موسمیاتی تبدیلی اور بحیثیتِ شہری ہماری ذمہ داریاں: گلگت بلتستان اور چترال میں عملی اقدامات کی ضرورت

تحریر: اسسٹنٹ پروفیسر دادو خان صابر
گورنمنٹ ڈگری کالج ہاتون، غذر
ہم عصر دنیا میں انسانی تہذیب کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ان چیلنجز میں سے ایک گلوبل وارمنگ (عالمی حدت) ہے۔ گلوبل وارمنگ سے مراد زمین کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) اور انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کے مطابق، زمین کا اوسط درجہ حرارت پہلے ہی 19ویں صدی کے آخر سے 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ سے 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے اور گزشتہ دہائی انسانی تاریخ کی گرم ترین دہائی رہی ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں؛ تاہم تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گرین ہاؤس اثر اور انسانوں کا اپنے مساکن اور ماحولیاتی نظاموں کے ساتھ رویہ گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والے اہم عوامل ہیں۔ گلیشیئروں کے تیزی سے پگھلنے، روزمرہ موسم میں تغیر اور تباہ کن واقعات جیسے اچانک سیلاب، خشک سالی، جنگلوں میں لگنے والی آگ اور لُو کی لہروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ذریعے عالمی حدت موسمیاتی تبدیلی کو شدید تر کر دیتی ہے۔ نتیجتاً پوری دنیا میں ماحولیاتی نظام اور انسانی زندگی خطرے میں ہے۔
اس سلسلے میں ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے قابل ذکر اقدامات کر رہے ہیں۔ جن میں یورپی گرین ڈیل اور انفلیشن ریڈکشن ایکٹ (2022) جیسی پالیسی اصلاحات، قابل تجدید توانائی کی منتقلی، گرین ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور عالمی موسمیاتی فنڈنگ شامل ہیں۔ بلاشبہ ترقی یافتہ ممالک کاربن اور گرین ہاؤس گیسوں کے ضرورت سے زیادہ اخراج کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کا عالمی کاربن اخراج میں بہت کم حصہ ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی سرگرمیوں جیسے فوسل فیول اور پلاسٹک جلانے، جنگلات کی کٹائی اور غیر صحت مند صنعتی عمل کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس امر میں اب کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ پورا پاکستان بالعموم اور خاص طور پر گلگت بلتستان اور چترال پاکستان میں کم سے کم کاربن خارج کرنے والے خطوں میں شامل ہونے کے باوجود گزشتہ دو دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ دونوں خطے نازک پہاڑی ماحولیاتی نظام، عظیم الشان پہاڑوں، اونچائی پر واقع بڑے گلیشیئرز، جھیلوں، چشموں، گرم پانی کے چشموں اور دریاؤں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع بالعموم اور خاص طور پر ضلع غذر بڑے خطرے والی آفات سے متاثرہ زون میں واقع ہیں۔ گلیشیئر جھیل کے اچانک پھٹنے سے سیلاب (GLOFs)، بادلوں کا پھٹنا، زمینی تودے گرنا، ملبے کا بہاؤ، اچانک سیلاب، چٹانوں اور پہاڑوں کے ٹوٹنے اور دریا کے کنارے کٹاؤ کی وجہ سے یہ ضلع گزشتہ دو دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کی زد میں ہے۔
2022 کے موسم گرما میں ضلع غذر کے گاؤں ایمت، بوبر، شیرقلعہ، اشکومن اور گوپس یاسین میں تباہ کن اچانک سیلاب آئے۔ اس کے نتیجے میں سترہ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ تقریباً تین سو پچاس گھر، سینکڑوں ایکڑ کاشتکاری کے قابل زمین اور مویشی تباہ ہو گئے۔ اسی طرح 2025 میں ضلع غذر میں بیارچی، سلپی، کانچچ، گرنجر، نلتی یاسین اور اشکومن فیض آباد اور داؤد آباد میں شدید اچانک سیلاب دیکھے گئے۔ یہ آفات انسانی زندگی، بنیادی ڈھانچے اور قدرتی مساکن پر موسمیاتی تبدیلی کے براہ راست اثر کو واضح کرتی ہیں۔
