چیف جسٹس آف گلگت بلتستان وزیر شکیل احمد کا شکوہ
امام علی علیہ السلام کا قول ہے کہ کفر کے ساتھ نظام چل سکتا ہے ظلم کے ساتھ نہیں۔ ظلم کے خاتمے کیلئے جہاں اچھے حکمران کا ہونا لازمی ہے وہیں بہتر نظام عدل انصاف کا ضامن ہے۔لیکن بدقسمتی گلگت بلتستان کی 75 سالہ نامکمل تاریخ میں اس خطے کونہ اچھے حکمران نصیب ہوئے نہ نظام عدل۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بقول شاعر مشرق علامہ کے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زیر خیر ہے ساقی۔
گزشتہ دنوں اسلام ا ٓباد میں نوویں بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس آف سپریم اپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان وزیر شکیل احمد نے خطاب کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ گلگت بلتستان کے مقامی عدالت عالیہ کے سربراہ کو اس قسم کے اہم کانفرنس میں خطے کا مقدمہ پیش کرنے کا موقع ملا جو کہ انتہائی نیک شگون ہے۔ چیف جسٹس وزیر شکیل احمد کی نو منٹ کچھ سیکنڈ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ وعدے کے مطابق اُنہیں کم سے کم وقت میں تقریر مکمل کرنا ہے۔لیکن اُن کے ہاتھ میں جو لکھی تقریر کے صفحات نظر آرہا تھا اُس سے ایسا لگ رہا تھا کہ اُنکا طویل مقدمہ پیش کرنے کا پروگرام تھالیکن وقت کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہیں ہوسکے ۔
اپنی تقریر میں جہاں اُنہوں نے گلگت بلتستان میں عدلیہ سے متعلق پیچیدہ مسائل کی نشاندہی کی، وہیں خطے کی 75 سالہ سیاسی محرومیوں کا بھی بلاوسطہ ذکر کیا۔اُنہوں نے کہا کہ خطے میں واحد ایک چیف جج ہوں جس کی وجہ سے کیسز کا انبار لگ چکا ہے۔ انہوں نےچیف جسٹس آف پاکستان سے شکوہ کیاکہ گلگت بلتستان میں ججز کی پنشن اور مراعات ایک جج کے برابرنہ ہونے سے قانون کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے۔لہذا اپیلیٹ کورٹ میں خالی آسامیوں پر ججز تعینات کیے جائیں ججز کی تعیناتی مراعات اور پنشن کو ریگولرائز کرایا جائے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ خطے میں عدلیہ قانون کی بالادستی میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور یہاں آج بھی نہ کوئی آئین ہے اور نہ آئینی ضمانت کے تحت بنیادی حقوق ہیں اور نہ ہی آذاد عدلیہ موجود ہیں۔ بدقسمتی سے اُن کے اس اہم ترین خطاب کو مقامی میڈیا میں خاص پذیرائی نہیں ملی ۔لیکن سوشل میڈیا پر اُ نکے تقریر کا کچھ حصہ بہت وائرل ہے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک،ٹیوٹر وغیرہ پر گلگت بلتستان کے کئی اہم سیاسی رہنماوں اور وکلاء، سوشل ایکٹوسٹ نے اُنکی تقرر کا مخصوص حصہ شیئر کرکے جہاں اُنہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے وہیں عوامی حلقوں نے مطالبہ بھی کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام عدالتوں میں جج مقامی تعینات ہونا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر ذیادہ تر لوگوں کی رائے ہے کہ پہلی بار گلگت بلتستان کے اعلیٰ عدالت کے سربراہ کی جانب سے اہم کانفرنس میں وہ باتیں جو عمومی طور پر گلگت بلتستان میں کرنا ایک طرح سے ممنوع اور مشکوک سمجھا جاتا ہے ۔اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو قوم پرست کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے،کرنا یقینا بہادری اور دھرتی سے وفاداری کی عظیم مثال ہے۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان میں قانون کی بالادستی کیلئے مقامی سیاسی پارٹیوں کی طویل جدوجہد رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج مسلہ گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کی اہم کنجی کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔
پس چیف جسٹس کےخطاب سے اسمبلی کے ممبران کے اُن بلند بانگ دعوں کی نفی ہوگئی جو اپنے مراعات مفادات کیلئے ہمیشہ یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں ایک بااختیار حکومت ہے اور اپنے فیصلے ہم خود کرتے ہیں۔کیونکہ جہاں عدالت انصاف دینے میں ناکام ہو سیاسی نظام باختیار ہونے کی باتیں خام خیالی اور فریب ہے اور اس بات کا اقرار سابق اسپیکر سمیت کئی ممبر اسمبلی اخباری بیانات کے ذریعے کرچکے ہیں کہ گلگت بلتستان میں دراصل بیوروکریسی ہی پوری نظام پر حاوی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری اسمبلی کی تاریخ ہے کہ یہاں سے مسلہ کشمیر اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کے قرادادوں اور ریاستی موقف آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 اور آرٹیکل 1 کے تناظر میں گلگت بلتستان کیلئے حقوق مانگنے کے بجائے ذاتی خواہشات کی بنیاد پر آج تک قرارداد پاس کرتے رہے ہیں جسکا نتیجہ آج تک صفر ہے۔ ورنہ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچُکی ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا اس قدر آسان نہیں جس طرح سے مقامی سطح سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے کئی اہم فیصلے موجود ہیں جس میں خطے میں ٹیکس کی نفاذ کے خلاف 1994ء میں ایک آئینی درخواست جو الجہاد ٹرسٹ فیصلہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس آئینی پٹیشن پہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایک لارجر بنچ نے سال 1999ء میں فیصلہ دیکر حکو مت پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہخطے کے عوام کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے اوپر خود حکومت کرنے کا اختیار دیں اور یہاں کے عوام کے بنیادی حقوق کی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے آئینی گارنٹی کے ساتھ ایک آزاد خودمختار عدلیہ قائم کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے وفاق پاکستان کو چھ ماہ کے اندر اس فیصلے پہ عمل درآمد کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح سال 2015ء میں جی بی کے وکلاء تنظیموں نے گورننس آرڈر 2009ء کو 1999 کے فیصلے کی بنیاد پہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اس آئینی پٹیشن پہ فیصلہ آنے سے پہلے حکومت پاکستان نے آرڈر 2009 کو منسوخ کرکے جون 2018 میں نیا آرڈر 2018ء نافذ کیا۔ 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر واضح طور پر لکھا ہے کہ گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی اورگلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے گی۔اسی طرح آذاد کشمیر ہائی کورٹ اہم فیصلہ 8 مارچ 1993 بھی خطے تاریخ کا اہم باب ہے ۔
لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ اس خطے کی بین اقوامی قانونی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے مسلہ کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کے قراردادوں/سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روح کے مطابق خطے میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا کیونکہ قانونی کی بالادستی ترقی کا ضامن ہے اور ترقی کیلئے گلگت بلتستان میں وسائل کی کمی نہیں۔