کالمز

شندور اور جشنِ شندور

 تحریر: شمس الحق نوازش غذری

زیر بوغدو نامی چڑھائی سَر ہوتے ہی بام دُنیا گیٹ وے آف ایشیاء شندور سکرین میں بدلتی تصویر کی طرح دفعتاً آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ شندور پر نظر پڑتے ہی آنکھوں کا خیرہ ہونا فطری ہے۔ دنیا کے بلند ترین پولو گراؤنڈ شندور پر نظر پڑھتے ہی انسانی کیفیت پر وجدان طاری ہوجاتا ہے۔ جہاں فطرت نے حُسن و جمال سے تمام نقابیں اُلٹ دی ہیں۔ جہاں ہر سمت سبزے کی حسین مخملی چادریں بچھی ہیں۔ اگر اس موقع پر یوں کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ شندور اللہ تعالیٰ کے خوبصورت مناظر میں سے انتہائی خوبصورت منظر کا حامل ہے۔ قدرت نے اس بقیہ خاکی کو ہر رنگ اور ہر قسم کے پھولوں سے خوب نوازا ہے۔ موسم بہار کے عین وسط میں شندور کے اطراف میں پیلے رنگ کے مخصوص پھول شندور کے گرداگردحلقہ بناتے ہیں۔ مقامی زبان کھوار میں پیلے رنگ کے ان حسین پھولوں کو ”سورنک“ کے نام سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
سورنک اپنی بے پناہ حسنِ گلوسوز حسین گلوسوز اور دل و دماغ کو معطر کردینے والی خوشبو کی وجہ سے پھولوں میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے اُن کے حسن و جمال سے متاثر ہوکر چترال کے معروف ادیب اور چترال انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر محمد یوسف شہزاد نے کھوار کے مشہور شاعر ذاکر محمد زخمی کے پرانے گیتوں کے مجموعے کا نام ”سورنک“ تجویز کیا۔
شندور کا نام شندور کیسے پڑگیا۔ اس حوالے سے ہر ایک محقق نے اپنی الگ الگ رائے پیش کی ہے۔ بالکل اسی طرح بعض محققین کی رائے کے مطابق ”شن“شاہان کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور شاہان شاہی لفظ سے ماخوذ ہے۔ ”دور“ کھوار زبان میں گھر  کو کہتے ہیں۔ شندور کا مطلب شاہنشاہوں اور بادشاہوں کا گھر ہے۔
جب کہ ڈاکٹر محمد منیر میرزا اپنی کتاب ”پربتوں کا شیندور“ میں شندور کی وجہ تسمیہ یوں بیان کرتے ہیں ”ہندومت کو جاننے والوں کے علم میں ہوگا کہ ہندوؤں میں ”سیندور“ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کوئی ”پتی ورتاسندرناری“(شادی شدہ) عورت اُس وقت تک سدا سُہاگن نہیں کہلاسکتی جب تک اُس کا پتی اُس کی مانگ میں ”سیندور“ نہ بھردے۔ شادی کے منڈپ میں اگئی کے گرد سات پھیرے لینے کے بعد پتی کا اپنی پتنی کی مانگ کے درمیان چُٹکی بھر سیندور بھرنا شادی کی ایک اہم رسم ہے جس کی مانگ میں سیندور نہ ہو وہ کنواری، غیر شادی شدہ یا بیوہ تصور کی جاتی ہے۔ انسان کی سب سے سربلند چوٹی اُس کا سر ہے۔ شیندور گلگت اور چترال کی وادیوں میں نہ صرف حدِّ فاصل کا کام کرتا ہے بلکہ اس علاقے کی 12000 بلند ترین چوٹی بھی ہے۔ شاید اسی لیے اُسے شیندور کا نام دیا گیا تھا۔ گویا دونوں وادیوں کے درمیان ”سیندور“ بھردیا گیا تھا۔ ہزاروں  سال قبل برصغیر پاک و ہند پر ہندو مہاراجوں اشوک اعظم، چندرگیت موریہ وغیرہ کی حکومت تھی جس کی وجہ سے تمام علاقوں کے نام ہندوانہ تھے جن میں ”گنیش“ (ہنزہ) ”راما“ (استور) اور دوسرے کئی نام قابل ذکر ہیں۔ بیرونی حملہ آوروں خصوصاً مسلمانوں کی آمد سے ہندوستان کے کئی مقامات اپنی شناخت کھوبیٹھے اور اُن کے نئے نام رکھ دیئے گئے ہوسکتا ہے ”سیندور“ بھی صوتی تغیر و تبدیلی کی وجہ سے ”شیندور“ بن گیا ہو۔ کیونکہ ہندی میں ”سین“ کو ”شین“ اور ”شین“ کو ”سین“ پڑھنے کا رواج عام ہے جس کی واضح مثال اس فلمی گیت میں ملتی ہے۔ساون کا مہینہ پون کرے شور کو پون کرے سور اور سری نگر کو شری نگر اور سری لنکا کو شری لنکا کہنا شروع کردیا گیا ہے۔ غالباً اسی طرح ”سیندور“ کا نام ”شیندور“ پڑگیا ہوگا۔