ان حالات کے نتائج حقیقتاً تباہ کن ہیں۔ ایسے نازک حالات میں بحیثیت جی بی سی (گلگت بلتستان اور چترال) کا رہائشی، میرے خیال میں یہ ہم سب کے لیے مناسب وقت ہے کہ ہم اپنے کردار اور شہری ذمہ داریوں پر بحیثیت فرد، بحیثیت ادارہ اور بحیثیت معاشرہ غور کریں اور ان سوالات پر سوچیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے معاشرے کے رکن کی حیثیت سے میرا کردار کیا ہونا چاہیے؟ قدرتی خطرات سے اپنے ماحولیاتی نظام اور مساکن کو بچانے کے لیے ہم برادریوں اور اداروں کی حیثیت سے کس طرح حصہ ڈال سکتے ہیں؟ ہم ان سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹ رہے ہیں؟
انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے اور اللہ نے اس کائنات میں ہر چیز کو بہترین توازن کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ قرآن پاک انسانوں کے لیے زمین کی حفاظت اور دیکھ بھال کا ایک گہرا اخلاقی اور روحانی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ انسان بحیثیت اللہ کا خلیفہ زمین پر، زمین کا نگران ہے مالک نہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے اسے محفوظ بنانے میں ذمہ دارانہ عمل اختیار کرنا ہے۔ لہٰذا معاشرے کے اراکین کی حیثیت سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے جو فرد اور خاندانی سطح اور اجتماعی سطح پر آگاہی اور عمل کو فروغ دینے سے شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم توانائی بچا سکتے ہیں، اپنی روزمرہ زندگی میں پلاسٹک کے استعمال کو کم کر سکتے ہیں، درخت لگا سکتے ہیں اور اپنے خاندان، اسکول اور سماجی حلقوں میں ماحولیاتی آگاہی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ مزید برآں ہم ماحول دوست پالیسیوں، منصوبہ بندیوں اور پروجیکٹس کی وکالت کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارا کردار صرف مشاہدہ کرنے اور انتظار کرنے کا نہیں بلکہ اپنی برادری میں تبدیلی میں فعال طور پر شامل ہونے، اثر انداز ہونے اور حوصلہ افزائی کرنے کا ہے۔
برادری اور ادارہ جاتی سطح پر ہم EFAD جیسے شاندار منصوبے کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں معاون پروجیکٹس کو نافذ کرنے اور عمل درآمد کرنے کے لیے مقامی موسمیاتی ایکشن ٹیمیں بنا کر بامعنی حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد نہ صرف پائیدار زراعت، ماحول دوست روزگار کی تخلیق اور قدرتی وسائل کا انتظام پیدا کرنا ہے بلکہ مقامی برادریوں کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے والی (کلائمیٹ ریزلینٹ) مشقوں کو اپنانے کے لیے بااختیار بنانا بھی ہے۔ اسی طرح حکومت اور این جی اوز بھی برادریوں کے تعاون اور حمایت سے بہت سے منصوبے شروع کرتی سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے بہت سے منصوبے کمیونٹی کی جانب سے ملکیت کے احساس (اونرشپ) کی کمی کی وجہ سے اپنے مقاصد حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بات سامنے آئی کہ جب کسی منصوبے کو کمیونٹی کے حوالے کیا جاتا ہے تو کمیونٹی اس منصوبے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لیتی ہے اور کئی دہائیوں تک اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ تاہم ہمارے اپنے سیاق میں بھی اس رویے کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
مزید برآں ادارے جیسے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، مذہبی پلیٹ فارمز، جنگلات، زراعت، عمارات و سڑکیں (Buildings &Roads)، عوامی کام (Power & Water) کے محکمے اور مقامی تنظیمیں آفات کی تیاری کے سیشنز کا آغاز کرکے کمیونٹیز کو مفت پودے اور درخت فراہم کرکے آبی وسائل کی حفاظت اور بنجر علاقوں کو قابل کاشت بنانے اور بالترتیب ماحول دوست بنیادی ڈھانچہ تیار کرکے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحم (کلائمیٹ ریزلینٹ) کمیونٹیز بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ مل کر ہم بہت بڑا فرق لا سکتے ہیں اور اپنے ماحولیاتی نظام کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ اپنے گلیشیئرز، جھیلوں، دریاؤں، جنگلات اور چراگاہوں کی حفاظت کر سکتے ہیں اور ابتدائی انتباہی نظام اور آفات کی تخفیف کے حوالے سے آگاہی پیدا کر سکتے ہیں جو قدرتی خطرات کے اثرات کو کم کرتے ہیں۔ حکومتوں اور این جی اوز کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کام کرکے اور ان کی حمایت کرکے ہم، سب کے لیے ایک زیادہ پائیدار اور مضبوط مستقبل تعمیر کر سکتے ہیں۔
