سنبھال لے گا اور شفاف طریقے سے چلائے گا, وہی ادارہ جو ایک آفیسر کے دور میں کرپٹ ادارہ کے نام سے پکارتے تھے جب کہ دوسرے آفیسر کے دور میں شفاف  کہلاتا ہے. لحاظہ اس بات کو سمجھنے میں دقت نہ ہو کہ کرپشن  کا نام ملک یا  ادارے  سے نہیں بلکہ بندے سے جوڈا ہوتا ہے.اب ہم یہ بات واضع کرینگے کہ گورنمنٹ کے سیکڑز میں کرپشن  کس طرح  جنم  لیتی ہے؟

جی ہاں  گورنمنٹ کے اداروں کو کرپشن کے لپٹ میں لانے میں ہمارے عوامی منتخب نمائندوں کا کردار صف اول ہے.ہم سب اس بات سے آگاہ ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں کا تعلق ملک کے مختلف سیاسی پارٹیوں سے ہوا کرتا ہے اور جس پارٹی کو اکثریت حاصل ہو وہ حکمرانی کرتی جب کہ باقی پارٹی کے لوگ اپوزیشن میں رہے کر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں. مضبوط اپوزیشن کا کرپشن کے روک تھام میں سب سے بڑا کردار ہوتا ہے شرط یہ ہے کہ اگر کسی قسم کی لالچ اور ڈیل پر سمجھوتہ  نہ کریں. مگر ایسا ممکن  نہیں  کیونکہ ہمارے منتخب نمائندے ہمیشہ یہ چاہتے  ہیں کہ وہ اپنوں اور کارکنوں کو اپنے دور حکومت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ دیں  تاکہ  آئندہ بھی اقتدار کا مزہ چکنے کا مواقع مل سکے. یہی وہ سوچ ہے جو ملک کے اندر کرپشن کو جنم دیتی ہے. ہمارے منتخب نمائندے ملک یا علاقے کہ ترقی سے زیادہ  سوچ اپنوں کو نوازنے کے حوالے سے کرتے ہیں جو ملک کے اندر میرٹ کی پامالی اور کرپشن کا سبب بن جاتا ہے. ایک بات  اپ  نوٹس کرچکے ہونگے اگر نہیں تو ضرور نوٹس کر لے کہ جب بھی کوئی  نئی گورنمنٹ بن جاتی ہے تو سب سے پہلے وہ تمام صوبوں کے اندر ایڈمنسٹریشین کے تمام اعلی آفسیروں  کا تبالہ کر کے اپنے ہم خیال بندوں کو ان اہم عہدوں پر فائز کرتے ہیں. یہ وہ پہلا مرحلہ ہے جس سے آگے کرپشن کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے. عوام اور اپوزیشن کہ اعتماد بحال کرنے کے لیے حکمران شروع میں تمام  حکومتی نظام انتہائی سخت کر کے شفافیت اور میرٹ کے بحالی کی امیدیں دلاتے ہیں. جب آہستہ آہستہ نظام چلنا شروع ہو جاتا ہے ان کے ذہنوں میں کرپشن کے کیڑے بھی جنم لینا شروع کرتے ہیں. وہ اس مواقع غنیمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خود کو اور اپنے عزیز  و ارقاب  کو پھر خاص کارکنوں کو فائدہ پہنچانے کے حوالے سے  متحرک رہتے ہیں. جس کی چکی میں غریب اور بےبس لوگ پِسے جاتے ہیں. جس کہ زندہ مثال  حالیہ دنوں گلگت بلتستان میں چھ ہزار کنٹریکٹ اور کنٹیجنٹ ملازمین کی مستقلی اور  کئ گناہ   اس سے زیادہ کنٹریکٹ اور کنٹیجنٹ ملازمین کی گورنمنٹ کے اندر موجودگی کی ہے. وہ غریب والدین جو دن دگنی رات چگنی کرکے   اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں ہیں صرف اس لئے کہ کل کو ان کے بچے اپنے پاوں پر کھڑا ہوسکے کسی کے سامنے جھکُنے کی نوبت نہ آئے, لیکن یہاں  کنٹریکٹ اور کنٹیجنٹ نام کی ایک لعنت دستور نے  اچھے پڑے لکھے غریب والدین کے بچوں کو اپنے کاغذی رنگین ڈگریاں جلانے پر مجبور کیا ہے.جب بھی کسی گورنمنٹ کے محکمے میں اسامیوں پر ٹیسٹ کے لیے درخواستیں مطلوب کرتے ہیں تو کنٹریکٹ اور کنٹیجنٹ ملازمین کی چیخے نکل آتی ہے اور کورٹ سے رجوع کر کے خالی اسامیوں کی ٹیسٹ پر پابندی لگاتے ہیں. یہ سب کمالات ہمارے منتخب نمائندوں اور دیگر اثرسوخ رکھنے والے لوگوں کا ہے جنہوں نے اپنے دور حکومت کی مواقع غنیمت سے فائدہ اٹھا کر بغیر کسی ٹیسٹ انٹریو کے اپنے عزیزوں کو گورنمنٹ  کے اندر کھپائے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ آنے والے وقتوں میں ان کو مستقل ہونا ہے. کنٹیجنٹ اور کنٹریکٹ امیروں کے نالائق بچوں کے لئے بنی ہوئی اندھا قانون ہے جس کے شکنجے میں غریب ماضی میں بھی پِس چکے ہیں,حال اور مسقبل میں بھی  پِسے جائنگے  کیونکہ غریب لوگ اتنا رسائی نہیں رکھتے کہ ان کے بچوں کو کنٹریکٹ پہ بھی  کوئی لگائے, اس کے لئے پھر وقت کے  اندھے حاکموں کا ہاتھ پاوں چومنا پڑتا ہے اور تاحیات ان کے غلام اور احسان مند بن کے رہنا پڑتا ہیں.اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہی کنٹیجنٹ ملازمین جو آج مستقل ہوئے ہیں کل کو ایک دم سے مراعات حاصل کر کے بڑے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں ایسے میں ہم  ان سے کرپشن کے سوا اور کسی چیز کی تواقع  نہیں کرسکتے یقیناً یہ کرپشن کو فروغ دینے کا انوکھا طریقہ ہے.

