جنگ آزادی گلگت بلتستان اور فکری مغالطے ۔قسط دوئم

گذشتہ سال یکم نومبر کو جشن آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر میں نے ایک مضمون لکھا تھا اب اس کا دوسرا حصہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ گلگت بلتستان کی تاریخ سے نوجوان نسل نہ صرف آگاہ ہو بلکہ وہ فکری مغالطے بھی دور ہوں جنہیں نوآبادیاتی پروپیگنڈے کے تحت پیدا کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے آباواجدا کی قربانیوں کو بعض لوگ نہ صرف میجر بروان کی سازش سمجھتے ہیں بلکہ ان کا ماننا ہے کہ میجر بروان کی کتاب دی گلگت ریبلین میں جو واقعات درج کرائے گئے ہیں وہی واحد سچ ہے۔ حالانکہ اس کتاب کے دیباچہ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ اس کتاب کی تدوین میں میجر صاحب کی وفات کے بہت سال بعد ان کے دوستوں کے ایک وسیع حلقے نے مدد کی بہرحال یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ سر دست جنگ آزادی گلگت بلتستان سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ گلگت بلتستان میں چھوٹی چھوٹی شاہی ریاستوں کا قیام ریاست بلور کے ٹوٹنے کے نتیجے میں عمل میں آیا ۔بلور ریاست 737 صدی عیسوی سے 747 صدی عیسوی کے درمیان تبت اور چین کی جنگ کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔ تبت اور چین نے یہ جنگ گلگت کی وادیوں میں لڑی تھی۔ اس جنگ کے متعلق مصنف سوسن وائٹ فلیڈ نے اپنی کتاب
Life along the Silk Road
میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بلور ریاست دو حصوں پر مشتمل تھی۔ ایک حصہ گریٹ بلور دوسرا حصہ لیٹل بلور کہلاتا تھا۔ لیٹل بلور کا آخری حکمران شری بدت تھا۔ بلور ریاست کو علی شیر خان انجن نے دوبارہ متحد کیا تھا جبکہ ڈوگرہ جارحیت کے زمانے میں گوہر امان نے بھی کوشش کی۔ ان کو چترال ہنزہ نگر دیامر اور بلتستان کے راجاؤں نے اخلاقی اور فوجی مدد فراہم کی تھی۔ اس لئے
گوہر امان کے دور حکومت میں ڈوگرہ گلگت پر مکمل قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ بعد ازاں ان کی وفات کے بعد یہ ممکن ہوا۔ ہنزہ نگر پر کئی بار کوشش کے باوجود ڈوگرہ فوج قبضہ کرنے میں ناکام رہی۔ بلا آخر کرنل ڈورانڈ نے از خود کشمیر کی افواج کے علاوہ پونیال لیویز اور کچھ مقامی راجاؤں کی مدد سے شاہی ریاست ہنزہ و نگر فتح کیا اور باقی گلگت بلتستان کی طرح جنگ و جدل کے ذریعہ ان چھوٹی چھوٹی شاہی ریاستوں کو بھی ریاست کشمیر کے زیر انتظام لایا گیا ۔ 1947 تک کل 13 شاہی ریاستیں یہاں موجود تھیں۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان 1846 سے قبل ریاست کشمیر کا یا برصغیر کا کھبی حصہ نہیں رہا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ اس علاقے کے مشکل پہاڑی راستے تھے جو سال کی چھ ماہ برف باری کی وجہ سے بیرونی دنیا سے کٹ جاتے تھے۔ اس لئے یہ بلند بالا پہاڑ ایک دفاعی حصار تھے جو اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کو طویل عرصہ تک بیرونی جارحیت سے بچانے میں کامیاب رہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ
1840 کے بعد اس علاقہ پر پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کی افواج نے جارحیت شروع کی اور بلتستان پر قبضہ کیا۔ یہ قبضہ مقامی راجاؤں کی آپسی چپقلش کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ان کو مقامی لوگوں کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعدازاں بھی انہیں مقامی بغاوت کو کچلنے کے لئے طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوا۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے شکست دی اور اس کی بادشاہت میں شامل کچھ علاقے کو اس کے ہی ایک جنرل گلاب سنگھ کو 75 لاکھ نانک شاہی میں فروخت کیا اور 1846 کے معاہدہ امرتسر کے تحت جدید ریاست جموں کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا حکمران گلاب سنگھ بنا اور انہوں نے بعدازاں گلگت بلتستان پر حملے شروع کئے۔ کشمیر کے یہ حکمران ