جنرل احسن بلتی، ایک حوصلہ افزا حوالہ
گلگت بلتستان کے مکینوں میں نہ تو ٹائیلنٹ کی کمی ہے اور نہ ہی صلاحیتوں کے اعتبار سے یہ زمین بنجر ہے۔ یہاں کے نوجوان دلیر، محنت کش اور خود دار ہیں۔ پہاڑی مزاج کے حامل یہ جوان جس طرح اونچے علاقوں میں رہنے کے عادی ہیں اتنے ہی ان کے حوصلے بھی بلند ہیں۔ "شاہین ” کے پیروکار یہ نوجوان جھپٹنا پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا اپنے خمیر کا حصہ بنا چکے ہیں۔ سادہ طبعیت سے لبریز اپنی عظمت کے قائل یہ نوجوان بعض دفعہ جذبات کو اپنی زندگی کی ڈائری میں شامل تو کر لیتے ہیں مگر اپنے نصب العین اور فرض میں کوتاہی کو اپنے لئے موت تصور کرتے ہیں۔
افواج پاکستان میں گلگت بلتستان کے جوانوں کی کثیر تعداد ہے اور اگر پاک فوج کا معیار کوٹہ سسٹم ہوتا تو شاید اتنی سیٹیں ہمیں نہ ملتی جتنے اس وقت گلگت بلتستان کے افواج پاکستان میں افسر ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جس کی آبادی 15 لاکھ ہو اور وہاں 3 لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ اور 2 جنرل حاضر سروس ہوں مگر گلگت بلتستان وہ واحد علاقہ ہے جو اپنی زرخیزی کے اعتبار سے مسلم ہے۔ یہاں کے نوجوان اپنی قابلیت اور اہلیت کے اعتبار سے افواج پاکستان میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور مزید ہو رہے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ افواج پاکستان میں شامل ہونے کیلئے سب سے پہلی شرط قابلیت اور اہلیت ہے۔۔
گلگت بلتستان کے جوانوں کا افواج پاکستان میں شامل ہونا اس بات کی بھی غمازی ہے کہ یہاں کے لوگ افواج پاکستان اور اس ملک سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔۔ اس وقت افواج پاکستان میں گلگت بلتستان کے سینکڑوں جوان اور افسران ملک کے سرحدوں کی پہرہ داری میں مصروف ہیں۔ گلگت بلتستان کے افسران کا افواج پاکستان کے اعلی عہدوں تک پہنچنا آنے والی نسل نو کیلئے امید اور حوصلے کا پیغام ہے۔
گزشتہ ماہ گلگت بلتستان کے علاقہ گانچھے سے تعلق رکھنے والے بریگیڈئر احسن بلتی بھی اپنی قابلیت اور اہلیت سے کامیابی کے منازل طے کرتے ہوئے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا گئے ہیں۔ احسن بلتی مذکورہ عہدے تک ترقی پانے والے بلتستان ڈویژن کے پہلے افسر ہیں۔ احسن بلتی خلوص کے پیکر ملنسار اور دلیر افسر ہیں۔ موصوف گلگت بلتستان بھر سے بلاتفریق محبت کرنے والی شخصیت ہیں۔ موصوف سے راقم کی کئی دفعہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔۔ وہ جہد مسلسل پر یقین رکھنے والے سولجر ہیں۔ ملک سے محبت ان کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کی ترقی پا کر میجر جنرل بننا ایک حاصلہ افزا بات ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ جنرل صاحب کی ترقی اس بات کی بھی دلیل ہے کہ یہاں کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملک کے تمام شعبوں میں آگے جا سکتے ہیں۔ ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر کوئی رکاوٹ ہے تو ہماری منفی سوچ ہے جس نے کئی عشروں سے ہماری صلاحیتوں کو زنگ آلود بنا رکھا ہے۔ خطے میں دیا جانے والا محرومی کا درس دراصل نوجوانوں کو پیچھے دھکیلنے کیلئے کافی ہے۔
گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ محرومی کے کمبل سے باہر نکل کر اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کرتے ہوئے آگے بڑھیں منزلیں ان کی منتظر ہیں۔ ان کی صلاحیتیں کسی طور متنازعہ نہیں ہیں۔۔ اور گلگت بلتستان کے نوجوان ملک کے مین اسٹریم شعبوں میں اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان کے نوجوان رکھتے۔۔ احسن بلتی کا جنرل ترقی پانا، جی ایم سکندر اور شاہد اللہ بیگ کا بیوروکریسی کی آخری منزل عبور کرنا، افضل شگری کا صوبہ سندھ جیسے علاقے میں پولیس کا کامیاب جنرل بننا اور ہدایت الرحمن کا کور کمانڈر بن کر ضرب عضب جیسے آپریشن اور شورش زدہ خیبر پختون خواہ سمیت افغان سرحد تک سپہ سالاری کے طور پر کمان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ نہ تو گلگت بلتستان کے نوجوان محروم ہیں اور نہ ہی ان کی صلاحیتیں متنازعہ ہیں اور دیگر صوبوں کی طرح اپنے حق کے حصول میں کامیابی کی دلیل ہے۔
بدقسمتی سے ہم خود اپنی سوچ کی وجہ سے نفسیاتی پرابلم کا شکار ہیں۔۔ جنرل احسن بلتی مجھ سمیت خطے کے لاکھوں نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔۔ اللہ ہم سب کو نیکی کے راستے کا انتخاب کرنے کی توفیق عطا کرے۔