کالمز

بچے کیسے سیکھتے ہیں؟

خوش فونر

بچوں اور بڑوں کے سیکھنے کے طریقے اور انداز مختلف ہوتے ہیں۔جس چیز کو بالغ غلط سمجھتے ہیں۔بچے اس کا م کو اپنے خیال کے مطابق درست تصور کرتے ہیں۔مشہور ماہر نفسیات او ر ماہر تعلیم جین پیاجے نے اپنی تحقیق سے یہ بات ثابت کی ہے کہ بچوں کے سیکھنے اور سمجھنے کے پیمانے بالکل مختلف ہیں۔ ابتدائی بچپن کی تعلیم اور پرائمری سطح پر پڑھانے والے اساتذہ کے لئے یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے کہ بچے کیسے سیکھتے ہیں؟

ایک ماہر تعلیم نیومین کا کہنا ہے کہ کسی بھی بچے کی زندگی میں اس کے اسکول کے ابتدائی ایام سب سے اہم دن ہوتے ہیں۔جو کہ بہت جلدی سے گزر جاتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تعلیمی نظام میں بچوں کے اسکول میں ابتدائی ایام پر کس قدر توجہ دی جا رہی ہے۔ ابتدائی بچپن کی تعلیم پر پھر بھی کچھ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔لیکن پر ائمری تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں کی زندگی کے سب سے قیمتی لمحات اوروقت کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ابتدائی جماعتوں میں نئے اور سب سے کم تربیت یافتہ اساتذہ کو متعین کیا جاتا ہے۔چھوٹی جماعتوں کو باہر کھلے آسمان تلے بیٹھا کر روایتی انداز سے پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ بڑی جماعتوں کو کمرۂ جماعت مختص کیا جاتا ہے۔

بچے قوم کے معمار ہیں۔ آج کے بچے کل کی قوم ہوتے ہیں۔اور جیسے بچے ہوں و یسی ہی قوم ہوگی۔ یونیسف کے ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک کے ۴ سے ۴۱ سال کی عمر کے گیارہ ملین بچے فیکٹریوں میں کام کر رہے ہیں۔ جو اکثر سفاکانہ اور ناقص حالات میں کام کر کے اپنے اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے مجبور ہیں۔ یہ میرا وطن جس میں ہزاروں بچے چار سال کی عمر میں ہی ہاتھ میں قلم اور کتاب کی بجائے اوزار پکڑکر روزی کمانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں۔اور کتنے ہی پھول جیسے نازک بچے کچرے کے ڈھیروں میں زندگی تلاشتے ملتے ہیں۔ارے بات کہاں سے کہاں نکلے جا رہی ہے۔ دراصل ہمارا موضوع ہے۔کہ بچے کیسے سیکھتے ہیں؟ توہم اس بات پرمُصر ہیں کہ بچوں کے سیکھنے کے اصولوں پر والدین، اساتذہ اور درس و تدریس سے وابستہ ہر خاص و عام شخص کے لئے جاننا ضروری ہے۔ یاد رکھیں بچوں کے سیکھنے کا عمل کا فی پیچیدہ ہے۔اور اگر کوئی اساتذہ بچوں کے سیکھنے کے عمل کے بنیادی اصول جانے اورسمجھے بغیر بچوں کو پڑھانے کی کوشش کرینگے۔تو وہ کبھی بھی کامیاب اساتذہ نہیں بن سکتے۔بلکہ وہ کمرہ جماعت کے اندر بری طرح شکست کھائینگے۔بہت سارے اساتذہ اپنے پیشہ وارنہ زندگی میں ہارتے ہی جاتے ہیں۔لیکن اپنے تدریسی انداز اور روایات نہیں بدلتے۔اپنے پڑھانے کے طریقوں پر غورو فکر کئے بغیر ساری ملازمت بس یوں ہی گزار دیتے ہیں۔ اور پھر ملازمت سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔نہ جانے شکست کا احساس انہیں کیسے جینے دیتا ہے۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں۔ "کہ وہ شخص قابل ستائش نہیں جس کا آج اس کے کل سے بہتر نہ ہو”۔ کتنے ہی قابل رحم ہے وہ لوگ جن کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ان کے سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیتیں رک جاتی ہیں۔ خدا نخواستہ یکسانیت کے یہی بادل اگر کسی مدرس کی زندگی پر چھائے رہیں تو بچوں کے سیکھنے کے میدان میں کبھی بھی رحمت کی بارش نہیں ہو گی۔ اور دوسری طرف اساتذہ بھی روزانہ ایک طریقے سے پڑھاتے ہوئے نہ خود بے زار ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی بچوں کی بوریت کا انہیں احساس ہوتا ہے۔

