بلے گوند ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں سنگین تعمیراتی خامیاں، 39 کروڑ کا منصوبہ ناکامی کا شکار

گانچھے (محمد علی عالم سے) دریائے ہوشے پر تعمیر کیے گئے 2 میگاواٹ بلے گوند ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے تعمیراتی کام اور منصوبہ بندی میں سنگین خامیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، 17 مئی 2023 کو سیکرٹری واٹر اینڈ پاور گلگت بلتستان کے حکم پر انجینئر ضیاء الرحمان کی سربراہی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں انجینئر جمشید اکبر اور انجینئر دلدار شامل تھے۔ کمیٹی نے 10 جون 2023 کو منصوبے کی سائٹ کا دورہ کیا اور 16 جون 2023 کو تفصیلی رپورٹ تیار کی، جس میں منصوبے کی متعدد تکنیکی اور تعمیراتی خامیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ منصوبہ 2012 کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) کے تحت 395.324 ملین روپے کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا۔ 2014 میں اس پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوا اور 2022 میں اسے مکمل کر لیا گیا۔ تاہم، صرف دو ماہ بعد ہی فور بے اور پاور چینل میں دراڑیں پڑنے لگیں، جس کے باعث پانی کے اخراج نے بجلی کی پیداوار کو متاثر کیا اور منصوبہ ناکام ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق، فور بے (وہ حصہ جہاں پانی کو ذخیرہ کر کے ٹربائن کی طرف بھیجا جاتا ہے) نرم اور غیر مستحکم زمین پر تعمیر کیا گیا، جس کے باعث زمین دھنسنے سے دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اسپل وے (اضافی پانی نکالنے کا راستہ) بھی ناقص زمین پر بنایا گیا، جس کی وجہ سے زمین مزید بیٹھ رہی ہے اور دراڑیں بڑھ رہی ہیں۔ پاور چینل، جو 4,300 فٹ لمبا ہے، اس کی دیواروں میں بھی دراڑیں آ چکی ہیں، جس سے پانی کا مسلسل اخراج ہو رہا ہے۔ ناقص میٹریل اور غیر معیاری سیمنٹ-واٹر ریشو بھی ان مسائل کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ 2015 کے سیلاب کے بعد فیڈر چینل کو 700 فٹ آگے منتقل کیا گیا، لیکن غیر مستحکم زمین اور پانی کے دباؤ کی وجہ سے یہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں اس منصوبے کی ناکامی کی بنیادی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز پیش کی گئی ہیں، جن میں شامل ہے:
– فور بے کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا جائے اور اسے سخت پہاڑی زمین پر منتقل کیا جائے۔
– اسپل وے کو زیادہ مستحکم مقام پر تعمیر کیا جائے تاکہ پانی کے دباؤ کو بہتر طریقے سے برداشت کر سکے۔
– پاور چینل میں مضبوطی کے لیے جوڑ اور مرمت کا کام کیا جائے تاکہ پانی کے رساؤ کو روکا جا سکے۔
– فیڈر چینل کو آر سی سی میں بنایا جائے تاکہ اسے زیادہ پائیدار بنایا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، اس منصوبے کی ابتدائی پیداواری صلاحیت 2 میگاواٹ ہے، تاہم اسے 6 میگاواٹ تک بڑھانے کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ محکمہ واٹر اینڈ پاور نے ٹینڈرنگ اور ٹیکنیکل سینکشن (T.S) کے مراحل مکمل ہونے کے بعد فور بے کا ٹھیکہ احمد علی اینڈ سنز کو دیا، جس کی لاگت 45.235 ملین روپے ہے، جبکہ پاور چینل کے دو مختلف حصوں کا کام غلام مہدی اینڈ سنز کو سونپا گیا، جس کی لاگت 91.525 ملین روپے ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ اس منصوبے میں کنٹریکٹرز کی نااہلی اور ناقص تعمیراتی معیار واضح طور پر نظر آتا ہے۔ لہٰذا، بجلی کی پیداوار بڑھانے کے بجائے، رپورٹ میں پہلے سے موجود سول اسٹرکچر کی مرمت کو ترجیح دینے کی سفارش کی گئی ہے۔