یہاں تعجب کی بات یہ ہے کہ شندور کے حوالے سے جس نے بھی قلم کو تحریک دیا اُس نے قلم کو شیشے کی طرز میں استعمال کیا۔ گلگت اور غذر سے تعلق رکھنے والے رائٹرز نے جہاں شندور کو گلگت کا حصہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے وہاں چترال سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں نے شندور کو چترال کی سرزمین قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شندور کی ملکیت کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہوئے خطے کی نسبت سے دعویٰ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اکثر قلم کار کھلاڑیوں کی تعریف میں بھی بخل کا شکار ہوگئے ہیں۔ جہاں شریف شکیب چترالی ٹیم کے غفار لال اور امیر اللہ یفتالی کی مدح سرائی میں مجبور ہوگئے ہیں وہاں غذر سے تعلق رکھنے والے بلقیس میر رانا گلگت کے پولو پلیئر بلبل جان اور یاسین (گندائے) کے پولو پلیئر سلطان مدد کو ہی بادشاہوں کے کھیل کا صحیح بادشاہ تصور کرنے لگ گئے۔
جب کہ چترال سے تعلق رکھنے والے معروف کالم نگار شریف شکیب بھی شندور میں پولو کے آغاز کا کریڈٹ مسٹر کاب صاحب کو دیکھتے ہیں وہ  لکھتے ہیں ”شندور میں چترال اور گلگت کے پولو ٹیموں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے (اُس دور کے) نوابوں کے دور میں ہوتے رہے ہیں۔ 1911؁ء میں برطانوی بادشاہ جارج پنجم کے دورہئ ہندوستان کے موقع پر ان کے اعتراف میں پولو کے مقابلے ہوئے ریاست نگر کی ٹیم ان مقابلوں کی فاتح رہی آج بھی جارج پنجم کی دی ہوئی ٹرافی نگر میں موجود ہے۔
شندور پولو گراؤنڈ کے اطراف  دیوار بنا کر شندور پولو گراؤنڈ کو حُسن و جمال سے آراستہ کرنے کا حکم 1914؁ء میں میر چترال شجاع الملک نے دیا تھا۔ 
اللہ تعالیٰ نے شندور پولو گراؤنڈ کی بناوٹ کچھ اس انداز میں فرمائی ہے کہ مزید اس کی بناوٹ میں مصنوعی نکھار بجائے اس کے فطری حسن میں اضافہ کے کمی واقع کرسکتی ہے۔
شندور پولو گراؤنڈ کے مغرب کی جانب تین میل لمبائی اور ڈیڑھ فرلانگ چوڑائی پر محیط سرد و شفاف  پانی کا قدرتی جھیل واقع ہے۔ جھیل کی کئی خوبیوں میں سے ایک مفرد خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے پانی کا نکاس کوئی نہیں، چشمہ، ندی یا نالہ ایسا نہیں جس میں اس کا پانی گرتا ہو۔ سردیوں کے موسم میں عموماً دسمبر کے وسط میں جھیل کا پانی برف کی موٹی تہہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہاں بعض اوقات آٹھ سے دس فٹ تک برف پڑتی ہے۔ جھیل کے جمے ہوئے پانی کے اوپر سے لوگ پیدل گزرتے ہیں۔ مارچ کے تیسرے عشرے یعنی 31مارچ کو برف کی موٹی تہہ ایک زوردار آواز سے پھٹ جاتی ہے اور پھر دُنیا بھر کے مختلف علاقوں سے مختلف نسل کے مرغابیوں کی جھیل پر یلغار ہوجاتی ہے۔
زمانہ قدیم سے اس قدیم قدرتی پولو گراؤنڈ میں چترال اور گلگت کے علاقائی پولو ٹیموں کے درمیان پولو کے مقابلے ہوا کرتے تھے جس میں دونوں طرف کے عوام اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کرتے۔
