کالمز
گلگت بلتستان میں قبضہ مافیاء کے سہولت کار
تحریر: وحید حسن
یہ بات ریاست پاکستان کے حکمرانوں اورعدلیہ نے بارہا واضح کر دیا ہے کہ گلگت بلتستان نہ تو پاکستان کاآٹوٹ انگ ہے نہ ہی بھارت کا شہ رگ اور نہ ہی کسی کی جاگیر بلکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے،اور کشمیر مسئلے کا چوتھا فریق ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے پاکستان کے بیوروکریسی اور اداروں نے اپنے ہی دعووں اور فیصلوں کے برعکس گلگت بلتستان میں اپنی جا برانہ اور نوآبادیاتی کردار کو دکھانا شروع کیا ہے.
حال ہی میں ایف۔ڈبلیو۔او (FWO) جو فوج کی تعمیراتی ونگ ہے نے ضلع ہنزہ کے بالائی علاقہ چپورسن گوجال میں بین الاقوامی اور ملکی مسلمہ اصولوں کے مطابق Prior, Informed and Free Consent (PIFC) مقامی لوگوں کی آزادانہ، اور باخبر رضامندی حاصیل کئے بغیر اور پاکستان کے اپنے قوانین برائے تحفظات جنگلی حیات اور ماحولیات کی دحجیاں اڑاتے ہوئے کنزرویشن ایریا میں مائننگ ایکپلوریشن کالائنس لیا ہے جو کی سراسر غیر قانو نی ہے.
گزشتہ دنوں ایف ڈبلیو او اپنے مشینری سمیت اچانک چپورسن پہنچ گئے جس پر نہ صرف چپورسن کے لوگوں میں بلکہ پورے گوجال اور ہنزہ اوعر گلگت بلستاتن کے عوام میں بے چینی اور غم و غصہ پھیل گیا.اور انہیں کام سے روک دیا گیا۔
اتنا بھر پور ردعمل ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اسلئے انہوں نے مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے بات چیت کی پیش کش کی اور تحریری یقین دہانی کیا کہ وہ عوام کے رائے اور رضامندہی کے بغیر اور کوئی معاہدہ کئے بغیر کام شروع نہیں کریں گے.
یہ عوامی مزاحمت اور اتحاد کی پہلی کامیابی تھی. جسے ہمیشہ برقرار رکھنا ہوگا اس قسم کے غیر قانونی کام کو روکا جا سکے اور اپنے زمینوں اور وسائل کا تحفظ کیا جا سکے.
یاد رہے اسی سال جنوری کے مہینے میں ایف۔ڈبلیو۔او کے اہلکاروں نے خنجراب نیشنل پارک کے اندر غیر قانونی شکار کرتے ہوئے بعد میں سوشل میڈیا پر زبردست شور اٹھنے پر ان کو گرفتار کر لیا. مین اسٹریم میڈیا میں یہ خبر چھپا نہیں. کیونکہ بقول فیض احمد فیض ‘اس دیس میں قاضی بھی ملزم سے پوچھ کے لکھتا ہے۔یہ قانون صرف غریب کے لیے ہے سول و فوجی نوکرشاہی کے لیے نہیں ۔.۔
ریاست کے اندھے اداروں کو 72 سالوں میں چپورسن کے مسائل دکھائی نہیں دی جیسے ہی مقمی سہولت کاروں نے ان کو وسائل کی نشاندہی کیں ان کے دل مین چپورسن کے لوگوں کے لئے اچانک ہمدری پیدا ہوگیا۔
گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں زمینوں اور وسائل پر قبضہ گیری کا عمل گزشتہ چند سالوں سے جار ی ہے.سال 2018 میں گلگت بلتستان کے سینکڑوں لوگوں کی عوامی ملکیت اور سب سے اہم ادارہ سوست ڈرائی پورٹ پر بھی فوج کاادارہ NLC نے قبضہ جما لیا. اس کے علاوہ سکردو ائیرپورٹ کے قریب گمبہ کے مقام پر مقامی لوگوں کے زمینوں پر بغیر کسی معاوضے کے قبضہ جما لیا. حسینی کے مشہور زمانہ معلق پل پر بھی اپنی ملکیت جتا دئے. وادی نلتر میں بھی PAF نے لیز کے نام پر قبضہ کر لی اس کے علاوہ اور بھی ایسی عوامی مشترکہ ملکیتی زمینٰ ہیں جن پر آج ریاست اور اس کے اداروں نے قبضہ کیا ہے۔
