کالمز

عیدالاضحی

از قلم: نیک عالم راشدؔ

عیدالفطر اور عیدالاضحی اسلام میں دو بڑی عیدیں ہیں جن کو ہر سال مسلمان دینی جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ عیدالفطر رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے کے بعد شوال کی پہلی چاند دیکھنے پر یکم شوال کو روزے پورے کر کے انہیں کھولنے کی خوشی میں منایا جاتا ہے جبکہ عیدالاضحی ہر سال 10 ذی الحج یعنی حج کے زمانے میں منائی جاتی ہے۔ یہ سُنّتِ ابراہیمی ہے۔ تاریخی لحاظ سے یہ عید آج سے تقریباً پانچ ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑنے اپنے ربِّ جلیل کے حکم سے اپنے لخت ِجگر یعنی چہتے بیٹے اسماعیل کو راہِ حق میں قربان کرنا چاہا تو اس کی جگہ ایک دُنبہ ذبح ہوا اور اس جانور کی قربانی دراصل حضرت اسماعیل ؑکا فدیہ قرار پایا۔ اس کی تفصیلات قرآنِ پاک میں دی گئی ہیں۔ فدیے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ O وَ تَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِیْنَ O (37: 107, 108)

”اور ہم نے اسے ایک بہت عظمت والی قربانی کے بدلے فدیہ دے دیا اور اس پر ہم نے اس (قربانی) کو پیچھے آنے والوں میں رکھ چھوڑا۔“

معلوم ہوتا ہے کہ اس تہوار کا مرکز و محور ’قربانی‘ہے۔ قربانی کا لفظ عربی زبان میں قرب سے نکلا ہے جس کے معنی نزدیکی کے ہوتے ہیں۔ نیز اس میں اپنے دوست، آقا اور خالق و پروردگار کو خوش رکھنے اور اس کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ انسان نے اپنے غیر مرئی آقا کو، خواہ غیر الہامی مذاہب کا دیوتا ہو یا الہامی مذاہب کا خدائے یکتا، خوش رکھنے اور اس کی نزدیکی حاصل کرنے کیلئے قربانی کی ریت و رسم کی طرح ڈالی۔ قدیم تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں نے اپنی دیویوں اور دیوتاؤں کو خوش رکھنے کے لئے مال و دولت کے علاوہ اپنی اور اپنے عزیزوں کی جانیں تک قربان کیں اور قربان گاہوں پر انسانوں کو باقاعدہ ذبح کیا جاتا تھا۔ لیکن الہامی مذاہب خصوصاً اسلام نے اس قبیح اور غیر فطری رسم کا خاتمہ کیا اور خدائے واحد و یکتا کے قرب و نزدیکی اور اس کی رضا کے حصول کی علامت کے طور پر مالی قربانی کی فطری اور معقول روایت کو باقی رکھا۔

بہر حال قربانی اپنے آقا ومالک اور پروردگار کی خوشنودی اور نزدیکی حاصل کرنے کا ایک عملی اظہار ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی نزدیکی حاصل کرنے سے مراد فاصلہ اور مکان کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک ہونا نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے اندر ایسی عادات و اوصاف پیدا کریں جو اللہ کو پسند ہیں اور ان عادات و اطوارسے دُور رہیں جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ جیسا کہ حضورِ اکرمؐ فرماتے ہیں کہ: تُخَلِّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ”اے لوگو! تم اپنے اندر اللہ کی صفات پیدا کرو۔“ اسی طرح خدا کی ناپسندیدہ عادات و اطوار کو قرآنِ پاک میں ’سَیِّءُہ‘ یعنی بُرے کام کہا گیا ہے اور ان کو ’مکروہ‘ یعنی ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّءُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا O (17: 38) ”ان سب چیزوں کی بُرائی تمہارے پروردگار کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔“

چنانچہ خدا و رسولؐ کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لا کر اور سچائی، شفقت و رحمدلی، عفو و در گزر،سخاوت، انسان دوستی، رواداری اور تحصیل و طلبِ علم جیسی عمدہ صفات جو اللہ والے اوصاف ہیں، اپنا کر اور تکبّر، جھوٹ، حسد، حرص و لالچ، بخل، بدعنوانی، رشوت، ظلم و ناانصافی، فتنہ پردازی اور علم دشمنی جیسی اخلاقی بُرائیاں جو خدا کو ناپسند ہیں، سے دُور رہ کر انسان اللہ کی نزدیکی حاصل کر سکتا ہے اور پرہیز گار، نیکوکار اور معاشرے کیلئے ایک کار آمد انسان ہی کی قربانی بارگاہِ ربّ العزت میں شرفِ قبولیت حاصل کر سکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط (22:37)

”اللہ تعالیٰ کے پاس نہ ان کا (جانوروں کا) گوشت پہنچتا ہے اور نہ اُن کا خون و لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“

