شکریہ پاکستان
تحریر: غالب شاہ سید
اسسٹنٹ پروفیسرشعبہ اردو،گورنمنٹ گرلز کالج گاہکوچ غذر
چائے کی آخری گھونٹ لیتے ہوے دادی اماں نے ایک ٹھنڈی آہ بھر لی اور اپنے بھاری بھرکم لہجے میں کہنے لگی۔شکریہ پاکستان آپ نے ہمیں سب کچھ دیا مگر ہم سے محبت کرنے والا دل چھین لیا۔وہ اپنے جھریوں بھرے چہرے کے ساتھ برینڈڈ کپڑوں میں بہت پرکشش لگ رہی تھی۔ اسکی مسکراہٹ بڑی خوبصورت تھی۔اسکی عمر نوے سال سے اوپر تھی۔وہ اپنے کھنڈر نماجسم میں خوبصورت عمارت کی ماضی رکھتی تھی اس نے قیام پاکستان کو اپنی جوان آنکھوں سے دیکھا اور خوب دیکھا تھا۔مجھ سے کہنے لگی۔قیام پاکستان کے دوران ہی مجھے آپ جیسے ایک خوبرو جوان سے پیار ہوگیا۔ مجھے دادی اماں کی خوبصورتی کی معیار پر ترس آگیا۔بہر حال لیلی کو دیکھنے کے لیے مجنون کی آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔پھر یوں ہوا کہ وہی خوبرو جوان میرے بچوں باپ بن گیا۔اسکی آنکھوں میں پیارکی چمک جاگ اٹھی ۔کہنے لگی بڑا مزا آتا اگر میرا پیار مجھے نہ ملتا اور میں ساحل پر پڑی کسی پیاسی مچھلی کی طرح تڑپنے لگتی۔اسکی باتوں میں فلسفہ تھا۔یقینا وہ لوگ بڑے کامیاب ہیں جو اپنی ناکامیوں، پریشانیوں اور تڑپتے دلوں کو مزے میں تبدیل کرنے کا فن جانتے ہیں۔
اسلام آباد کی رہنے والی یہ دادی آماں دلچسپیوں سے خالی نہ تھی۔وہ اسلام آباد میں ایک بنگلے کی مالکن تھی جس میں وہ اپنے اکلوتے بیٹے اور بہو کے ساتھ ایک شاندار زندگی گزار رہی تھی۔اسکی بیٹیاں شادی رچا کر اپنے اپنے دلہوں کو پیاری ہوگئی تھیں اسکا بیٹا ایک کامیاب انجنئر تھا۔میں کوئی دو ڈھائی مہینوں کے لئے اسکے بنگلے کے ایک مختصر سے حصے میں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہ رہا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے کئی دلچسپ اور کھٹے میٹھے دنوں کا ذکر کیا۔میں نے کہا ہمارا ملک بڑا مہنگا بنتا جا رہا ہے۔اس نے نفی میں سر ہلایا اور کہنے لگی نہیں بیٹے ملک دن بدن ارزاں ہوتا جا رہا ہے۔ہر چیز کی فراوانی ہورہی ہے۔پھر اس نے اپنے بچپن کا ذکر چھیڑا۔کہنے لگی اصل مہنگائی، کمیابی اور عدم دستیابی تو انکے بچپن کے دنوں میں تھی۔انکا کہنا تھا ان دنوں میں اسلام آباد ایک جنگل نما آبادی ہوا کرتا تھا۔ کہنے لگی ہمارے بچپن میں کھانے بڑے سادہ ہوا کرتے تھے۔سبزی،کچھ روایتی کھانے اور کھبی کھبی گھوشت کا شوربہ۔کڑاہی،بریانی،نہاری،چکن جلفریزی،پیزا،برگر اور کولڈ ڈرنک وغیرہ کو انہوں نے بہت بعد میں دیکھا تھا۔پھر جینپ زدہ لہجے میں بولنے لگی میری جوانی تک نہ صرف میری بلکہ میرے محلے کی کئی لڑکیوں کے پاس پہننے کے لئے شلوار نہیں ہوا کرتی تھی۔ چھیتڑوں اور پیوند لگے کپڑے اور جوتے خوش نصیب لوگوں کو ہی میسر تھے۔ہم ددونوں اس تلخ حقیقت پر بہت ہنسے۔سفر کرنا اتنا آسان کبھی نہ تھا شاز و نادر ہی کوئی تانگا سفر کے لئے دستیاب تھا۔اس نے دیوا، لالٹین،ریڈیو،چھ انچ کی بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی،پیوند لگے چائے کے کپ اور دیگر اسطرح کی چیزوں کا دور دیکھا تھا۔بیمار ہونے پر دوا دستیاب نہ تھی۔گھس پٹ کر خود ٹھیک ہوتے یا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی گود میں سو جاتے۔گھر بھی کچے مکان ہی ہوا کرتے تھے۔جن میں بھوک،قحط اور وبا گردش کرتی رہتی۔