72سال بیت گئے عوام کو آئینی حقوق کے نام پر بیوقوف بنایا جاتا رہا،اب کوئی اگر وفاق پرست سیاسی جماعتوں سے پوچھا جائے کی وہ کیوں اس بات پر چپ ہیں زبانی مذمت کے علاوہ کیوں کچھ نہیں کرتے ہیں۔
بس حقیقت یہی ہے کہ تمام وفاقی پارٹیاں بشمول پیپلز پارٹی، پی۔ٹی۔آئی، نون لیگ ،اور دوسرے پاکستانی سیاسی پارٹیاں سب کے سب نوآبادیاتی نظام یا کولونیل رول کو برقرار رکھنے کے لئے سہولتکاری کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں، یہ محض اپنی ذاتی مفادات اور مراعات کے لالچ میں عوام کو اتنے سالوں سے بیوقوف بنا رہے ہیں۔یہ پارٹیاں نہ سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال کر سکیں بلکہزمینی اصلاحات کے نام پر عوام کے مشترکہ زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے ایک نیا قانون متعارف کروا رہی ہے ۔
آج پاکستان کے اشرافیہ حکمران طبقوں کی وجہ سے جی۔بی کے عوام نوآبادیاتی نظام کی چکیی میں پس رہے ہیں،جی ہاں یہ وہی سیاست دان ہے جو ملک میں پھیلی وباء (کرونا وارس) پر بھی سیاسی بازار گرم کر بیٹھے، قرنطینہ مراکز میں مشکل سے دال روٹی کھلاتے ہیں اورمیڈیا پر ٹراوٹ مچھلی کھلانے کا دعوا کرتے ہیں۔
دوسری طرف گلگت بلتستان میں انہی ریاستی اداروں کے سہولتکاری میں مذہبی اداروں کے چند عملدران پیش پیش ہیں ۔تاریخ میں ان کے عوم دشمن کردار ککی نشاندہی ضرور کیا جائیگا. اور یہ ضرور لکھا جائے گا کہ گلگت بلتستان میں عوامی مشترکہ ملکیتی زمینوں کو غیر مقامی اور طاقت ور مافیا کے ہاتھوں بچنے میں انہوں نے کہا کردار ادا کیا تھا۔
سوست ڈرائی پورٹ اور چیپورسن میں قبضہ کی گئی عوامی ملکیت زمینوں میں ا نہی منام نہاد جماعتی اداروں کے عمداران کا بھی سہولتکاری میں کلیدی کردار ہے،جو میں نے اس پوسٹ کے آخر میں آویزاں کر دی ہے ،سوست ڈرائی پورٹ کے جعلی معاہدہ کو ایک بار پھر سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخی حقائق کو سمجھنے اور میر ضعف اور میر صادق کا کردار ادا کرنے والوں کے گھناونے کردار کو بھی بے نقاب کرنے میں آسانی ہو، جنہوں نے چند پیسوں اور نوکریوں، مراعات کی خاطر نہ صرف اپنی ضمیر کا سودا کای بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کا بھی سودا کر ڈالا.
آج ایف ڈبلیو او جس جعلی معاہدہ کی بنیاد پر چپورسن مین داخل ہونا چاہ رہا ہے اس میں بھی انہی مذہبی نام نہاد جماعتی رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔
جب بھی آزادی کشمیر کی بحث چڑ جاتی ہے سب سے پہلے یہی مذہبی رینماء چاہے شیخ ہو، ملا ہو،یا واعظ قوم پرستی کا مصنوعہ نعرہ لگاتے ہیں.
انہیں گلگت میں ریاستی جبر اور اپنی دیس کی پرواہ نہیں، انہیں کشمیر فتح کرنے والے مجاہدین سے درخواست ہے کہ کبھی بابا جان اور دوسرے مظلوم قیدیوں جو آج ان کے خاطر جیلوں میں اپنی جوانی کے قیمتی آٹھ سال غزار دئے ہیں ان کے لیے بھی کبھی فرصت ملے تو ریلی نکالیں ۔ میری اس تحریر کا مقصد یہاں کسی مسلک یا مذہب پر تنقید نہیں بلکہ مذہبی کارڈ کا غلط استعمال ہے، جو فریضہ ہمارے مذہبی لیڈران سرانجام دے رہے ہیں یہ محض رونگ نمبر ہے ۔
ان کی منافقت نوجوانوں نسل جان چکی ہے آنے والے الیکشن میں بلخصوص نوجوان طبقے سے التماس ہے کہ ان وفاقی چمچوں کی باتوں میں آے بغیر اپنا راستہ خود متعین کر لے ۔