اسی طرح اگر آج ملک کے اندر بیوروکریسی نظام کرپٹ ہے تو قصور بیوروکریٹس کا نہیں بلکہ حکمرانوں کا ہے.کیونکہ جب  اتفاقاً کئی خالی اسامیوں پر ٹیسٹ انٹریو ہوا کرتا ہیں تو  ان لمحات میں بھی ہمارے حکمران سیکرٹریز کے سامنے اپنے سفارشی عزیز و ارقاب اور سرگرم کارکنوں کا لیسٹ رکھ دیتے ہیں بیوروکریسی  کو یہ لالیچ دیتے ہوئے کہ کچھ اپنے بندے بھی  شامل کرکے ان سفارشات پر کام کریں. یہ ڈیل دیتے ہوئے ہمارے نمائندے حکمرانی کے بجائے اپنے سے نیچلے سطع کے بیوروکریسی نظام کے غلام بن جاتے  ہیں اور بعد میں شکایت اس بات کی کرتے ہیں کہ ہمارے بیوروکریسی نظام درست نہیں اپنے منمانی چلاتے ہیں. ہاں ضرور وہ اپنے منمانی چلائنگے کہ کیونکہ تم اپنے انا کے لیے ان کے سامنے بیک چکے ہو کوئی کاروائی ان کے خلاف عمل میں نہیں لاسکتے ہو ایسی کوئی غلطی کرنے پر انگلی اپ پہ بھی اٹھ سکتیہے.

