کالمز

یادیں جو مٹ گئیں، ماضی جو چھن گیا ۔ ۔ ۔

سیلاب تو تھم گیالیکن جاتے جاتے ہم سے ہماری یادیں بھی چھین لے گیا۔

یہ کہانی ہے ان سب لوگوں کی جن کے گھر سیلاب کی نذر ہو گئے۔ دو ہفتے قبل یکے بعد دیگرے سیلابی حادثوں نے نہ صرف ان کے مال و دولت کو بہا  کرانہیں مالی پریشانیوں سے دو چار کیا، بلکہ ان کی نسلوں کی انمٹ خوبصورت یادوں کو بھی زمین تلے دفن کر دیا۔

بارشوں کے اس سلسلے نے ضلع غذر، تحصیل یاسین کے دور افتادہ گاؤں درکوت کو بھی شدید نقصان پہنچایا اور پل ٹوٹنے کے سبب کافی ہفتوں تک یہ علاقہ دوسرے علاقوں سے منقطع  رہا۔ وادی درکوت ہمیشہ سے ہی سیلاب اور دوسرے قدرتی آفات کا گھڑ رہا ہے، درکوت میں چار مقامات ایسے ہیں، جہاں تقریباً ہر سال جولائی اور اگست کے مہینے میں زیادہ بارشوں کی وجہ سےسیلاب آتےرہتےہیں، اس کے علاوہ گرمیوں میں مختلف نالوں میں گلیشیر کے پگلنے سے دریا کے بہاو میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے، جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ان مقامات میں درکوت داس، درکوت برخائے ، درکوت خخل اور درکوت زیارت یارے شامل ہیں۔ سیلاب کے مسلسل اور پے در پے آمد سے ان چاروں جگہوں کے باشندوں نے نقل مکانی کا سلسہ شروع کیا اور تقریباً ان چاروں جگہوں سے لوگ نقل مکانی کر کے یا تو درکوت سے ہی چلے گئے، یا پھر درکوت میں ہی دوسرے محفوظ مقامات پر نئے گھر بنا کر وہاں منتقل ہو گئے ۔

میرا خاندان تقریبا پانچ سو سال سے زا ئد  عرصے سے درکوت میں آباد ہیں۔ سچ پوچھو تو سیلاب سے سب سے بڑا نقصان میرے خاندان کا ہی ہواہے، جو ان چار مقامات میں سے دو مقامات میں آباد تھے۔ 2010 کے سیلاب کی وجہ سے میرے تایا جناب ہائب خان (مرحوم) کے گھر کا نقصان ہوا، جس کی وجہ سے ان کا آدھا خاندان گلو داس نقل مکانی کر گیا،  اور آدھا خاندان درکوت میں ہی ایک محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ، اس کے بعد 2015 میں چچا بدل بیگ (مرحوم) کا گھر سیلاب کی زد میں آگیا، جس کی وجہ سے اس کے بچوں نے درکوت میں ہی دوسرے مقام پر گھر بنا لیا اور اب وہ اس  گھر میں زندگی گزار رہے ہیں، میرا ایک اور چچا جناب بلو خان سیلاب کے خطرے کے سبب سال 2010 میں درکوت سے نقل مکانی کر کے اپنے خاندان کے ساتھ  برکولتی شیغیتن ہجرت کر گئے ، اور اب وہ وہی آباد ہے،  چچا جناب محمدجان نے بھی سیلاب کے خطرے کے سبب اپنے پرانے گھر سے نقل مکانی کر کے درکوت میں ہی ایک اور محفوظ مقام پر نیا گھر بنا لیا اور نقل مکانی کی۔ اکیلے میرے والد ہی تھے جو اب تک اپنے پرانے گھر میں ہی رہائش پذیر تھے، اور وہ اپنے خوبصورت یادوں کے ساتھ اپنی زندگی بتانا چاہتے تھے، لیکن سال 2022 کے بارشوں کے سبب ایسا سیلاب امڑ آیا کہ گھر بار تو کسی نا کسی طرح محفوظ رہا، لیکن مستقبل کے لیے انتہائی خطرے کی علامت بن کر چھوڑ دیا اور گھر سے صرف چند گز دور تباہی مچا کر رک گیا، لہذا اب اس مقام پر مذید رہنا کسی بھی ممکنہ خطرے سے خالی نہیں۔ لہذا اب ہم بھی اپنے بچپن کی خوبصورت یادوں کو وہی دفن کر کے کہی اور نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ میرے محترم والدین، جنہوں نے اپنی زندگی کی نوے بہاریں ایک جگہ پر گزاری ہو، جہاں ان کے والدین اور پھر ان کے آباؤ اجداد نے زندگی گزاری ہو، جہاں ہر قدم پر چار نسلوں کی یادیں ہوں، زندگی کے اس حصے میں ان یادوں کو دفن کر کے کہی اور منتقل ہونا کتنا مشکل ہو گا؟ گھر کسی نا کسی طرح بن جا ئے گا، لیکن ان انمٹ یادوں کو کیسے بولایا جا ئے گا، جو ان کے اور ہمارے ذہنوں میں پتھر پر لکیر کی طرح نقش ہو چکے ہیں۔