دادی اماں کی باتیں سننے کے بعد عقل ٹھکانے آگئی۔تھوڑی دیر کے لئے بچپن کا دور آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور پھر کسی ہولی وڈ فلم کی طرح ہولے ہولے دیر تک بچپن کی بے شمار کھٹی،میٹھی اور تلخ یادیں ذہن کے پردے پر آویزاں ہوئیں۔مجھے میرے بچپن کے دور کے لوگوں کے چہرے یاد آنے لگے۔جن پر ہروقت فکر دوڑتی رہتی اور جو غموں کے جھریوں تلے کہیں دبے دکھائی دیتے۔ہمارے بچپن کے کھانے پینے اور پہنے کے سامان بھی دادی اماں کے ما ل اسباب جیسے ہی تھے۔بریانی،کڑاھی،نہاری پیزا،برگر اور کولڈ درنک کا دور ہم نے بھی بہت بعد میں دیکھا تھا۔پیوند زدہ کپڑے ہم نے بھی پہنے تھے اور اکثر پہنے تھے۔میرے بڑے کاکا کہا کرتے ہیں کہ انکے بچپن میں اکثر لوگوں کے پاس پہنے کو شلوار نہیں ہوا کرتی تھی۔ اکثر لوگ بغیر جوتوں کے رہنے کے عادی ہوتے۔صابن سے ہاتھ دھونے کا کلچر بہت کم تھا بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ بالکل نہ تھا۔پرفیوم،کریم،لوشن ٹائپ کے نام مکمل اجنبی تھے۔لوگ سفر عموماً پیدل ہی کیا کرتے۔ گھوڑے کی سواری کسی شہزادے یا کسی اہم سرکاری اہل کار کو ہی نصیب ہوتی۔میں نے بڑی دیر سے گاڑی کو قریب سے دیکھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے۔میرے بڑے بھائیوں نے مجھے جیپ دیکھانے کی غرض سے کافی دور کا سفر پیدل طے کیا اورر مجھے گاڑی دیکھانے کا اہتمام کیا۔مقام مقررہ پر پہنچنے کے بعد بہت دیر انتظار کرنا پڑا۔ کافی دیر بعد ایک جیپ فراٹے بھرتی ہوئی نمو دار ہوئی مگر بد سلیقہ ڈرائیور اسے ایک دم بھگاتے ہوے دھول اڑا کر چلے گئے میں انگلی دانتوں میں دبا کر دیر تک اس جیپ کو اڑتی دھول میں تعاقب کرتا رہا اور وہ کسی ناز نخرے والی ظالم محبوبہ کی مانند جلد ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔میں دل ہی دل میں ڈرائیو ر کو کوستا رہا۔بد تمیز تھوڑی دیر کے لئے ہمارے پاس روک لیتا تو کیا ہوتا۔میں اس میں بیٹھ نہیں سکتا تو کم از کم اسے چھو تو سکتا۔مجھے اسکی گول گول ہیڈ لائٹیں اور پائیدان بہت پسند آئے۔دل امید ٹوٹتا محسوس ہوا۔مجھے اس جیپ میں بیٹھنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی اور ان لوگوں کی نصیب پر رشک ہونے لگا جو اس میں سوار تھے۔اس دن میری قسمت اچھی تھی۔دیکھنے گاڑی گئے تھے اور لوٹتے لوٹتے ایک با ئسیکل بھی دیکھ لی۔جیپ اور سائیکل کی دیدار سے سرشار جب میں گھر لوٹ آیا تو مارے خوشی کے کھانا کھانے کا بھی ہوش نہ رہا۔رات کو بستر پر دیر تک جیپ اور سائیکل کی شکلیں رہ رہ کر یاد آنے لگی۔ اگلی صبح اپنے دوستوں پر اپنی برتری واضح کی کہ میں نے گاڑی اور سائیکل کو قریب سے دیکھا ہے۔اپنے دوستوں کو گاڑی اور سائیکل کی شکل و صورت بڑے چاو سے واضح کرنا شروع کیااور انہیں تبیہ کی کہ وہ بھی اپنی زندگی میں ان جدید مشینوں کا دیدار ضرور کریں۔