گلگت بلتستان کی اجتماعی نفسیات ، خاندانی فخر یا فکری رکاوٹ؟

گلگت بلتستان کے فلک بوس پہاڑ صرف گلیشیئرز اور دریاؤں کے محافظ نہیں، بلکہ وہ صدیوں پر محیط داستانوں کے خاموش گواہ بھی ہیں۔ یہاں کے دیہاتوں میں، جو پہاڑوں کے دامن سے لپٹے ہوئے ہیں، نسل در نسل وہ کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں اجداد کو ایسی غیر معمولی خصوصیات کا حامل بتایا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جائے ، کوئی ولیوں سے ہمکلام، تو کوئی دیو ہیکل درندوں کا تنہا شکار کرنے والا سپاہی، کوئی زبردست جنگجو تو کوئی پہاڑوں اور ان میں بسنے والے جنات اور پریوں کو بیک جنبش زیر کرنے والا اور کوئی چڑیلوں کو ڈنڈے سے مار بھگانے ولا۔
یہ قصے چولہوں کے گرد بیٹھکوں میں، شادی بیاہ کی محفلوں میں ، جرگوں کی خاموشیوں میں، اور بزرگوں کے لبوں سے احترام کے ساتھ بیان ہوتے ہیں۔ ان میں وہ فخر شامل ہے جو شناخت کی بنیاد بن چکا ہے۔ مگر اس فخر کی تہہ میں ایک خاموش ذہنی الجھن پلتی ہے ، وہ الجھن جو نوجوانوں کے شعور پر بوجھ بن جاتی ہے۔
ہمارا معاشرہ چونکہ زبانی روایات کو تحریر پر ترجیح دیتا رہا ہے، اس لیے واقعات وقت کے ساتھ رنگ بدلتے رہے۔ کسی سادہ دل بزرگ کو ولی کا درجہ ملا، تو کسی شکار کو افسانوی جنگجو بنا دیا گیا۔ وقت کے ساتھ مبالغہ حقیقت پر غالب آ گیا اور یہ سماجی سکہ چلنے لگا، خاص طور پر جب بات نسب، قبیلے یا ذات کی آتی ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ حال کی تلخ حقیقتوں سے بچنے کے لیے ماضی کی دھند میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ تعلیمی یا معاشی ناکامی کا مداوا یوں کیا جاتا ہے:
"مگر میرے پردادا تو سب سے اعلی تھے۔۔۔”
گویا ماضی کا کوئی مبالغہ آمیز کارنامہ حال کی ناکامی پر پردہ ڈال دے گا۔ محنت اور خوداحتسابی کی جگہ خاندانی فخر کی چادر تان لی جاتی ہے۔
نوجوان جب ان قصوں میں پلتے ہیں تو ایک فطری برتری کا احساس ان کے لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے۔ مگر جب وہ عملی دنیا میں ناکامیوں سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے اندر ایک دردناک تضاد جنم لیتا ہے۔ وہ خود پر تنقید کرنے کے بجائے الزام قسمت، معاشرہ ، ماحول یا "حسد کرنے والے” لوگوں پر دھر دیتے ہیں۔
نتیجتاً، ان کا اعتماد ٹوٹتا ہے، ذہن الجھتا ہے، اور ایک دائمی احساسِ ناکامی جنم لیتا ہے۔
جب بچپن سے یہ سنا ہو کہ "دادا جان تو سات زبانوں میں فرشتوں سے گفتگو کیا کرتے تھے” تو اسکول میں الجبرا میں فیل ہونا گویا خاندان کی توہین بن جاتی ہے۔ نوجوان پھر یا تو ہار مان لیتے ہیں یا خود کو ثابت کرنے کی دوڑ میں جھلسنے لگتے ہیں۔
