ضلع شگر میں 27 فیصد بچے کم عمری میں ہی کام کرنے پر مجبور، تحقیقاتی رپورٹ
شگر میں 24 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں
رپورٹ، سرور حسین سکندر سکردو
گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کی نسبت ضلع شگر میں کام کرنے والے بچو ں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اگلے 5سالوں تک اس تعدادمیں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر بچے اجرت کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونسیف اور محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ گلگت بلتستان کے 2019 میں کئے گئے مشترکہ سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں سب سے کم بچے ضلع دیامر میں کام کرتے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق ضلع دیامر میں شرح خواندگی گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کی نسبت بہت کم ہے۔ دوسری طرف ضلع شگر میں سکولز کی تعداد بھی زیادہ ہیں اور شرح خواندگی بھی دیامر سے زیادہ ہے۔ اس فرق کے باوجود بھی شگر میں ضلع شگر میں 8۔27 فیصد بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ بلتستان ڈویژن کے دوسرے اضلاع میں کام کرنے والے بچوں کی شرح شگر کے نسبت کم ہے۔ سکردو میں یہ شرح 16.1 ہے، گنگچھے میں 23.7 فیصد جبکہ کھرمنگ میں 9.2فیصد بچے کم عمری میں کام کرتے ہیں،
محکمہ پلانینگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق ضلع شگر میں دیگر اضلاع کی نسبت چائلڈ لیبرز کی تعاد بہت زیادہ ہے۔ ان میں بھی زیادہ تر بچے وہ ہیں جو بغیر اجرت کے کام کرتے ہیں۔ اسی لئے پلاننگ ڈیپارٹمنٹ نے یونسیف کے ساتھ مل کر اس ضلع کو فوکس کیا ہے اور پوسٹ چائلڈ سروے ریسرچ پروجیکٹ شروع کیا جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے ضلع شگر میں چائلڈ لیبر سب سے زیادہ ہونے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔
محمد ندیم ڈپٹی چیف پلانینگ ڈیپارمنٹ کے مطابق شگر میں ہم ریسرچ کریں گے اور ہماری ٹیمیں تمام دیہاتوںمیں پہنچ جائیں گی اور انٹرویوز سمیت مختلف طریقے استعمال کرکے تجزیاتی سروے مکمل کریں گی۔
اسی طرح، محکمہ تعلیم کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق بلتستان ڈویژن میں کل332,587 بچوں میں سے 29,253بچے سکول جانے سے قاصر ہیں جو کہ بچوں کی کل آبادی کا 20.5فیصد ہے۔ جبکہ اگر ضلعوں کی بات کریں تو ضلع شگرسکول سے باہر بچوں کی تعداد کے حوالے سے بھی سرفہرست ہے۔ شگر میں لگ بھگ 5،227بچے، یعنی 24 فیصد، بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ جبکہ ضلع سکردو میں 10,705بچے، 23 فیصد، سکول نہیں جاتے ہیں گنگچھےمیں 10,304یعنی 16فیصد بچے جبکہ کھرمنگ میں 3004یعنی 21فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں
انسانی حقوق کمیشن پاکستان بلتستان کے کوآرڈنیٹر وزیر مظفر حسین نے ہمیں بتایا کہ بلتستان ڈویژن میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر اس حوالے سے اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو چند سالوں میں اس تعداد میں کئی گنا اضافے کا امکان ہے، ان کا کہنا تھا کہ بلتستان ڈویژن خاص طور پر ضلع شگر میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی بڑی وجہ بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا ہے۔ اس بڑی تعداد میں بچوں کا سکول نہ جانا حیرت ناک عمل ہے اور تحقیق کے ذریعے اس کی وجوہات معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کام کرنے والے بچوں سے کام تو لیا جاتا ہے مگر کاروباری حضرات انہیں اجرت یا تو کم دیتے ہیں یا بلکل بھی نہیں دیتے ہیں۔ نیز ان سے ان سے سخت موسمی حالات میں بھی کام لیا جاتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ سال ہوم ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان سے تمام ضلعوں کو ایک سرکُلر جاری ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ضلعوں میں اگر سکول کے وقت کوئی بھی بچہ باہر پایا گیا تو اس کے والد کو گرفتار کیا جائے لیکن اس سرکُلر پر عمل نہیں ہوا اور نا کسی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
