مذہبی کارڈ کے بعد پیش خدمت ہےعلاقائی کارڈ
تحریر۔ ایڈوکیٹ حیدر سلطان
1988 سے لیکر 2010 تک گلگت بلتستان کے باسی ایک نہ ختم ہونے والی بے مقصد جنگ میں مبتلا رہے ۔ اس بے وجہ جنگ کے دیر پا نقصات ونتائج کا اندازہ تب جاکے ہوا جب مقامی لوگوں کے ہاتھوں نہ کوئی ڈھنگ کا کاروبار رہا ،نہ اعلی عہدوں پہ خاطر خواہ جگہ ملی اور نہ ہی اقتدار ۔ عوامی اکثریت اب اس ڈرامے کے پس پردہ محرکات سے بخوبی واقف ہوچکی ہے جسکی ایک مثال حالیہ دنوں پیش آنے والا نلتر وقوعہ ہے جسکے فورا بعد ماضی کے برعکس شیعہ سنی ایک پیج پہ نظر آئے ۔بلاتفریق سب نے اس گھناونے فعل کی مزمت کی اور زمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ۔ 2010 کے بعد جب تفرقہ بازی پہ مبنی لولی پاپ کا اثر کم ہونے لگا تو شین یشکن کے نام پہ مختلف پلیٹ فارمز کومظبوط کرکے عوامی سطح پہ نفرتوں کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی جو کہ زیادہ کار آمد ثابت نہ ہوسکی اور اب کورونا کے نام پہ علاقائی تعصب کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔ حکومت اور بیوروکریسی کے تمام تر ڈرامے اور ان ڈراموں کے نتیجے میں عوامی سطح پہ پیدا ہونے والی قیاس آرائیوں اور تمام تر شکوک و شبہات سے قطع نظر کورونا وائرس ایک حقیقت ہے مگر گصرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ غریب اور متوسط طبقے کےلیے قیامت خیز بنتا جارہا ہے۔ یہ ایک قدرتی آفت ہونے کے ساتھ ساتھ غریب کش حلقوں کا ہتھیار بنتا جارہا ہے ۔ غریب آدمی کورونا سے بچ بھی جائے تو کورونا کی بدولت کئے جانے والے بے جا اور غیر موثر لاک ڈاون کے ثمرات اسے مار دینگے ۔ بھوک پیاس اور مالی پریشانیاں غریب آدمی کا ساتھ لمبے عرصے تک چھوڑتے ہوئے نظر نہیں آرہے ۔ غریب کی ریڈھی ہو یا چھوٹی دکان ۔ بمشکل ایک وقت میں ایک یا دو گاہک ہی سودا لینے پہنچ جاتے ہیں اور اس کے بعد دکاندار اگلے گاہک کا گھنٹوں انتظار کرتا ہے۔ گلگت بلتستان میں کورونا کی آڑ میں بیوروکریسی خصوصاً انتظامی آفیسران کرپشن کے بادشاہ بن چکے ہیں. تمام وہ سرگرمیاں جن میں سماجی فاصلے قائم رکھنا ناممکن ہے انکو اجازت دی گئی اور وہ تمام سرگرمیاں جن میں سماجی فاصلے ممکن ہیں ان پر پابندیاں مزید سخت کی دی گئی ہیں. سرکاری گاڑیوں کا غیر ضروری استعمال عروج پر ہے آفیسران کے بچے سرکاری گاڑیوں میں مختلف اضلاع میں سیر و تفریح میں مشغول ہیں جبکہ غریبوں کی بستیوں کو سمارٹ لاک ڈاون کے نام قید خانوں میں تبدیل کیا گیا ہے.
پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے اور بیچاری عوام ایمرجنسی میں بھی کہی جانے سے قاصر ہے. ٹیکسی سروس کی اجازت ہے اور وہ بھی انتظامیہ کےغلط فیصلوں کا فائدہ اٹھا کر عام آدمی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے.کورونا وائرس کی آڑ میں میں ہر محکمے کے اندر جعلی بلات بنانے کا عمل پہلے سے بھی تیز ہو چکا ہے کیونکہ کرپٹ بیوروکریسی کو یہ تجربہ ہے کہ کسی بھی قدرتی آفت کے دوران جو بھی اخراجات ظاہر کرے ان پر آڈٹ پیرے نہیں لگائے جاتے ہیں اور لگائے بھی جائیں تو بعد میں معقول بہانہ موجود ہوتا ہے کہ قدرتی آفت تھی کورونا وائرس کا مسئلہ تھا لوگوں کی جان بچانے کےلیے یہ اخراجات کرنا ناگزیر تھا.اس پر تمام احتساب کرنے والے ادارے موثر کاروائی نہیں کرپاتے کیونکہ ہمدردی کا عنصر موجودہوتا ہے ۔ یوں قدرتی آفات ہمارے نظام کے اندر بے دریغ کرپشن کو خوب فروغ دیتے ہیں. کسی بھی سرکاری ادارے کے قدرتی آفت کے دوران اور اس سے قبل یا بعد کے بلات کا ایک تقابلی جائزہ لیا جائے تو حیران کن نتائج دیکھنے کومل سکتے ہیں. گلگت بلتستان میں شروع دن سے بیوروکریسی کا راج رہا ہے ۔ رہا سہا کسر کورونا وائرس نے نکال دیا ہے اس وقت سیاسی حکومت کے پاس جو تھوڑے بہت اختیارات تھے انکو بھی الیکشن کمیشن نے ختم کیا ہوا ہے اور اس وقت مکمل طور پر گلگت بلتستان بیوروکریسی کے رحم کرم پر ہے.
بیوروکریسی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ماضی میں گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ نفرتوں نے جنم لیا جسکی بھاری قیمت یہاں کے عوام گزشتہ کئی سالوں سے ادا کر رہے ہیں اور ابھی کورونا وائرس کی آڑ میں علاقائی نفرتوں کو پھیلایا جارہا ہے. لوگوں کو کورونا وائرس سے بچاؤ کےلیے سماجی فاصلے قائم رکھنے اور صفائی ستھرائی کے حوالے سےآگاہی فراہم کرنے کے بجائے یہ ترکیب دی جارہی ہے کہ اپنے اپنے علاقوں میں زور بازو غیر مقامی لوگوں کو داخل نہ ہونے دیاجائے۔مختلف چیک پوسٹس پہ ڈیوٹی پہ معمورسکیوریٹی فوسز کے ساتھ مقامی نوجوانوں کو بھی ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ غیر مقامی لوگوں کی انٹری کو روکیں۔ فطری طور پہ نوجوان طبقے میں برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے جسکی وجہ سے بہت سارے پوانٹس پہ لڑائی جگھڑے دیکھنے کو ملے ۔ بین الاضلاعی طور پہ غیر مقامی لوگوں کو روکنے کے حوالے سے جو درخت لگایا گیا تھا اس کی شاخیں اتنی تناور ہوچکی ہیں کہ گلی محلوں تک پہنچ گئی ہیں ۔ جسکی وجہ سے گلگت بلتستان کے لوگوں کے آپسی تعلقات مزید کمزور ہورہے ہیں. اس کا سیاسی سماجی اور معاشی نقصانات کا یہاں کے لوگ فی ا لحال ادراک نہیں کرپارہے ہیں۔ انتظامیہ کے ناقص فیصلوں کا براہ راست شکار عام آدمی ہورہا ہے اور معاشی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے جسکی کوئی سننے کوتیار نہیں جبکہ مذہبی اجتماعات جن میں سماجی فاصلے قائم رکھنا عملی طور پر ناممکن ہےانکی مکمل آذادی ہے.جہاں سے سیاسی اور پبلک پریشر آنے کاخدشہ موجود ہے انتظامیہ نے انھیں مکمل آذادی فراہم کی ہے جبکہ غریب عوام پر انتظامیہ کو مکمل کنٹرول حاصل ہے اس لیے انھیں سمارٹ لاگ ڈاؤن یا ڈنڈے کے زورپر کنٹرول کیا ہوا ہے.گلگت بلتستان میں اس حوالے سے سول سوسائٹی کا کردار عملی طور پر صفر نظر آرہا ہے یہ سلسلہ جاری رہا تو آنے والا وقت انتہائی کھٹن ہوگا ۔سول سوسائٹی بلخصوص یہاں کا نوجوان طبقہ جب تک اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کرے گا مسائل کا حل نکالنا مشکل نہیں ناممکن ہے. سول سوسائٹی کو عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر کورونا وائرس تو ختم ہوگا مگر گلگت بلتستان کے سیاسی سماجی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کےلیے ایک اور صدی درکار ہوگی جسکا ہمارا معاشرہ قطعی متحمل نہیں ہوسکتا ہے. کم و بیش تین دہائیاں مسلک کے نام پہ یرغمال رہنے والے علاقے میں اب علاقائیت کی نفرتوں کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ وقت کی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