کالمز

سیاسی ضابطۂ اخلاق برائے گلگت بلتستان

میرا پیارا گلگت بلتستان ایک خوبصورت مگر انتہائی حساس خطہ ہے، جہاں مختلف مسالک، قومیتوں، قبائلوں، زبانوں، اور سیاسی رجحانات و افکار کے لوگ بستے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں یہاں فرقہ واریت، تعصب، اور عدم برداشت جیسے مہلک مسائل نے نہ صرف امن کو تہ و بالا کیا بلکہ ترقی، تعلیم، سیاحت اور خوشحالی کی راہوں کو بھی مسدود کر دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں قیامِ امن کے لیے بیس سے زائد امن معاہدے اور ضوابطِ اخلاق مرتب کیے جا چکے ہیں۔ان معاہدات پر مجھے ریسرچ کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ الحمدللہ!

ان میں امن معاہدہ 2005 انتہائی مفصل، جامع اور اتفاق رائے سے مرتب کیا گیا ہے۔ ان تمام معاہدات کا مرکزی محور مذہبی فسادات اور بدامنی کا
تدارک تھا، اور ان کے باعث یقیناً کئی مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔

تاہم ایک پہلو ایسا ہے جس پر ہمیشہ خاموشی رہی، وہ ہے سیاسی بدتہذیبی، جیسے پاکستان کے دیگر حصوں میں یہ بدتہذیبی عام پائی جاتی ہے، گلگت بلتستان میں بھی انتخابات کے دنوں میں سیاسی پارٹیاں اور ان کے رہنماء اور کارکنان ایک دوسرے کے خلاف انتہائی نازیبا، توہین آمیز اور اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔

گلگت بلتستان کی مختصر آبادی ہے، اور ان سیاسی ورکرز اور پارٹیوں کی یہ توہین آمیز گفتگو ہر فرد تک پہنچتی ہیں اور نفرت کا ایک لاوا اُبلتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں ، یہ وہی پارٹیاں اور افراد ہوتے ہیں جو "قوم کی خدمت”، "جمہوریت”، اور "سیاسی شعور” کے نعرے لے کر میدان میں اترتے ہیں،
مگر جلد ہی اپنے اصولوں اور منشور کا جنازہ نکالنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔جو کسی صورت مستحسن نہیں اور نہ اس کی گنجائش ہے اور نہ ہی یہ حساس خطہ ایسی خرکاریوں کا متحمل ہے۔

میں دینی علوم کیساتھ علم سیاسیات کا ایک طالب علم بھی ہوں، گزشتہ پندرہ سالوں سے جی بی کالجز میں علم سیاسیات کی تدریس سے منسلک ہوں۔ اس لیے سیاست، سیاسیات اور سیاسی اخلاقیات پر لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ ہم اساتذہ لوگ یہی کرسکتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارا کام ہی تحقیق کرکے رہنمائی دینا ہے۔

اور ہاں اس حوالے سے پہلے بھی بار بار لکھا ہے، اور درجنوں کالم سیاسی اخلاقیات کے حوالے سے پبلش ہوچکے ہیں، تاہم اب ہمارے ذہن میں ایک شاندار تجویز آرہی ہے جو بالخصوص سینیئر اور ذمہ دار سیاستدانوں اور پارٹیوں کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ انہیں دیگر سے بڑھ کر اس کام کو انجام دینے کے لیے کمربست ہونا چاہیے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام سیاسی حلقے، چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں، مل بیٹھ کر ایک "سیاسی ضابطۂ اخلاق” مرتب کریں جو صرف کاغذی نہ ہو بلکہ اس پر عمل درآمد بھی لازمی ہو۔

ہماری تجویز ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام منتخب ممبران اسمبلی، وفاقی سیاسی پارٹیوں کے مقامی ونگز، مذہبی جماعتیں، قوم پرست پارٹیاں اور آزاد سیاستدان مل بیٹھ کر ایک ایسا "سیاسی ضابطۂ اخلاق” تیار کریں جس میں درج ذیل نکات کو شامل کیا جائے اور اس کا مختصر خاکہ یوں ہو۔

” تجویز کردہ ضابطۂ اخلاق برائے سیاسی قیادت، گلگت بلتستان

1. سیاسی اختلاف کو دشمنی نہ سمجھا جائے۔

اختلاف رائے کا ہونا ضروری ہے، اس کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف تضحیک، توہین اور ذاتی حملوں سے گریز کیا جائے۔