اگر آج محکمہ پولیس کرپشن کا شکار ہے تو  قصور اس محکمے کا نہیں ہمارے حکمرانوں کا ہے. کیونکہ پولیس کے تمام اعلی آفیسروں کا تعینات میرٹ کہ بنیاد پر کم سفارش کی بنیاد پر زیادہ کیا جاتا ہے صرف اس لیے کہ آنے والے وقتوں میں وہ پولیس آفیسر ان کے احسان مند رہیں اور ان کے چاہنے والوں کا خیال رکھے. یہ سب ہم کو دیکھنے کو بھی ملتی ہے جب پولیس کسی بندے کو سنگین جرم میں پکڑ لیتی ہے تو پیسوں کی    پیشکش کرکے کاروائی سے روکنے کا ہنر پولیس نے خود سے تم سے سیکھے ہیں جس کے شکنجے میں آج پولیس کے ایک اعلی آفیسر سے لیکر ایک سپاہی تک کرپٹ نام سے بدنام ہیں. ان وجوہات کے بنا پر غریب کے ساتھ دن بہ دن ناانصافی بڑھتی جارہی ہے اور امیر قانون کی دھجیاں  اڈاتے ہیں. وہ ادارہ جو عوام کی جان و مال  کی حفاظت کا ضامن ہیں  ایک بدفعلی کا شکار ہو کے رہ گیا ہے.

اگر آج ملک کے اندر میعار تعلیم کا نظام درست نہیں تو قصور محکمہ تعلیم کا نہیں حکمرانوں کا ہے. کیونکہ  محکمہ تعلیم کے تمام اعلی آفیسرز جو تعلیمی نصاب اور دوسرے اہم پالیسی سازی سے واقف ہی نہیں وجہ  یہ ہے کہ وہ میرٹ کے بنیاد پہ نہیں بلکہ سفارش کے بنیاد پہ اس محکمے میں گس چکے ہیں اور اس محکمے کے اندر مزید سفارش کو فروغ دیں چکے ہیں جس کا اندازہ ہم اس مقدس پیشے کے اسامیوں کی سرعام بکنے سے لگا سکتے ہیں.

اگر آج صحت کی نظام   ٹھیک نہیں تو قصور ڈاکٹروں کا نہیں حکمرانوں کا ہے کیونکہ حکمران اپنی کھانسی کی علاج کے لئے بھی بیرون ملک جانے کو ترجیحی دیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے  کہ ملک کے اندر کبھی انہوں نے لیبائٹریز اور  ریسرچ سینٹرز پر کام نہیں کئے ہیں  ہسپتال کے نام پر بنے سارے بلڈنگ ادویات اور جدید آلات سے خالی ہے  جس حقیقت کو موجودہ صورت حال نے بےنقاب کر کے عوام کے سامنے رکھ دیا ہے. ہمارے حکمران جو بڑے باتیں کرتے ہیں ان کے ملک کے اندر ہسپتالوں میں وینٹلیٹرز موجود نہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں دوسرے ہمسایہ ممالک کی امداد کو تڑپ رہے.بات صرف  وینٹلیٹرز کی نہیں بلکہ محکمہ صحت ہر طرح سے کھوکلا ہیں  غریب عوام کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے علاج کے لئے ان ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں بس رب ذولجلال کی احسان ہے جو ہماری بےبسی پر کرم فرماتے  ہوئے شفا  کا صلہ بنتا ہے.

لحاظہ کرپشن کے ہر پہلو پر بات کرنا ممکن نہیں اس پر انبار سارے باتیں ہوسکتے ہیں. مختصراً ,اگر آج گورنمنٹ کے کسی محکمے کے اندرگریڈ ون سے لیکر اعلی سطع تک گورنمنٹ کے ملازمین کرپشن کے زد میں ہے تو قصور ان ملازمین کا نہیں حکمرانوں کا  ہے. کیونکہ سفارش اور رشوت لینے کی خبر  محکمے کے تمام ملازمیں رکھتے ہیں, ایک   فائل تیار ہونے  میں سیکرٹری  سے لے  کر ایک چپڑسی تک کے مراحل سے گزرتا ہے. ان لمحات میں  ایک سیکرٹری اپنے کلرک اور چپڑسی کے سامنے بلیک میل ہوجاتا ہے اور  حکمران اپنے ماتحت سیکرٹریز کے سامنے بلیک میل اور بےنقاب ہوجاتے ہیں اور بلیک میلنگ کا اس نظام نے میرٹ کو دیور سے لے دے مارا ہے اورکرپشن کو عروج تک پہنچایا ہے.ایسے میں اللہ تعالیٰ ہمیں اس لعنت چیز سے نکلنے کی توفیق دیں.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button