کالمز

طوطے کی کہانی اور ہمارے ذہنی تعصبات

مثنوی کو بحرالعلوم کہا جاتا ہے، یعنی علم و حکمت کا سمندر۔ مولانا روم نے اس میں انسانی نفسیات، اخلاق اور روحانیت کو کہانیوں کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ انہی کہانیوں میں ایک طوطے کی حکایت ہے جو بظاہر سادہ مگر معنی میں گہری ہے۔ ایک دکاندار نے اپنی دکان پر بولتا ہوا طوطا رکھا تھا جو رٹے رٹائے جملے دہراتا رہتا تھا۔ جب دکاندار باہر جاتا تو طوطا آنے والے گاہکوں کو کہتا، “ابھی دکاندار نہیں ہے، بعد میں آؤ۔” ایک دن دکاندار کہیں گیا تو طوطے نے موقع پاکر دکان میں اڑان بھری۔ اس دوران رنگ کا ایک ڈبہ گر گیا اور پوری دکان رنگین اور گندی ہو گئی۔ دکاندار واپس آیا تو غصے میں آ کر طوطے کو مارا، جس سے اس کے سر کے پر اڑ گئے اور وہ گنجا ہو گیا۔ طوطا غمزدہ ہو کر فرائض کی ادائیگی سے دستبردار ہوا۔ کئی دن گزر گئے، ایک دن دکان کے سامنے سے ایک گنجا آدمی گزرا تو طوطا اچانک بول اٹھا، “اوے! تم نے کس کا رنگ گرایا تھا؟” طوطے نے اپنے ذاتی تجربے کو سچِ مطلق سمجھ لیا۔ اب اس کے نزدیک ہر گنجا شخص مجرم تھا۔
مولانا روم اس چھوٹی سی کہانی کے ذریعے انسان کے ایک بڑے نفسیاتی رویے کو سمجھاتے ہیں۔ انسان جب کسی تلخ تجربے سے گزرتا ہے تو اس کا ذہن اسے بطور “سبق” یاد رکھ لیتا ہے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک محدود واقعے کو پوری دنیا کے لیے اصول بنا لیتا ہے۔ نفسیات میں اس کیفیت کو “ادراکی تعصب” یا “Cognitive Bias” کہا جاتا ہے۔ یعنی انسان اپنی ذات کے تجربے کو معیارِ حق بنا کر دوسروں کے بارے میں عمومی نتیجہ اخذ کر لیتا ہے۔ طوطا یہ سمجھ بیٹھا کہ چونکہ وہ خود رنگ گرنے کے بعد گنجا ہوا، لہٰذا ہر گنجا شخص بھی ضرور رنگ گرانے کا مجرم ہوگا۔ یہی سوچ انسانی معاشروں میں تعصب، نفرت اور غلط فہمیوں کی جڑ ہے۔
انسان جب اپنی تکلیف دہ یادوں کو نظرئیے کی بنیاد بناتا ہے تو وہ غیر شعوری طور پر دنیا کو ایک ہی رنگ میں دیکھنے لگتا ہے۔ اگر کسی کو ایک خاص طبقے، فرقے یا گروہ سے برا تجربہ ہو جائے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ سب ویسے ہی ہیں۔ یہی سوچ آگے چل کر فرقہ واریت، نسل پرستی اور گروہی نفرت میں بدل جاتی ہے۔ دماغ کا یہ فطری رجحان دراصل اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا طریقہ ہے، لیکن جب یہی دفاعی عمل عقل پر غالب آ جائے تو انسان انصاف سے دور ہو جاتا ہے۔ وہ دوسروں کو ان کے اصل روپ میں نہیں بلکہ اپنے ماضی کے آئینے میں دیکھنے لگتا ہے۔
اس رویے کا علاج ممکن ہے، مگر اس کے لیے سب سے پہلے انسان کو اپنی سوچ سے واقف ہونا پڑتا ہے۔ خود آگاہی وہ پہلا قدم ہے جس کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری رائے حتمی نہیں، ہمارے تجربے محدود ہیں اور حقیقت ہم سے کہیں وسیع ہے۔ تنقیدی سوچ اس وقت جنم لیتی ہے جب ہم اپنے خیالات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ کیا میں کسی ایک تجربے کی بنیاد پر فیصلہ کر رہا ہوں؟ کیا میں نے دوسرے کا نقطۂ نظر سنا ہے؟ کیا میرا ردِعمل عقل کی بنیاد پر ہے یا خوف کی بنیاد پر؟ جب یہ سوال پیدا ہونے لگتے ہیں تو ذہن تعصب کے حصار سے نکلنے لگتا ہے۔
معاشرے میں فرقہ وارانہ سوچ بھی اسی نفسیاتی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ ہم چند تلخ واقعات کو پورے مذہبی یا سماجی طبقے سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دلوں میں بدگمانی، عدم برداشت اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر مختلف مکاتبِ فکر کے لوگ آپس میں مکالمہ کریں، ایک دوسرے کی بات سنیں اور مل جل کر کام کریں تو فاصلے کم ہوں گے، تعصب کمزور پڑے گا اور اعتماد بڑھے گا۔ تعلیم اور مکالمے کے ذریعے ہی فرقہ واریت کے زہر کا تریاق پیدا کیا جا سکتا ہے۔
روحانیت اور خود احتسابی بھی انسان کی فکری اصلاح میں مددگار ہیں۔ صوفیا کا کہنا ہے کہ جو اپنے دل کا جائزہ لے، وہ دوسروں کے عیبوں پر کم نگاہ ڈالے گا۔ جب انسان اپنی کمزوریوں کو پہچان لیتا ہے تو دوسروں کو معاف کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وہ باطنی سکون ہے جو معاشرتی امن کی بنیاد بنتا ہے۔
مولانا روم کی طوطے والی حکایت دراصل ہمیں اپنے اندر کے طوطے سے نجات دلانے کی دعوت دیتی ہے۔ وہ طوطا جو رٹی رٹائی باتیں دہراتا ہے، جو ایک تجربے کو ابدی حقیقت سمجھ لیتا ہے۔ جب ہم عقل و شعور کی روشنی میں سوچنا سیکھ لیں، دوسروں کو سمجھنے اور ان کی جگہ خود کو رکھنے کی کوشش کریں، تو نہ صرف ہمارے ذاتی تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ معاشرہ بھی فرقہ واریت اور نفرت کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف بڑھنے لگے گا۔ مولانا کا پیغام آج بھی زندہ ہے کہ جو خود کو پہچان لے، وہ سب کو ایک ہی روشنی میں دیکھتا ہے ، محبت اور انسانیت کی روشنی میں۔
مولانا جلالالدین رومی فرماتے ہیں۔
تو برائے وصل کردن آمدی،
نے برائے فصل کردن آمدی۔
ترجمہ:
تو آیا ہے جوڑنے کے لیے،
نہ کہ توڑنے کے لیے۔
مولانا رومیؒ کا یہ شعر انسانیت کے مقصد کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔ انسان دنیا میں نفرت، تعصب اور جدائی کے لیے نہیں بلکہ محبت، الفت اور اتحاد کے لیے آیا ہے۔ زندگی کا اصل حسن اسی میں ہے کہ ہم دلوں کو جوڑیں، رشتوں کو مضبوط بنائیں اور انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔ نفرتوں کی بنیاد پر انسانوں کو پرکھنے کے منفی رویوں کو ترک کریں اور محبت سے بھرے مثبت رویوں کو فروغ دیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button