متوقع نگران سیٹ اپ اور فرقہ وارانہ باتیں
تحریر: فیض اللہ فراق
موجودہ اسمبلی 24 جون 2020 کو اپنے 5 سال خوش اسلوبی سے پورے کرے گی۔۔ چونکہ جمہوری و سیاسی عمل کو مہمیز دینے کیلئے نگران حکومت کے قیام کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت کی روشنی میں ناگزیر قرار دیا گیا ہے، شنید ہے 24 جون 2020 سے قبل نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور ابتدائی طور پر نگران وزیر اعلی کا انتخاب ہوگا۔ سپریم کورٹ کے حکم نامہ کے مطابق قائد حزب اختلاف’ قائد ایوان اور وفاقی وزیر امور کشمیر کی مشترکہ رائے سے نگران وزیر اعلی کا انتخاب ہوگا جبکہ اپنی کابینہ نئے وزیر اعلی خود بنانے کے مجاز ہیں اگر مذکورہ تینوں افراد میں اتفاق رائے نہیں پایا گیا تو وزیر اعظم پاکستان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کسی کو بھی نگران وزیر اعلی کا عہدہ تفویض کرے۔۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ نگران حکومت کے قیام میں عدالت کے احکامات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تمام قانونی تقاضے پورے کئے جائیں مگر تا حال عملا ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ نگران وزیر اعلی کے عمل کو مکمل کرنے کیلئے مختلف فورمز پر مشاورت کا عمل جاری ہے اور کچھ ناموں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے لیکن اس سے قبل نگران حکومت کو بھی فرقہ وارانہ نظروں سے دیکھا جانے لگا ہے جو کہ افسوس ناک اور خطرناک پہلو ہے۔
گلگت بلتستان کے درو دیوار کو خون آلود کرنے میں جتنا ہاتھ ہمارا ہے اتنا کسی غیر کا نہیں ہے۔ آج تک ہم نے اپنے گلے کاٹے ہیں اور اپنی معیشت کو برباد کیا ہے۔ کوئی اسلام آباد یا کراچی میں بیٹھے گلگت بلتستان کا بیورو کریٹ اس عمل کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ہم نے روز اول سے فرقے کی بالادستی کی جنگ لڑی ہے اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی تگ و دو میں مگن رہے ہیں ۔ تاریخ اس بات کی بھی شاید ہے کہ اسلام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ہم نے انسانی جانوں کے ساتھ کھیلا۔۔ تاریخ اس بات کی بھی عینی شاید ہے کہ جن لوگوں نے جتنا زیادہ انسانی خون سے اپنے ہاتھ رنگین کئے وہ ماضی میں اور آج بھی سب سے زیادہ منصب و اقتدار کے حق دار ٹھہرے ہیں ۔۔۔ گلگت بلتستان کے سچے وفادار آج بھی اقتدار کی راہداریوں سے نا آشنا ہیں۔۔۔ بلکہ وہ شعور کئ سزا کاٹ رہے ہیں۔۔۔ ہمارے مذہبی اکابر مظلوموں پر ہونے والے مظالم پر بات کرنے سے کیوں کتراتے ہیں ؟
ستم ظریفی یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو جتنا فرقے کے کوٹہ سسٹم نے نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا۔۔۔ گلگت بلتستان میں رائج فرقہ وارانہ کوٹہ سسٹم نے میرٹ کا جنازہ نکالا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہر نااہل کا آخری ہتھیار مذہب ہے۔ آخر کیوں ہم اہل اور مضبوط لوگوں کو پسند نہیں کرتے ہیں؟ گلگت بلتستان میں سیاسی پختگی کیلئے فرقہ وارانہ کوٹہ سسٹم کو ختم کرنا ہوگا اور اہل قابل افراد کو نظام کا حصہ بنانا پڑے گا تاکہ یہ علاقہ کچھ عرصہ بعد اپنے پاوں پر کھڑا ہوسکے گا۔ 2009 میں بننے والی حکومت ایک فرقے کی نہیں تھی بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تھی جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے اور 2015 میں بننے والی حکومت بھی کسی خاص فرقے کی نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی تھی جس میں بھی تمام مکتب فکر کے افراد شامل تھے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد تشکیل پانے والی نگران حکومت کا وزیر اعلی بھی ایک فرقے کا نہیں بلکہ پورے خطے کا نمائندہ تھا کیونکہ شیر جہان میر کو منتخب کرنے میں سابق وزیر اعلی سید مہدی شاہ کا بنیادی کردار تھا۔۔۔ اور آج متوقع نگران وزیر اعلی کو بھی میرٹ اور اہلیت پر قانونی تقاضوں کو پورا کر کے بننے کا موقع دیا جانا چاہئے نہ کہ کسی کو ٹارگٹ کر کے فرقہ وارانہ فضا کو پروموٹ کرنا چاہئے۔ یہ بات بھی حقائق کے منافی ہے کہ ماضی کے وزرا اعلی فرقے کے نمائندہ تھے۔ گلگت بلتستان کسی طور فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔ اس خطے کے آنے والے دن ہماری نسلوں کیلئے بہت اہم ہیں۔۔ ہمیں اپنی نسلوں کیلئے فرقہ وارانہ کوٹے کے بجائے میرٹ، اصول، دلیل اور اہلیت کا کوٹہ دے کر جانا چاہئے ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان کو کوئی بھی فتح نہیں کرسکتا ہے اور نہ کوئی کسی کو ختم کر سکتا ہے۔
کئی صدیاں گزر گئی ہم ساتھ ہیں اور نہ جانے کتنی صدیاں اور بیت جائیں گی ہماری نسلیں ساتھ رہیں گی۔۔ ہمارے مفادات اور دکھ درد مشترک ہیں۔۔ ہمارا جینا مرنا سانجھا ہے۔۔ ہمارے ثقافتی رشتے انمٹ ہیں۔۔ ایک نگران وزیر اعلی کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں اور وہ کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ اس کے تو ہاتھ پاوں باندھ دیے جاتے ہیں۔۔ اس نوعیت کے غیر ضروری ایشوز کو ہمیں نہیں اچھالنے چاہئے بلکہ ریجنل کوٹے کے تصور کو ابھارتے ہوئے میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا اور تحمل اور امن کی فضا کو برقرار رکھنا ہوگی۔