اس علاقے میں پہلا پولو میچ 1958؁ء میں ”کاب“ نام سے کوئی برٹش میجر نے کروایا تھا لیکن یاسین سے تعلق رکھنے والے بروشسکی زبان کے مایہ ناز ادیب میجر فیض امان اس سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ میجر فیض کا کہنا ہے شندور میں پہلا پولو میچ علی شیر خان آنچن نے سترھویں صدی میں کروایا تھا جب کہ برٹش میجر ”کاب“ 1938؁ء کے بعد شندور پولو گراؤنڈ سے ڈیڑھ کلومیٹر مشرق کی جان ایک اور گراؤنڈ میں رات کو چاندکی روشنی میں پولو کھیلا کرتے تھے۔ اس نسبت سے اس پولو گراؤنڈ کا نام بھی مس جنالی پڑگیا۔ ”مس“ کھوار لغت میں چاند کو کہتے ہیں۔
مس جنالی سے ایک میل آگے شمال کی طرف ایک ندی شروع ہوجاتی ہے جو مڑان شال، لنگر اور کھوکُش کے میدانوں سے ہوتے ہوئے لنگر کی ندی پھر وہاں سے دریائے کھوکش میں شامل ہوکر کوہ غذر کا رُخ کرتا ہے۔ دریائے کھوکش اور لنگر کی ندی میں اعلیٰ قسم کی ٹراؤٹ مچھلی پائی جاتی ہے۔
شندور کے پہاڑوں میں چکور، تیتر،  رام چکور، مارخور، خرگوش اور دوسرے کئی اقسام کے پرندے اور جانور بکثرت پائے جاتے ہیں۔ لاسپور اور بالیم کے گلہ بانوں کی خیمہ کاجھونپڑیاں (شال) جابجا نظر آتی ہیں۔ گرمیوں میں چترال کے مستوج سے لے کر غذر کے شمرن تک کے عوام اپنے گائے، بیل، گھوڑے، گدھے اور خصوصاً یاک شندور میں آزاد چرائی کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس علاقے کو خصوصی اہمیت دی گئی اور گوپس سے شندور تک 50 کلومیٹر طویل جیب ایبل راستہ تعمیر کیا گیا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ”گلگت مستوج روڑ“ سے قبل یہی سڑک چترال اور گلگت کو ملانے والا واحد زمینی راستہ تھا۔ شندور میں پہلے صرف پولو کھیلا جاتا تھا بعد میں اس میں مزید دلچسپیاں شامل کی گئیں۔ اب پولو کے علاوہ رسہ کشی، بوٹنگ، واٹر اسکاٹنگ، کوہ پیمائی، پیرا گلائڈنگ، ڈنکی ریس، کیمپ فائر اور علاقائی رقص کے مقابلے جشنِ شندور کا دلچسپ حصہ ہیں۔ 
چترال سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ڈاکٹر فیضی شندور کی قدیم تاریخ یوں بیان کرتے ہیں:
کئی سو سال پہلے چرواہے شندور جھیل کے اطراف میں واقع سبزہ زار میں چوگان کھیلا کرتے تھے اور یہی چرواہے کسی خاص دن کے موقع پر چوگان کھیلنے کے لئے چترال کے پایہ تخت جایا کرتے تھے۔ چرواہوں کی عادت یہ تھی چترال کے پایہ تخت جانے سے پہلے بکریوں کے ریوڑ کو شندور جھیل کے کنارے ایک ہی جگہ اکھٹا کرکے خود چلے جاتے۔ چرواہوں کی آمد تک بکریاں حرکت کئے بغیر شندور جھیل کے کنارے سستا رہے ہوتے اور چرواہے چترال میں چوگان کھیل سے لطف اندوز ہوکر اُسی دن ہی غروب آفتاب سے قبل واپس شندور پہنچ جاتے ایک دن شندور کے چرواہے چوگان کھیل کر واپس شندور پہنچ کر دیکھتے ہیں تو ایک بکری خلاف معمول اور خلاف دستور اپنی ریوڑ سے ہٹ کر شندور جھیل کے کنارے گھاس چرنے میں مصروف ہے۔ بکری کا یہ طرز عمل دیکھ کر چرواہوں کے سردار نے کہا یہ تو قیامت کی نشانی ہے۔ آئندہ ہم چوگان کھیلنے کے لیے چترال کے پایہ تخت نہیں جائیں گے بلکہ آنے والے وقت میں ہم شندور میں ہی چوگان کھیلیں گے اور بادشاہ کو شندور میں ہی مدعو کریں گے۔ اگلے سال چرواہوں کی دعوت اور منصوبے کے مطابق چرواہوں نے شندور میں ہی چوگان کھیلا اور پائیہ تخت کے راجہ بہمنِ اول (Behmen-e-Awal) کو شندور میں ہی مدعو کیا۔
یہ بادشاہ شندور آکر چوگان کھیل کے اختتامی تقریب سے خطاب کے دوران تین ڈھلوانوں کے عین وسط میں واقع حسین سبزہ زار کے گرد دیوار بنانے کا حکم دیا اور جب دنیا کے بلند ترین مقام میں بہمن اول نے پولو گراؤنڈ تعمیر کروایا تو اس گراؤنڈ کا نام ”ماہوران پاڑ“ تجویز کیا۔ ”ماہوران پاڑ“ جنات (پریوں) کی مسکن کو کہتے ہیں۔