محکمہ تعلیم گلگت بلتستان ہر سال تمام اضلاع میں داخلہ مہم چلاتا ہے۔ اس سلسلے میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں اور لاوڈ سپیکر سے اعلانات بھی ہوتے ہیں اور آئمہ جمعہ سے خطبوں کے دوران تعلیم کی اہمیت بیان کرنے کی گزارشیں بھی ہوتی ہیں۔ مگر ان تمام کوششوں کے باوجود ہزاروں بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا تشویشناک ہے۔
ضلع شگر کے دورافتادہ علاقہ ارندو سے تعلق رکھنے والے غلام مہدی نے ہمیں بتایا کہ ان کے ہاں کئی کنال قابل کاشت زمینیں ہیں اور ساتھ 20کے قریب مال مویشیاں ہیں اور درجنوں بھیڑ بکریاں بھی ہیں ہمارا زرائع آمدنی زمینوں اور مال مویشیوں پر منحصر ہے اور ہم زمینوں پر کام کرتے ہیں ہماری یہاں صدیوں سے روایت ہے کہ گھر کے سارے افراد چاہے وہ خواتین ہو یا بچے سبھی اپنے حصے کا کام کرتے ہیں ہمارے چھوٹے بچے بھی ہمارا ہاتھ بٹاتے ہیں کچھ بچے سکول بھی جاتے ہیں اور کام پر بھی تو کچھ بچے میٹرک سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں اور مکمل کھیتوں پر کام اور بھیڑ بکریاں چڑھانے لگ جاتے ہیں کیوں کہ کام اتنا ہے کہ ہم اکیلے نہیں کر سکتے ہیں اورنہ ہی کسی مزدور کو اجرت پر رکھ سکتے ہیں بچے خواتین مرز سارے مل کر اپنے حصے کاکام کرتے ہیں تب جاکر گھر میں گزارہ ہوجاتا ہے۔
شگر خاص کے ہوٹل میں کرنے والا بچہ اسحاق جن کی عمر 14سال ہے سے ہم نے پوچھا تو انکا کہنا تھا کہ ان کا تعلق دورافتادہ علاقہ برالدو سے ہے۔ گھر میں کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ والد دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور ان کی کمائی سے گھر میں گزارا نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ک والدکی کمائی اتنی کم تھی کہ دوسری کلاس سے ہی سکول کو خیر باد کہنا پڑا اور گیارہ سال کی عمر سے ہی دکانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنا شروع کیا۔ "جو کچھ کما لیتا ہوں وہ والد کو بھیجتا ہوں۔”
دوسری طرف ایک اور بچہ ثقلین جن کا تعلق باشا سے ہے وہ بھی کم عمری میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ پندرہ سالہ ثقلین سے پوچھا تو بتایا کہ والد مزدوری کرتے ہیں ان کی آمدنی سے گزر اوقات نہیں ہوتا اس لئے آٹھویں جماعت سے ہی سکول جانا چھوڑ دیا اور اب ہوٹل میں برتن دھوتا ہوں۔ تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہوں لیکن گھریلو مجبوری اس کی اجازت نہیں دیتی ہے ہوٹل میں تین وقت کا کھانا ملتا ہے اور چھ ہزار روپے ماہوار مزدوری بھی ملتی ہے جو والد کے حوالے کرتا ہوں ۔ مزید کہا کہ ہوٹل میں برتن دھونے کے ساتھ ساتھ کھانا بنانے کی بھی کوشش کررہا ہوں تاکہ ایک اچھا باورچی بن سکوں۔
سابق رکن اسمبلی و رہنما پیپلز پارٹی عمران ندیم جو کہ ضلع شگر سے چار دفعہ الیکشن جیت کر گلگت بلتستان اسمبلی پہنچ چکے ہیں ان کے مطابق ضلع شگر میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق شگر میں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں دیگر ضلعوں کی نسبت قابل کاشت زمینیں زیادہ ہیں اور یہاں کے لوگوں کی آمدنی زراعت پر منحصر ہے اور لوگ اپنی اراضی پر محنت کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ لوگ اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کھیتوں پر لے جاتے ہیں اور ان سے کام کرواتے ہیں کیوں کہ کسان مزدور رکھ کر مزدوری نہیں دے سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شگر کے پہاڑوں پر معدنیات بھی زیادہ ہیں اورلوگوں کی بڑی تعداد کان کنی کے کام سے وابستہ ہے اور یہ کان کن اپنے ساتھ اپنے کم عمر بچوں کو بھی کام کنی پر لگاتے ہیں تاکہ کچھ پیسے کما سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کے لوگ مال مویشی سے بھی آمدنی نکالتے ہیں اور لوگ سیزن کے حساب سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں جب گرمیاں آتی ہیں تو مال مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں پر جاتے ہیں اور موسمی سختی آجاتی ہے تو نیچے گاوں کی طرف لوٹ آتے ہیں اس وجہ سے بچے سکولوں سے باہر ہوتے ہیں اور اپنے والدین کے ساتھ کم عمری میں ہی کام پر لگ جاتے ہیں۔