اسی طرح اللہ کو خوش رکھنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کی خدمت بجالائی جائے جو محتاج ہیں اور جسمانی معذوری، بیماری، معاشی و سماجی ناہمواری اور قدرتی آفات وغیرہ سے متاثر ہیں۔ دُکھی انسانیت کی خدمت ہی اللہ کی خدمت ہے اور اس کی رضا بھی اسی میں ہے۔ ایک روایت بیان کی جاتی ہے جس میں رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلّی اللّٰہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ:

”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا ”اے آدم کے بیٹے، میں بیمار ہوا تو ُتو نے میری عیادت نہ کی“ انسان کہے گا ”اے میرے رب میں تیری کس طرح عیادت کرتا جبکہ تو ربّ العالمین ہے۔“ خداوند تعالیٰ فرمائے گا ”کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلان بندہ بیمار ہوا تو ُتو نے اس کی عیادت نہ کی تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو ُتو نے مجھے کھانا نہ دیا۔ انسان کہے گا ”اے میرے ربّ میں تجھے کھانا کیسے دیتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔“ خدا فرمائے گا ”کیا تجھے علم نہیں کہ میرے فلان بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو ُتو نے اُسے کھانا نہ دیا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر اسے کھانا دیتا تو اُسے میرے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھے پانی نہ پلایا“ انسان کہے گا ”اے میرے ربّ میں تجھے کیسے پانی پلاتا جبکہ تو ربّ العالمین ہے“ خدا فرمائے گا ”میرے فلان بندے نے تجھ سے پانی مانگا مگر ُتو نے اُسے پانی نہ پلایا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اُسے پانی پلاتا تو اُسے میرے پاس پاتا۔“

اس روایت اور دیگر روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت ہی اللہ کی خدمت ہے اور ان کی خدمت سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ اسی طرح رسولِ پاکؐ سے ایک اور حدیث مروی ہے جس میں انسانی معاشرے کو فائدہ پہنچانے والے انسان کو اللہ کا محبوب ترین انسان قرار دیا گیا ہے۔ روایت یوں بیان کی جاتی ہے کہ جب آنحضرتؐ سے اُن لوگوں کے بارے میں سوال کیا گیا جو خداوند تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین ہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ: ”وہ، وہ شخص ہے جو مسلمانوں کے معاشرے کیلئے سب سے زیادہ مفید ہو۔“ اور دوسرے لفظوں میں: ”لوگوں میں سے بہترین شخص وہ ہے جس سے لوگ زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔“

گزشتہ دوسا لوں سے ایک عالمی وبا، کورونا وائرس (COVID-19)نے ہمارے خوبصورت علاقے گلگت۔ بلتستان اور ہمارے پیارے ملک پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔اس وبا نے ملک میں ہزاروں اور دنیا میں کروڑوں لوگوں کی جانیں لے لی ہے اور عالمی سطح پر کم و بیش ایک ارب سے بھی زیاد ہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔اس ہولناک وبا کے سبب جہاں نا قابل تلافی جانی نقصان ہواہے وہاں عالمی معیشت شدید بحران کا شکار ہوئی ہے اوراس نے تو غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین لیاہے۔غریبوں کے لئے کھانا پینا، علاج معالجہ اور تعلیم و تعلّم مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ غرض، اس وقت انسانوں کی ایک بڑی تعداد مصائب و آلام کی زندگی گزاررہی ہے۔ مسائل و مشکلات کی اس گھڑی میں عیدِ قربان زبانِ حال سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کی مدد اور اعانت کیلئے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے آئیں تاکہ ہماری مدد اور تعاون سے ان کی مشکلات کم ہو سکیں۔ ان کی بے لوث خدمت سے اللہ کی خوشنودی اور اُس کی قربت نصیب ہوگی۔

لہٰذا آج کا یہ عظیم اسلامی تہوار یعنی عیدالاضحی یا عیدِ قربان کے پیغام اور فلسفے کو سمجھنے اور دین ِابراہیمی اور دین ِ محمدیؐ کی تعلیماتِ مبارکہ پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ نیز یہ کہ ہم اپنی شخصی اور ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول سے آگے بڑھ کر عظیم تر انسانی فلاح و بہبود اور دُکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کے لئے کمر بستہ ہو جائیں اور خداوندی احکامات کی بجاآوری کیلئے سرگرمِ عمل ہو جائیں۔ نیز اپنی ذاتی بے جا خواہشات کو پس ِپشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کے مطابق تقویٰ و نیکوکاری کی زندگی گزاریں اور بُرائیوں اور خدا کے ناپسندیدہ کاموں سے باز آجائیں تاکہ اللہ کی خوشنودی بھی حاصل ہو اور انسانی معاشرے کی درستی کا سامان بھی فراہم ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں اعلیٰ ہمّت اور توفیق عنایت فرمائیں اور مسلم اُمّت اور انسانیت کو بلاؤں، آفتوں اور بیماریوں محفوظ و مامون رکھے اور ترقّی و سربلندی عطا فرمائے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button