قدیم دور کے بعض مورخین کا خیال ہے شندور کے وہی جنات چترال کے سب سے اونچی چوٹی تریچ میرسے تعلق رکھنے والے جنات کے نسل تھے اس لیے ہوا کی رفتار سے چترال اور شندور کے مابین سفر کیا کرتے تھے۔
قصہئ مختصر: اس وقت ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ شندور میں کھیلوں کے بادشاہ اور بادشاہوں کا کھیل کا اجراء زمانہ قدیم میں بہمنِ اول کی مرہونِ منت ہے اور راجگی دور میں پولو میچ کا آغاز بلتستان کے حکمران شیر علی انچن کا کارنامہ ہے جب کہ وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے شندور میں پولو کو باقاعدہ قومی ٹورنامنٹ کا درجہ دے دیا اور بعد میں اس کا نام جشنِ شندور رکھا گیا اور آج کا ”شندور پولو فسٹیول“ جنرل ضیاء کا ”جشن شندور“ راجہ شیر علی خان انچن کا پولو میچ (بلتی نام تہ تینو) ہے اور تریچ میر کے جنات کے بادشاہ بہمن اول کا ”چوگانِ ماہوران پاڑ“ کا سلسلہ ہے۔
نظریں ذرا اوپر اُٹھا کر شندور کے پہاڑوں کی طرف دیکھا جائے توہندوکش کے پہاڑی سلسلے کی ایک کڑی پاک افغان سرحد سے مشرق اور جنوب مشرق کی طرف رُخ کرتی ہوئی درہئ شندور کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ جغرافیہ دانوں نے اُسے ”ہندوراج“ کا نام دے دیا ہے بعض جغرافیہ دانوں کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ کوہ قراقرم ہی کی ایک کڑی ہے۔ چٹانوں کی طبعیاتی ساخت کے لحاظ سے یہ بھی سلسلہ ئ کوہ قراقرم سے زیادہ مشابت رکھتا ہے۔ شندور کو کئی لحاظ سے منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے اپنے محل وقوع کے اعتبار سے یہ درہ گلگت سوات اور چترال کے سنگم پر واقع ہے۔ شندور کی اہمیت کے کئی پہلو قابل ذکر ہیں۔ ان میں قدرتی مناظر، جغرافیائی محل وقوع، اور دفاعی ضروریات خاص طور پر اہم ہیں۔ قدرتی مناظر کے لحاظ سے شندور قدرت کا عظیم عطیہ ہے۔ ”ہندوراج“ سلسلہ کوہ میں شندور کے پہاڑوں کو ”شندور رینج“ یا ”موشابر رینج“ کا نام دیا ہے۔ برف پوش پہاڑی چوٹیوں میں شندور کا درہ ایک ایسے سطح مرتفع کی حیثیت رکھتا ہے جو ایک وسیع و عریض میدان پر مشتمل ہے۔ قدیم زمانے میں شندور نے مشرق سے چترال پر اور مغرب سے گلگت پر حملہ کرنے والی فوجوں کی مشہور گزرگاہ کا کام دیا ہے۔ صرف اُنیسوں صدی میں چار لشکر گلگت سے شندور کے راستے چترال پر حملہ آور ہوئے۔ 
1827؁ء میں میر سلیمان شاہ نے (خوش وقتیہ) شندور کے راستے چترال پر حملہ کیا۔ 1992؁ء میں شہزاد سردار نظام الملک کی فوج شندور کے راستے سے چترال وارد ہوئی۔ اور 1985؁ء میں انگریزوں کی فوج کرنل کیلی کی سربراہی میں درہ شندور کو اپریل کے برفانی موسم میں عبور کرکے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ چترال پہنچی۔
دنیا بھر سے سیاحوں کی آمد شندور کے لیے حیران کن نہیں، کیونکہ شندور کے حُسنِ جمال کے چرچے پاکستان کے علاوہ بیرونی دنیا تک ہیں یوں ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں گھومنے والے سیاحوں کی اکثریت شندور کو سوئزرلینڈ پر ترجیح دیتی ہیں۔ زیادہ تر سیاح گروپ کی شکل میں یہاں آکر ایک دو دن قیام کئے بغیر واپس چلے جاتے ہیں جلد باز سیاحوں کے برعکس اگر شندور میں چند دن اور گزارے جائیں تو شندور کا حسن دل میں گھر کرلیتا ہے اور یہاں گزرے ہوئے ناقابلِ فراموش یادیں زندگی بھر نہیں بھلائی جاسکتی ہیں۔ 
(جاری ہے۔۔۔)
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button