ایسےبہت سے خاندان ہیں، جو کبھی کئی دہائیوں سے درکوت میں آباد تھے، وہ سب اپنے نسلوں کی یادوں کو اپنے سینے میں دفن کر کے ایک اجنبی شخص کی طرح کہی اور آباد ہو گئے ، جن کا ہر دن ان خوبصورت یادوں کے بغیرنہیں گزرتا، سیلاب نے نا صرف ہم سے ہمارا ماضی اور  ہماری یادیں چین لی، بلکہ ہماری شناخت کو بھی خطرے سے دو چار کر دیا۔

میرے والد کے پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ جن میں سے ایک پھوپھی، تایا اور ایک چچا کا انتقال ہو چکا ہے۔ جب میرے والد، تایا اور چچا سب اکھٹے رہتے تھے تو گھرانہ کافی بڑا تھا۔ جس کی وجہ سے دو الگ الگ جگہوں میں دو دو گھر ہوتے تھے، جہاں پر ایک گھر میں عموماً چھوٹے بچے اور وہی پر دوسرے گھر میں گھر کے بڑے رہتے تھے۔ موسم سرما ہی واحد وقت ہوتا تھا، جہاں ہم سب دلگرم والے مقام پر موجود  گھر میں اکھٹےرہتے تھے، اور موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی تایا اور تائی دادی کو لے کر مال مویشی کے ساتھ نالے جاتے تھے، اور چچا اور میرے والد زیارت یارے والے مقام پر موجود گھر منتقل ہو جاتے تھے۔

بچپن بہت خوبصورت تھا، جہاں ہر چیز مانگنے سے پہلے مل جاتی تھی، گھرانہ جتنا بڑا تھا، اللہ نے اتنے ہی مال و دولت سے نوازا تھا۔ روایتی طور پر گاؤں کے دوسرے باسیوں کی طرح میرے دادا بھی کھیتی باڑی اور مال مویشی پالتے تھے، انتہائی مال دار آدمی تھے، اور مختلف نسل کے بھیڑ بکریاں پالتے تھے۔ میرےتایا بھی اس کام میں دادا کا ہاتھ بٹھاتے تھے۔ تایا ہائب خان اور چچا بدل بیگ کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ علاقے کے مشہور شکاری بھی تھےاور علاقے کے ایک اور مشہور شکاری مخمور کے ساتھ مارخور کا شکار بھی کیا کرتے تھے، چچا بدل بیگ فارغ اوقات میں درزی کا کام بھی کرتے تھے اور ستار بجانے میں بھی خاصی مہارت رکھتے تھے، اور روایتی دھنوں پر رقص کرنے میں بھی مشہور تھے۔ میرے والد محترم جناب نا ئب خان درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ تھے، جو 1960 سے 1986 تک اے کے ای ایس پی کے ماتحت اسکول میں درس و  تدریس کے خدمات انجام دیتے رہےاور دن کے پچلے اوقات میں دوکان چلاتے تھے۔ کبھی کبھی ذاتی گھوڑے پر پولو بھی کھیلتے تھے۔ ایک چچا ڈاکٹر اقبال انیمل ہسبینڈری میں ڈاکٹر تھے اور اے کے آر ایس پی میں اپنے فرا ئض انجام دیتے تھے، دو چچا بلوخان اور محمد جان پاکستان آرمی میں فرا ئض منصبی سے منسلک تھے۔ چچا محمد جان روایتی موسیقی پر اپنے ایک اور ہمنوا گوہر بیگ کے ساتھ بہترین رقص پیش کرتے تھے, ان کی جوڑی گاؤں میں بہت مشہور تھی، اور چچا بلو خان آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد گلگت سنیما بازار میں دوکانداری کیا کرتے تھے۔

