کالمز

ذہنی لڑائی لڑتا انسان اور لوگوں کے رویے

اس دنیا میں سب سے مشکل حقیقی خوشی کا حصول جبکہ آسان سب کو خوش دکھائی دینا ہے۔ کچھ دنوں پہلے  ٹی کی مشہور اداکارہ  عائشہ صاحبہ کی موت کا واقعہ ہوا۔ وہ شوبز کا خاصا جانا نام تھیں۔ کل حمیرا اصغر علی کی ناگہانی موت کی خبر سنی۔ موت کی خبر سے زیادہ تکلیف ہمیشہ لوگوں کے رویے دیتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی سب نے موصوفہ کو دوزخی، جہہنمی اور نہ جانے کس قسم کے خطابات اور القابات سے پکارا ہے۔ شوبز کی اموات کو عام موت نہیں سمجھا جاتا کیوں کہ وہ لوگ ہمیشہ معلوم رہتے ہیں۔ عام انسان ڈپریشن ، تنہائی ، عدم توجہ سے مرجاتا ہے تو ہسپتال کے سرکاری بیڈ پراکثر نامعلوم کی تختی کےساتھ دفن ہوجاتا ہے۔ پھر مہنگی بجلی کی وجہ سے ایک مہینے میں زیادہ سے زیادہ لوگ خود کشیاں کرلیں وہ موضوع بھی لوگوں کے نزدیک کوئی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوتا۔ سخت معاشی حالات کی وجہ سے لوگ بھلے موت کے منہ میں گرنے لگیں وہ عام سی موت لگتی ہے اور لوگ ان موضوعات پر بولنا تک پسند نہیں کرتے۔

اگر ہم اسی ٹاپک کی بات کریں تو جان سکتے ہیں  کہ اصل تنہائی رشتوں کے ہونے سے زیادہ ان کے زندہ نہ  ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ سینیر اکادارہ کے کیس میں یہی مسئلہ تھا۔ اولاد تھی مگر وہ تنہا ہی تھیں۔

 زندگی میں کوئی دوست، کوئی اپنا، دکھ سکھ بانٹنے والا، ایسا تو ہو جسے دھڑلے سے انسان کہہ سکے۔

"لو میرا دل ڈوب رہا ہے۔ سانسیں اکھڑ ڑہی ہیں۔ زندگی بوجھ لگ رہی ہے۔ الفاظ اندر شور مچا رہے ہیں۔ خود کو سھنبالنا مشکل ہورہا ہے۔”

اور اگلا انسان کہیں پر بھی ہو سبھی کام چھوڑ کر اس کے سرہانے پہنچ جائے اور اسے محبت کی تھپکی دے۔ حوصلے کا پانی پلائے۔ صبر کا کھانا کھلائے۔ مثبت سوچوں کا شربت پلائے۔  اسے سنتا رہے۔ یہاں تک کہ زخموں سے چور اس شخص کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ منہ سے فضا میں تحلیل ہوجائیں اور وہ انسان بہت ہی پرسکون سی نیند سوئے۔ کیا ہمارے پاس وہ انسان ہے؟ یہ ہے وہ اصل سوال، جس کا جواب شاید ہم نہ دے پائیں۔

کوئی تو ہو جو ہر دکھ میں حوصلے کا ٹیبلٹ دے۔ تکلیف میں وفا کا درس دینے اور چپ کی شال اوڑھنے کی بجائے حوصلے کا جام پلائے۔ کیا ہمارے گھروں میں، گھروں سے باہر ایسے رشتے ہیں جو ہمارا بازو بنیں۔ جو تکلیف میں اینٹی بائیوٹک بن سکیں۔  اگر نہیں تو حقیقت میں  انسان دو ہزار لوگوں میں بھی اکیلا ہے اور اگر ایسا کوئی  ہے تو دو انسان بھی ہوں تو وہ کافی ہیں۔

کسی کو برا بھلا کہنا آسان ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے کتںے ڈپریشن اور اپنے آپ  سے لڑتے لوگوں کو بچایا ہے۔ کتنی دفعہ وقت کو کنارے کرکے ان کو سنا ہے۔ پاگل پن کے خطابات دینے کی بجائے ان کے چہرے کی مصنوعی ہنسی کو حقیقی ہنسی میں تبدیل کیا ہے۔ انسان دکھ سے نہیں مرتا انسان تب مرتا ہے جب روز سب کے سامنے جوکر کی طرح ہنسنے کی اداکاری کرتا ہے۔ منہ پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے اندر سے بکھرے وجود کو مزید توڑتے بس زندگی کو دکھوں کے سپرد کرتا ہے۔ وہ بس اس لیے جیتا ہے کہ موت سے پہلے اسے تکلیفوں کی گٹھڑی اٹھائے جینا ہے۔ ایسے لوگوں کو طعنے مت دیجئے۔ کسی کوبکھرتے دیکھیں تو سمیٹیں۔ الزامات مت دیں۔ رویوں سے دوزخ میں مت پھینک دیں۔ ذہنی دوزخ سے بچائیں۔ ورنہ تو اولاد ہو بہن بھائی یا عزیز سب کے ہوتے ہوئے بھی مشکل  وقت میں انسان ایک بیڈ پر تنہا ہی مرتا ہے۔

بات خلوص کی ہے۔ سمجھنے کی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button