مختصراً، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ایک مشترکہ شہری ذمہ داری ہے نہ کہ صرف ریاست یا این جی اوز کی ذمہ داری۔ درحقیقت رہنما کردار سرکاری اداروں کا ہے تاہم یہ ناگزیر ہے کہ بحیثیت پاکستانی شہری ہمیں ریاستی مشینری اور رفاہی اداروں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے اور ان کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ حکمت عملی پر مبنی آفات کے خطرے کو کم کرنے کے منصوبے اور ان پر عمل درآمد کو ترقی دی جا سکے، گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (GBDMA) جیسے اداروں اور دیگر این جی اوز کو بااختیار بنایا جا سکے جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ مقامی حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مقامی اور گاؤں کی سطح پر کمیونٹی ایمرجنسی رسپانس ٹیمز (CERTs) اور گاؤں کی ایمرجنسی رسپانس ٹیمز (VERTs) جیسے رضاکاروں کو تربیت دے۔ انہیں متحرک رکھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ضروری سازوسامان سے لیس کرنا چاہیے تاکہ مشکل اوقات میں لوگوں کی مدد، ان کی بازیابی اور امداد کی جا سکے۔ مزید برآں دریاؤں کے کناروں، سیلابی راستوں اور پہاڑوں کے دامن میں تعمیرات پر فوری بنیادوں پر پابندی عائد کرنے کے لیے قانون سازی کو یقینی بنانا بھی ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں زمین کے استعمال، خاص طور پر مکانات کی تعمیر کے حوالے سے پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد اور ان کے ضابطے کے لیے مقامی انتظامیہ اور میونسپلٹی کو بااختیار بنایا جانا چاہیے۔
اسی طرح جنگلات اور زراعت کے محکمے کمیونٹیز کو زیادہ درخت اور پودے اگانے کی ترغیب دینے کے لیے مراعات اور پنیری فراہم کرکے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ درختوں اور پودوں کی کٹائی پر سخت پابندیاں عائد کی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی روزمرہ کاروبار، گھریلو استعمال اور جلانے کے مقاصد کے لیے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے موسمیاتی تبدیلی اور آفات کے انتظام کو اسکول اور کالج کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل کو رضاکارانہ خدمات اور ذمہ دار شہریت کے لیے تیار کیا جا سکے تاکہ وہ اپنے مسکن اور ماحولیاتی نظام کی حفاظت اور نگرانی میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکیں۔ بچاؤ، بازیابی اور بحالی کی بنیادی تربیت ہمارے تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہونی چاہیے تاکہ نوجوانوں کو آگاہ، تیار اور فعال بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے نوجوانوں کو تحریک دینے کے لیے، کچھ مراعات حاصل ہوں جیسے اسناد (سرٹیفیکیشن) اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے میں ایسے نوجوانوں کو ترجیح دینا وغیرہ۔ موسمیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں رہا ہے بلکہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ خاص طور پر گلگت بلتستان اور چترال کے پہاڑی کمیونٹیز میں یہ خطرہ ہمہ وقت موجود ہے۔ ہماری اجتماعی کوششیں اور اس کے بارے میں اپنے رویوں میں تبدیلی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کر سکتی ہے۔