کالمز

عبوری آئینی صوبہ! حقیقت کیا ہے؟

تحریر: فیض اللہ فراق

گلگت بلتستان کی تاریخ سے پردہ اٹھانے والوں کو یہ بات تو معلوم ہے کہ یہاں کے مکینوں نے 1947 میں ڈوگرہ کے خلاف بغاوت بھی ایک پختہ نظریہ (کلمہ) کے تحت کی تھی۔ اگست 1947 کو برصغیر کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک مملکت وجود میں آئی جبکہ اس وقت گلگت بلتستان کا پاکستان کی آزادی کے ساتھ کوئی تعلق تھا اور نہ قیام پاکستان میں یہاں کے لوگوں کی کوئی جدوجہد شامل تھی بلکہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کی تیسری اکائی تھی اور یہاں گورنر کے عہدے پر ڈوگرہ سرکار سے تعلق رکھنے والے بریگیڈر گھنسار سنگھ براجمان تھے۔ گلگت بلتستان کے سنگلاخ چٹانوں میں بغاوت کی لہر قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئی تھی جب یہاں کے مکینوں نے ایک نظریے کے تحت ڈوگرہ کو مار بھگانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے صرف 2 ماہ بعد گلگت میں ڈوگرہ کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا اور مقامی آبادی نے ڈوگرہ ( نریندر مودی کی نسل) سے چھٹکارا پانے کی عملی جدوجہد کا آغاز کی۔۔۔ یوں 1 نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کی عوام نے گلگت کو اپنی مدد آپ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی حکومت سے آزاد کیا جبکہ 14 اگست 1948 کو بلتستان کے علاقے کو بھی ڈوگرہ تسلط سے آزاد کرایا۔۔۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ 16 نومبر 1947 کو میر آف ہنزہ اور میر آف نگر کے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے گئے الحاقی خطوط کی روشنی میں گلگت بلتستان غیر مشروط طور پر پاکستان میں ضم ہوا، اس دن سے گلگت بلتستان کا ریاست کشمیر سے کوئی تعلق نہیں بنتا ہے مگر جواہر لال نہرو کے کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کے بعد پاکستان نے بھی گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر سے نتھی کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حصہ بنایا تب سے اج تک گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کا ایک فریق ہے جبکہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے ہر فورم پر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ گلگت بلتستان کے حقوق بھی متنازعہ ہیں۔۔۔ گلگت بلتستان کے مکینوں کے بنیادی و سیاسی حقوق کسی طور متنازعہ نہیں ہیں۔۔ یہاں کے لوگوں کا پاکستان سے تعلق انمٹ ہے۔۔ اپنی آزادی خود لیکر اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہونے والوں کی 74 سالہ سیاسی محرومی کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟ اس کا واحد حل عبوری صوبے کا قیام تھا جسے گلگت بلتستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ملکر ایک متفقہ قراداد کے ذریعے عبوری صوبے کے قیام سمیت ایوان بالا و زیریں میں نمائندگی کا مطالبہ کیا ہے جو کہ خوش ائیند ہے۔ ریاست کی جانب سے عبوری آئین کی فراہمی کے بعد گلگت بلتستان کی عدلیہ میں بھی خوش کن اصلاحات کی توقع ہے جبکہ قومی سطح پر گلگت بلتستان کی نمائندگی بھی یقینی ہوگی ایسے میں بعض افراد کی جانب سے عبوری آئین کے حوالے مبہم سوالات سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری آئین کی فراہمی سے مسلہ کشمیر پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اسلئے کہ آئین عبوری ہے۔۔ یہاں پر لفظ ” عبوری” کا مطلب گلگت بلتستان کی خصوصی سٹیٹس کو عالمی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کے حل تک عبوری آئین سمیت مختلف ایوانوں میں نمائندگی کا حصول ہے، کشمیری لیڈرشپ کو چاہئے کہ وہ بھی اس معاملے پر گلگت بلتستان کے لوگوں کا ساتھ دیں ۔۔ کشمیری قیادت کو یہ ادراک ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان کے حقوق، نمائندگی اور مراعات تو متنازعہ نہیں ہیں۔۔ آخر یہاں کے باسی بھی تو انسان ہیں۔۔ مسلہ کشمیر کے حل تک کنڈیشنل آئین سے مسلہ کشمیر پر کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک طبقہ یہ واویلا بھی کر رہا ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان میں وہ کرنے جا رہا ہے جو انڈیا نے مقبوضہ کشمیر اور لداخ میں کیا ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے پاکستان گلگت بلتستان میں وہ اصلاحات لانے جا رہا جو بھارت نے 1970 کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر اور لداخ میں لائے تھے، انہی اصلاحات کی وجہ سے لوک سبھا و دیگر ایوانوں میں وہاں کی نمائندگی تھی، بھارت نے 6 اگست 2019 کو جو اقدام اٹھایا ہے وہ اس سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی پامالی ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر و لداخ کی خصوصی حیثیت ہی ختم کر دی ہے جبکہ پاکستان گلگت بلتستان کی خصوصی حیثیت کو قائم رکھتے ہوئے ” عبوری” آئینی حقوق کی فراہمی کا 6 اگست 2019 کے اقدام سے موازنہ ممکن ہی نہیں۔ بھارت کی جانب سے یکطرفہ جابرانہ اور وہاں کے باشندوں کی خواہشات کے برعکس اقدام کسی طور جائز نہیں ہے ۔۔ پاکستان گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر سے نہ نکال سکتا ہے اور نہ نکال رہا ہے بلکہ مسلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کے لوگوں کے متفقہ مطالبے پر انہیں عبوری نمائندگی دینے جا رہا ہے جو ایک قابل رشک و قابل تقلید اقدام ہے۔ میرے خیال میں اب وقت قریب آ پہنچا ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے مقتدر ایوان کی متفقہ قرارداد کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ عوامی نمائندوں کا وقار قائم رہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ عبوری آئین کے بعد گلگت بلتستان کو گندم پر دی جانے والی سبسڈی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے خطے کو محصولات فری زون اس وقت تک قرار دیا جائے جب تک یہ علاقہ اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہوتا۔۔۔ عبوری آئین کی فراہمی کے ساتھ ساتھ خود انحصاری کے ماحول کو بھی پروان چڑھانا ناگزیر ہے تاکہ وسائل کے استعمال سے حاصل شدہ آمدن کا معقول حصہ گلگت بلتستان حکومت کو دیے جانے کی صورت میں یہاں کے مکین خود کفالت کا سفر طے کر سکیں گے۔ ویسے بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کا پاکستان کے ساتھ تعلق نظریاتی ہے اور نظریہ کبھی بھی کسی جغرافیہ و دستور کا محتاج ہر گز نہیں ہوتا۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button