2. سیاسی تقاریر میں شائستگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے۔

گالم گلوچ، لعن طعن، سب و شتم، الزامات، کردار کشی اور عوام کو مشتعل کرنے والے بیانات سے اجتناب کیا جائے۔

3. سیاسی امور میں مذہب کا غلط استعمال نہ ہو۔

مذہبی تعصب، فرقہ واریت، یا مقدسات کی توہین کے ذریعے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی ہر کوشش ناقابل قبول ہو۔

4. گلگت بلتستان کی علاقائی سالمیت اور وحدت پر سب ایک صف میں کھڑے ہوں۔

کوئی بھی سیاستدان یا جماعت کسی ایسے بیانیے یا عمل کا حصہ نہ بنے جو گلگت بلتستان اور پاکستان کی وحدت و استحکام کے خلاف ہو۔

5. وفاقی سطح پر گلگت بلتستان کے حقوق کے لیے تمام سیاسی جماعتیں متفقہ موقف اختیار کریں۔

داخلی اختلافات کے باوجود اسلام آباد میں گلگت بلتستان کا کیس سب مل کر لڑیں۔

6. الیکشن کے دوران ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔

انتخابی جلسوں،ریلیوں، پروگرامروں، بینرز، اشتہارات اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی تضحیک نہ کی جائے۔

7. سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی اخلاقی حدود کا خیال رکھا جائے۔

فیک آئی ڈیز، جھوٹے پراپیگنڈے، کردار کشی، اور گالم گلوچ پر مبنی مواد کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

8. نوجوان کارکنان کی سیاسی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔

ہر جماعت اپنے کارکنان کو سیاسی اخلاق، رواداری، اور دلیل و مکالمہ کا درس دے۔اس کے لیے ہر سطح پر سیاسی شعور کے ورکشاپس منعقد کیے جائیں۔

9. علاقائی و لسانی تعصبات کو فروغ دینے سے اجتناب کیا جائے۔

بلتی، شینا، کھوار، وخی، بروشسکی،گجری، یا کوئی بھی زبان بولنے والا ہو، سب گلگت بلتستان کی پہچان ہیں، انہیں سیاسی مفاد کے لیے تقسیم نہ کیا جائے۔

10. امن کمیٹیوں میں سیاسی نمائندوں کو مؤثر کردار دیا جائے۔

تاکہ وہ صرف امن کے وقت نہیں بلکہ ہر سطح پر معاشرتی ہم آہنگی میں کردار ادا کریں۔

سیاسی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر تادیبی کارروائی کے لیے تجاویز

یاد رہے!

صرف سیاسی ضابطۂ اخلاق مرتب کرنے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائے تو اس ضابطۂ اخلاق کا فائدہ بھی ہوگا۔ ہم اپنی دانست کے مطابق چند اہم پوائنٹس سے عرض کر دیتے ہیں جن کو بطور تجاویز ، سیاسی ضابطۂ اخلاق میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔

1. قانونی نوٹس اور وارننگ جاری کی جائے

جو بھی سیاسی رہنما، امیدوار یا کارکن سیاسی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرے، اسے باضابطہ تحریری نوٹس جاری کیا جائے، اور فوری طور پر معاملے کی نوعیت کے مطابق وارننگ دی جائے۔

2. الیکشن کمیشن کو مداخلت کا اختیار ہو

بالخصوص انتخابی ایام میں اگر کوئی فرد یا جماعت ضابطے کی خلاف ورزی کرے تو الیکشن کمیشن گلگت بلتستان اسے جرمانہ، نااہلی یا انتخابی مہم روکنے جیسی سزا دے سکے۔

3. سیاسی جماعتیں خود احتسابی نظام قائم کریں

ہر سیاسی جماعت اپنے اندر ایک اخلاقی احتسابی کمیٹی بنائے جو کارکنان و قیادت کی نگرانی کرے اور خلاف ورزی کی صورت میں انہیں پارٹی کی سطح پر سزا یا رکنیت ختم کر دے۔

4. میڈیا پر بلیک لسٹ کیا جائے

سیاسی ضابطہ اخلاق کی مسلسل خلاف ورزی کرنے والے افراد یا جماعتوں کو مقامی اور قومی میڈیا پر کوریج سے عارضی محروم کیا جا سکتا ہے تاکہ بدتہذیبی کی ترویج نہ ہو۔