یہ کہانیاں صرف انفرادی سطح پر نہیں، بلکہ سماجی تعلقات پر بھی اثر ڈالتی ہیں۔ جب ہر خاندان اپنا ہیرو دوسروں کے ہیرو سے برتر ثابت کرنے پر تُل جائے، تو مبالغہ آرائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اجتماعی خودفریبی کو جنم دیتا ہے ، خاص طور پر ان گروہوں میں جہاں خاندانی یا قبائلی شناخت سب کچھ سمجھی جاتی ہے۔
گلگت بلتستان جیسے رنگا رنگ خطے میں، جہاں مختلف قومیتیں اور مسالک بستے ہیں، یہ رویہ باہمی احترام اور برداشت کو دیمک کی طرح چاٹتا ہے۔
اگر ہر قبیلہ خود کو خدائی انتخاب کا نمائندہ سمجھے، تو دوسروں کے لیے دل میں جگہ کہاں بچے گی؟
بدقسمتی سے، یہ روایت نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے ، والدین اپنے عدم تحفظ کی کیفیت میں ماضی کی کہانیوں کو ڈھال بنا کر بچوں کو سناتے ہیں۔ جب حقیقت ان افسانوی دعووں سے ٹکرا تی ہے ، مثلاً "بادشاہوں کی نسل” بےروزگار ہو، یا "اولیاء کی اولاد” معمولی سی خامیوں کا شکار ہو یا جنات اور پریوں کو زیر کرنے والوں کی نسل نکمی اور کاہل تو سچ قبول کرنے کے بجائے وہ دیومالائی دنیا میں اور گہرائی سے چھپ جاتے ہیں۔
تعلیم بھی اکثر اس مسئلے کا حل نہیں بن پاتی، کیونکہ تعلیم یافتہ افراد بھی خاندانی قصوں کو "ثقافتی ورثہ” یا "تاریخی حقائق” کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں، اور تنقید سے بچ نکلتے ہیں۔
یہ سلسلہ تبھی ٹوٹے گا جب ہم کہانی سنانے کا انداز بدلیں۔ اجداد کو کامل نہ بنائیں، بلکہ انسان دکھائیں
"دادا جان نے بہادری ضرور دکھائی، مگر وہ بھی کبھی کبھار ڈرتے تھے، غلطیاں کرتے تھے، اور ان کی اصل طاقت استقامت تھی۔”
نوجوانوں کو جذباتی بصیرت دینا ہوگی تاکہ وہ اپنی کمزوریوں کو تسلیم کر کے ان پر قابو پا سکیں، نہ کہ انہیں ماضی کی چادر میں لپیٹ کر بھول جائیں۔
ہمیں اپنے معاشرے میں ایسے کرداروں کو اجاگر کرنا ہوگا جو آج کے ہیرو ہیں وہ استاد جو روشنی بانٹتے ہیں، وہ کسان جو جدت لاتے ہیں، وہ ڈاکٹر جو واقعی مسیحا کا کردار ادا کرےا ہے ، وہ محنت کش جو ریگستان کو گلستان بناتا ہے ، وہ وکیل جو انصاف کی جنگ لڑتا ہے ، وہ صحافی جو سچ پر جان قربان کرتا ہے اور وہ کارکن جو سماجی تبدیلی کی بنیاد رکھتے ہیں۔
مکالمے کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں جہاں سچ بولا جا سکے، سوال اٹھائے جا سکیں، اور کہانیاں صرف فخر نہیں بلکہ سیکھنے کا ذریعہ بنیں۔
گلگت بلتستان کے لوگ واقعی عظیم ورثے کے وارث ہیں، اور اس پر فخر ہونا بھی چاہیے۔
مگر اگلی نسل کی اصل کامیابی ان بے بنیاد قصوں کو دہرانے میں نہیں، بلکہ سچائی، خود شناسی اور موجودہ دور کے ٹھوس کارناموں پر اعتماد کرنے میں ہے۔
جب نوجوان ماضی کے مبالغہ آمیز سایوں سے باہر نکلیں گے، تو وہ نہ صرف اپنی شناخت خود تراشیں گے، بلکہ آبا و اجداد کی وراثت کو بھی نئی زندگی دیں گے ، ایک ایسی زندگی جو فکری رکاوٹ نہیں، بلکہ ترقی کی بنیاد بنے گی۔