تھوڑی دیر کے لئے غور کیجئے کہ اگر بچوں کو روزانہ ایک ہی طرح کا چہرہ دیکھنے کو ملے۔ روزانہ ایک طرح کا کام کرنے کو ملے۔ اور وہی الفاظ سننے کو ملے۔ تو ایمانداری سے سوچئے کیا یہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔مسکراہٹ اگر صدقہ ہے تو بچے اس سے محروم کیوں؟ اگر کسی کی زندگی میں الفاظ کی تازگی بہار کے پھول کھلا سکتی ہے۔ تو بچوں کے معاملے میں یہ بخالت کیوں؟ روزانہ ایک ہی طرح کا ہوم ورک، کلاس ورک دو ہی سوال و جواب کے روایتی انداز! کیازمانے میں جینے کی یہی باتیں ہیں اور پھر بات بچوں کے سیکھنے سکھانے سے ہٹ کر اساتذہ کے پڑھانے کی طرف جا نکلی ہے۔ ویسے اساتذہ کے پڑھانے اور بچوں کے سیکھنے کے طریقوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

مشہور محقیق Stella Vosniadou کے مطابق بچوں کی تعلیم کے بارے میں کچھ اصول درج ذیل ہیں۔

٭ سیکھنے کے لئے سیکھنے والوں کی فعال اور تعمیری شمولیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

٭ سیکھنا بنیادی طور پر ایک سماجی سرگرمی ہے اور اسکول کی سماجی زندگی میں شرکت سیکھنے کے لئے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

٭ بچے بہترین سیکھتے ہیں جب وہ ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔جو حقیقی زندگی میں مفید سمجھی جاتی ہے یا ثقافتی طور پر متعلقہ ہیں۔

٭ بچوں کو اپنی تدریسی سرگرمیوں میں شامل کرنا اساتذہ کا کام ہے۔ یک طرفہ طریقہ تدریس سے اجتناب کیا جائے۔ اور بچوں کو زیادہ

سے زیادہ عملی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔ لیکن یاد رکھیں کہ عملی سرگرمیاں براہ راست بچوں کی معاشرتی اور ذاتی زندگی سے

مربوط ہونی چاہئیے۔

٭ بچوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ہم عمر بچوں سے اور گروپ میں کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے

اور گروپ میں کام کرنے سے زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں۔لہذا کمرۂ جماعت میں جوڑوں اور گروپ کی صورت میں کام کروایا جائے

٭ بعض اوقات پہلے کا علم کچھ نیا سیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ طلباء کو یہ سیکھنا چاہیے کہ داخلی مستقل مزاجی کو کیسے حل کرنا ہے اور

ضرورت پڑھنے پر موجودہ تصورات کی تشکیل نو کرنا ہے۔

٭ نئے علم کی تعمیر اس بنیاد پر کی جاتی ہے جو پہلے سے سمجھی اور مانی جاتی ہے۔

٭ بچوں میں انکی ذات کے حوالے سے مثبت سوچ پیدا کرو ایاجائے۔وہ بچے جو اپنے آپ کو نالائق اور غیر اہم سمجھتے ہیں تو جان لیجئے

کہ وہ کبھی بھی نہیں سیکھ سکتے۔ لہذا والدین اور اساتذہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہمشہ بچوں کی حوصلہ افزائی کرئے اور بچوں کو

نظر انداز کرنے سے گریز کریں۔بلکہ ان کی غلطیوں کو نظر انداز کریں۔

٭ سوال پوچھنا ہر بچے کا بنیادی حق سمجھنا چاہئیے۔اور کمرۂ جماعت میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ اظہار خیال اور سوالات پوچھنے کا

موقع فرا ہم کیا جائے۔ آخر میں اس بات کے ساتھ اختتام کرنا چاہوں گی کہ بچے ہمارا سب سے بہترین اثاثہ ہیں۔انہیں ضائع

ہونے سے بچاناہم سب والدین اور اساتذہ کا کام ہے۔

مصنفہ آغا خان یونیورسٹی-انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ -پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹر نارتھ میں ٹیچنگ فیکلٹی کے طور پر کام کر رہی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button