سوشل میڈیا کی افادیت اور اس پر خود ساختہ حد بندیوں کے مشورے
آج کل سوشل میڈیا کے متعلق ہر کوئی اپنی اپنی رائے کا اظہا کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر قسم کی گفتگو کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ کسی کا خیال ہے کہ متنازعہ چیزیں سوشل میڈیا پر ڈسکس نہ کرنے چاہئیں ۔ بہتوں کی رائے ہے کہ سوشل میڈیا پر مذہبی معاملات، جیسے عقائد و عبادات وغیرہ کو زیر بحث نہ لانا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ اگر، بفرض محال، مذکورہ رائے دہندگان کی تمام آراء کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر سوشل میڈیا سے تمام سیاسی، سماجی، دینی، اعتقادی اور روحانی مباحث خارج متصور ہوں گے۔ ایسے میں صرف عوامی اشتہارات، شادی بیاسی مختلف تقریبات کی روئدادیں، قصے کہانیاں، وہ خالص علمی و فکری مقالے اور مباحث جن میں ذرہ بھر اختلاف کا شائبہ نہ ہو میڈیا کی زینت بنیں ۔ نیز فلموں، ڈراموں اور کھیلوں اور ان کے روشن ستاروں کا ذکر جمیل ہی میڈیا کے ورثے میں باقی رہ جائے گا۔
ممانعت کے مشورے دینے والے لوگوں میں عام طور پر دو قسم کے گروہ سامنے آتے ہیں: پہلے گروہ میں ایسے مخلص اور نیک ارادوں کے حامل لوگ شامل ہیں جو کسی بھی قسم کی شورش، تنازعہ یا معاشرتی ناہمواری کے رو نما ہونے کے قائل نہیں ہیں؛ جبکہ دوسرے گروہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو خود کو افلاطون اور ارسطو سمجھتے ہوئے دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیز ایسوں کا ایک ضمنی مقصد میڈیا پر اپنا بھرم بنا رکھنا بھی ہوتا ہے۔ نیز ایسے لوگ جو خود کچھ لکھنے یا بولنے کی استعداد وافر یا دلچسپ نہیں رکھتے ہیں وہ دوسروں کو بھی اس سے باز رکھنے کی شعوری یا لاسعوری کوشش کرتے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک نفسیاتی فیکٹر ہے جو انسان کے اندر ہی اندر کام کرتا ہے کہ جو شخص جس چیز، جس نقطہ نظر اور تصور کو نا پسند کرتا ہے اس کی مزاحمت اور ممانعت پر اتر آتا ہے۔ اس طرح، ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے مخصوص عقائد و عبادات اور کچھ دیگر چیزیں چھپا کر رکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ رجحان افراد میں بھی ہوتا ہے اور جماعتوں میں بھی، جس کا اپنا ایک پس منظر ہے۔
اگرچہ، مذکورہ دونوں گروہوں کی اپنی سوچ اور اپنے تحفظات ہیں جو دردست بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت تو تسلیم کی جانی چاہئے کہ ہم سب جدید میڈیا کی اہمیت و افادیت سے خاطر خواہ آگاہ نہیں ہیں اور اپنی پرانی عادتوں کے اسیر ہو کر اپنے روایتی خدشات اور تحفظات کا مختلف پیرائیوں میں اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اب ہمیں اپنی مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہوگا اور خوف بے جا کے خول سے نکل کر جدید میڈیا اور سائنس و ٹیکنالوجی کے بے شمار فائدوں اور آسائشوں سے متمتع ہونے کی بھر پور کوشش کرنا ہو گی۔ بصورت دیگر، میڈیا (ذرائع ابلاغ)، جو جدید دور میں علم و دانش اور قیمتی معلومات عام کرنے کا سب سے اہم اور آسان ذریعہ ہے، کے ان گنت فوائد اور برکتوں سے جدید دور کے قارئین محروم رہ جائیں گے۔ اس کے سبب معلومات کا دائرہ بے حد تنگ ہوتا جائے گا، علم و دانش کا درخت برگ و بار نہ لا سکے گا۔ اس کے نتیجے میں انسانی ذہنوں پر جمود طاری ہوگا، تخلیق و تحقیق کے سوتےخشک ہوتے جائیں گے، پھر سائنسی ایجادات و اختراعات کی رفتار حد درجہ سست ہوجائے گی اور یوں انسانینی تہذیب و تمدن کا سلسلہ صحتمند طریقے سے فروغ نہ پاسکے گا۔ پھر انسانیت زوال و ادبار دوچار ہوجائے گی۔
البتہ میڈیا کے اس پہلو کو بھی ہرگز نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ معاشرے میں بعض شریر و رذیل اور منفی سوچ رکھنے والے لوگ بھی ہیں جو عمداً یا سہواً معاشرے میں انتشار پھیلانے ہیں۔ ایسے لوگوں پر نظر رکھنی چاہئے۔ سوشل میڈیا پر سیاسی و سماجی، نسلی و علاقائی اور دینی و مسلکی بنیادوں پر شر و فساد پھیلانے اور تکریم انسانیت کو تحقیر و تذلیل انسانیت میں بدلنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ضروری ہے۔ وگرنہ انسانی معاشرہ مسائل و مشکلات کا شکار ہوگا۔