ان دنوں اکثر گھروں میں کھانا کم پکتا۔لوگ عموماً چائے پر گزران کرتے۔گھروں کی چھتیں کچی ہوتی جو میر کے مکان جیسی نہیں تو کم از کم غالب کے بھلی ماروں والی مکان سے ضرور مناسبت رکھتیں۔ساون کے مہینوں میں بارش اگر ایک گھنٹے برستی تو چھت چار گھنٹے ٹپکتی۔جب را ت بھر بارش کے بعد گھر کی چھت مکمل ٹپکنی شروع کرتی تو ہمارے گھر والے ہمیں رات گزارنے عبادت خانے کی عمارت میں لے چلتے جسکی عمارت دیگر تمام گھروں کی عمارتوں سے بہر حال بہتر ہوتی اور جہاں ہماری طرح کے دیگر کئی خاندان پہلے سے ہی پناہ گزین ہوتے۔چنانچہ رات بھر جاگ کر گزارنی پڑتی یوں ساون کا پورہ نمکین موسم کچی نیند کی نظر ہوجاتی۔آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو وہ زندگی کسی قصہ پارینہ کی طرح زیب داستاں اور تاریخ کے جھروکوں میں مدفون نظر آتی ہے۔
چار پانچ دھائیاں قبل کم و بیش اسطرح کی ملتی جلتی صورت حال ملک کے طول و عرض میں ہر طرف موجود تھی۔میں نے پشاور، کراچی،کوئٹہ اور لاہور وغیرہ کے کئی قدیم باسیوں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے انکے ماضی کا احوال دریافت کیا۔سب نے اپنی اپنی زندگیوں کی دل گداز کہانیاں سنائی۔اور کتنوں کی آنکھیں کئی بار اشک بار ہوئی۔آج کونسا گھر ایسا ہے جہاں دولت کی ریل پیل نہیں۔مہنگائی کا رونا رونے والے جدید گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔آج محل کے محل آباد ہیں اور چہرے کے چہرے شاد۔ہم عام پاکستانیوں کے گھر امریکہ اور برطانیہ کے صدور اور وزرائے اعظم کے گھروں سے بڑے ہیں۔ بس اگر کوئی کمی ہے تو صرف محنت کی، دیانت داری کی،شکر کی اور پیار کی۔جو روز بروز کم سے کم ہوتیں جا رہیں ہیں۔میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ ہم پاکستانیوں نے کتنے کم عرصے میں کتنی ذیادہ مادی ترقی کی۔ وہ بھی پہت کم محنت اور مشقت کے۔ اس سب کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے تو کم ہے۔شکریہ پاکستان!رہی بات جز وقتی مہنگائی کی تو یہ ہم سب کے لئے اچھا ہے۔یہ مہنگائی ہمیں یورپ اور امریکہ کے باسیوں کی طرح چودہ چودہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے محنت کرنے پر مجبور کریگی۔گھر کے ہر فرد (مرد وعورت) کو کام کرنے کی تعلیم دیگی۔یہ مہنگائی فضول خرچی،اصراف اور عیش کی عادت سے بعض آنے پر مجبور کریگی۔یہ قناعت پسندی سکھائے گی۔ یہ دولت کے درست استعمال کے گر سکھائے گی۔
مگر ہم ہیں عجیب قوم ۔ہمیں ترقی پسند ہے مگر ٹیکس دینا کوئی نہیں چاہتا۔انصاف ہم سب کو عزیز ہے مگر قانون شکنی کو ہم فخر سمجھتے ہیں۔خالص چیزیں ہم سب کھانا چاہتے ہیں مگر ملاوٹ کے سارے رکارڈ بھی ہماری قوم میں آکر ٹوٹ جاتے ہیں۔صفائی ہمارا نصف ایمان ہے۔مگر غلاظت پھیلانے میں بھی ہم کسی سے کم نہیں۔ہم پیسے کمانا چاہتے ہیں مگر عیش اور آرام طلبی ہمارے رگ رگ میں رچ بس چکی ہے۔ باوجود اس سب کے ہم نے مادی ترقی تو بہت کی مگرکاش اس ساری مادی ترقی کے ساتھ ہم عقلی اور روحانی ترقی بھی کرتے ۔