5. پبلک معذرت لازمی ہو

جو سیاسی رہنما کسی عوامی یا مذہبی طبقے کی تضحیک کرے، اسے میڈیا یا سوشل میڈیا پر کھلی معذرت کرنے کا پابند بنایا جائے۔

6. مالی جرمانے عائد کیے جائیں

ضابطے کی سنگین خلاف ورزی کی صورت میں مالی جرمانے بھی تجویز کیے جا سکتے ہیں، تاکہ سنجیدگی بڑھے۔

7. سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی اور رپورٹنگ

جماعتوں اور امیدواروں کے آفیشل و غیر رسمی اکاؤنٹس کی نگرانی کے لیے ایک الیکٹرانک مانیٹرنگ سیل بنایا جائے۔ غلط پوسٹس پر فوری رپورٹ اور بلاکنگ کی کارروائی ہو۔

8. سیاسی جماعتوں کی مشروط رجسٹریشن

جو جماعتیں بار بار سیاسی اخلاق کی خلاف ورزی کریں، ان کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن معطل یا منسوخ کرنے کی تجویز رکھی جا سکتی ہے۔

9. ایف آئی آر اور قانونی کارروائی

اگر کسی کی زبان یا عمل سے مذہبی اشتعال، فسادات یا علاقائی نفرت کو ہوا ملے تو اس پر مقدمہ درج کیا جائے اور عدالتی کارروائی کی جائے۔ امن معاہدہ 2005 میں اس کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔

10. عوامی آرا سے جوابدہی

سوشل اور پرنٹ میڈیا پر ایک سیاسی اخلاقیات کا اشاریہ جاری کیا جائے، جس میں ہر جماعت اور رہنما کی پچھلے رویے کی درجہ بندی ہو، تاکہ عوام خود فیصلہ کر سکیں کہ کس نے اصولوں کی پاسداری کی۔

ایکشن فورم برائے عملداری

ان تجاویز پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے ایک ” ایکشن فورم برائے عملداری ” تشکیل دیں۔ یہ فورم ان ضوابطِ اخلاق پر عملدرآمد کی نگرانی، خلاف ورزی کی نشاندہی، اور تادیبی کارروائی کے لیے بااختیار ہو۔ اس فورم میں ہر جماعت کی نمائندگی لازم ہو تاکہ کسی جماعت کو شکایت کا موقع نہ ملے، اور سب جماعتیں خود کو اس ضابطے کے پابند سمجھیں۔ اس فورم کو مستقل بنیادوں پر فعال رکھا جائے اور اس کی کارروائیاں شفاف طریقے سے عوام کے سامنے لائی جائیں تاکہ سیاسی نظام میں اعتماد "اور وقار بحال ہو۔

یہ مختصر سا خاکہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے، آپ اپنی سیاسی مہارت و بصیرت اور ضرورت کے مطابق اس میں مزید تزئین و ترمیم سے کام لیں، اور یاد رہے کہ اگر ہم واقعی گلگت بلتستان کو ایک پرامن، باشعور، اور ترقی یافتہ خطہ بنانا چاہتے ہیں تو صرف مذہبی نہیں، بلکہ سیاسی سطح پر بھی اخلاقی معاہدات کی ضرورت ہے۔
آج جب دنیا تعلیم، سیاحت، ٹیکنالوجی اور معیشت میں آگے بڑھ رہی ہے، ہم کب تک نفرت، الزام تراشی، اور ذاتیات کے گرد چکر کاٹتے رہیں گے؟

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سیاست کو تہذیب، شرافت اور شعور کا آئینہ بنائیں۔
اسی میں گلگت بلتستان کا مستقبل محفوظ ہے، اور اسی میں ہماری نجات ہے۔

سیاسی ضابطۂ اخلاق کی اہمیت تبھی برقرار رہے گی جب اس پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے واضح اور مؤثر تادیبی کارروائی کا نظام موجود ہو۔ ورنہ یہ صرف ایک رسمی اعلان بن کر رہ جائے گا۔

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ یہ نکات متفقہ طور پر تمام جماعتوں، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کی مشاورت سے تحریری معاہدے کی صورت اختیار کریں تاکہ قانونی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں میں مؤثر ثابت ہوں۔ اس کی مثال مساجد ایکٹ گلگت بلتستان کی شکل میں موجود ہے جو گلگت اسمبلی سے باقاعدہ اتفاق رائے سے منظور ہوکر گزٹ آف پاکستان میں پبلش ہوا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button