موسم بہار کا آغاز ہوتے ہی تایا اور تائی دادی کو لے کر عموماً دولنگ نالے کا رخ کرتے تھے۔ مال دار ہونے کی وجہ سے دادی کا رتبہ کسی ملکہ یا شہنشاہ عالم سے کچھ کم نہ تھا۔ دادی کے نالے جانے کا وقت ہوتا تھا تو والد ، تایااور چچا مل کر دادی کے لیے ایک خوبصورت گھوڑے کا انتظام کرتے تھے، دادی کے لیے نئے کپڑے، نئے جوتے، نیا شال اپنے ہی دوکان سے لاتے تھے، پھوپھی لوگ بھی دادی کو رخصت کرنے اپنے خاندان کے ساتھ تشریف لاتے تھے، اور انتہائی شان و شوکت سے دادی کو رخصت کرتے تھے۔ آغاز کچھ یوں ہوتا تھا، کہ سب سے پہلےمعتبرین علاقے کے عالم دین (خلیفہ) صاحب کےمشاورت سے ایک اچھے اور نیک دن کا تعین کرتے تھے، جس کو مقامی زبان میں "صہت” کہتے ہیں، لیا جاتا تھا، اور عالم دین (خلیفہ) صاحب ایک مخصوص دن مقرر  کرتا تھا۔ پورا گاؤں ایک ساتھ ایک ہی دن ایک بہت بڑے قافلے کی شکل میں صبح سویرے نالہ دولنگ کی طرف نکلتے تھے، کیا بچے، کیا جوان، بزرگ مائیں، خواتین و مرد حضرات چھوٹے بچوں کو کاندھے پر بٹھا کر ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی، بھیڑ بکریاں لے کر ہنستے مسکراتے، جوان آپس میں مذاق کرتے، دوڑتے بھاگتے، گرتے سنبھلتے،  ایک دوسرے کی مدد کرتے نکل پڑتے تھے۔ تقریباً سپہر تک دولنگ نالہ پہنچ جاتے تھے۔ پہچتے ہی سامان اتارتے تھے، خواتین مل کر چائے  کا بندوبست کرتی تھی، اور مرد حضرات لکڑی کا بندوبست کرتے تھے۔ پہلے سے گھر کی بنی دیسی ٹکی کے ساتھ خوب پیٹ بھر کر کھاتے تھے، اور فوراً دوسرے کاموں میں لگ جاتے تھے۔ یوں اس دن کا اختتام ہو جاتا تھا۔ اسکول کی چھٹیاں گزارنے کے لیے سب سے بہترین جگہ یہی نالے ہوا کرتے تھے، موسم گرما کی اسکول کی چھٹیوں میں ہم سب دادی اور تایا ، تائی کے پاس نالے جانے کی ضد کرتے، لیکن جگہ محدود ہونے کی وجہ سے چند خوش نصیبوں کو ہی دادی کے ساتھ دولنگ کے خوبصورت نالے میں چھٹیاں گزارنے کا موقع ملتا۔ باقی خاندان درکوت کے حسین ترین علاقے زیارت یارے والے گھر میں موسم بہار کے دن گزارتے تھے۔ یہ علاقہ زیارت یارے کے نام سے اس لیے مشہور ہے کہ یہاں ایک بزرگ کے مناسبت سے ایک زیارت موجود ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس علاقے کی بزرگ خواتین، میری ماں اور دوسرے چچی صاحبات ہر جمعے کو صبح صادق دیسی ٹکی بنا کر اس کی زیارت کرنے جایا کرتی تھیں، اور ہر بلا اور آفت سے نجات کی دعا ئیں کیا کرتی تھیں۔ موسم گرما میں گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے جوق در جوق گرم چشمہ آنے والے عقیدت مند بھی اس زیارت پر مختلف چیزیں, مثلاً مٹھائی ، پیسے اور خشک خوبانی یا اخروٹ جیسے پھل پیش کرتے تھے اور ہم محلے کے بچے انہیں وہاں سے لینے بھاگ دوڑتے تھے، ساتھ ہی کھیلنے کے لیے ہرا میدان تھا، جہاں محلے کے بچے اور ہم فٹبال اور کرکٹ کھیلتے رہتے تھے۔ ریت سے کھیلنااور ریت سے بنے دیسی چکی بنانا ہمارے بچپن کے کھیلنے کا حصہ تھا، گاؤں کے بچوں کے ساتھ پولوگراؤنڈ کے ساتھ ندی میں نہانا ہمارا روز کا معمول تھا، اکثر اوقات بہن کے بچے بھی گرمی کی اسکول کی چھٹیاں گزارنے ہمارے گھر تشریف لاتے تھے، تو ہم سب مل کر دیسی طریقوں سے رات کے اندھیرے میں ٹارچ کی روشنی میں گھر کے قریب قدرتی چشمے میں مچھلیاں پکڑنے گھر کے بڑوں کے ساتھ نکل جاتے تھے۔یوں موسم گرما کی چھٹیوں کو گزارتے اور انجائے کرتے تھے۔

موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی دادی صاحبہ پہلے دولنگ نالے سے گیکوشی نالہ آتی تھی، اور تقریباً دو مہینے وہاں رہ کر جب برف باری کا آغاز ہوتا تھا تو پھر اسی شان و شوکت سے واپس گاؤں تشریف لاتی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ دادی جب نالے سے واپس تشریف لاتی تھی تو اپنے ساتھ مال و دولت کا ایک خزانہ لے کر آتی تھی۔ ہم سب کزنز اور رشتہ دار مل کر دادی کا استقبال کرنے آدھے راستے تک جاتے تھے، جو زیادہ خوش قسمت ہوتا تھا، اسے دادی کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھنے کا موقع مل جاتا تھا، اور باقی بچے اور رشتہ دار دادی کے گھوڑے کے آگے اور پیچھے پیدل محو سفر رہتے تھے۔ دادی ہم سب بچوں کے لیے دودھ کی بنی ہو ئی دیسی ٹکی اور مختلف چیزیں لاتی تھی۔ پھوپھی لوگ اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ دادی سے ملنے تشریف لاتے تھے، گھر میں ایک جشن کا سما ہوتا تھا۔دادی کے انتقال کے بعد تایا اور تائی (مرحوم) نے اس پیشے کو اسی طرح جاری رکھا، اور جب تک حیات تھے اسی شان و شوکت سے گاؤں کے دوسرے باسیوں کے ساتھ اس پیشے کو جاری رکھا۔اور تایا اور تائی کے انتقال کے بعد اس پیشے کا یک دم خاتمہ ہوا۔ ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی سب گاؤں والوں میں نالہ جانے کا رواج ختم ہو گیا۔ جب کبھی ان نالوں میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے، تو میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان نالوں  اور راستوں میں شاید ہی کو ئی ایسی جگہ موجود ہو، جہاں ہمارے آباؤ اجداد نے اپنا قدم نہیں رکھا ہو،  جہاں ان کے ہونے سے ہر طرف رونق مچی رہتی تھی، اب ان کے بغیر یہ ندی نالے ویرانی کا منظر پیش کرتے ہیں، ایسا لگتا ہے، کہ یہاں کبھی کسی کا بسیرا نہ تھا۔ صرف ان کی یادیں ہیں، جو ہر طرف دیکھائی دیتی ہیں، اور ہر چیز  جو وہاں موجود ہے، ان کے ہونے اور ان کی موجودگی کا احساس دلاتا نظر آتا ہے۔

والد چونکہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھے، اور مذہبی طور پر مضبوط عقا ئد کے پیروکار تھے۔ مذہبی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، درس و تدریس سے ریٹا ئرڈ ہونے کے بعد دوبارہ اے کے آر ایس پی میں بطور ولیج اکاونٹینٹ منسلک رہے۔ ایک دفعہ یونین کونسل کے انتخابات میں کونسلر بھی منتخب ہوئے، اور مختلف مذہبی اداروں میں آعلی عہدوں پر رضاکارانہ طور پر بھی اپنے خدمات انجام دیتے رہے۔ زمانے کے حاظر امام مولانا شاہ کریم الحسینی کے فرامین پر من و عن عمل کرتے تھے، لہذا گھر میں مذہبی اور تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں والد نے کو ئی  کسر نہیں چھوڑی تھی، ہم سب بھائی بہنوں اور کزنز کو اسکول میں داخلہ کروایا اور انتہائی سختی سے امام کے فرامین کے مطابق خود بھی تعلیم دلاتے رہے اور گاؤں کے دوسرے باسیوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے اور اس کے فوا ئد کے بارے میں تلقین کرتے رہے، جس کی وجہ سےہم سب تعلیم جیسے قیمتی زیور سے آراستہ ہو گئے ۔ میرے گاؤں میں تمام تعلیم یافتہ لوگوں کے تعلیم کا سر چشمہ میرے والد محترم ہی تھے، جس نے جہاد سمجھ کر معاشرے میں تعلیم کی روشنی کوپھیلاتے رہے، اورآج سب لوگ اسے استاد کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔

محترم قار ئین!  زندگی سانسوں کے نا رکنے والے سلسلے کا نام ہے، جو رکتی ہے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، اور جو چلتی ہے تو انسان  نئی دنیا بھی بسا لیتا ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ ہم اور ہمارے بچے ایک نئیدنیا بسا لیں گے، اور اپنے آباؤ اجداد کے ان خوبصورت یادوں کو ہمیشہ اپنے سینے میں بسا کر زندگی گزار لیں گے۔

اللہ ہم سب پر رحم کرے، اور اپنےحفظ و آمان میں رکھیں۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button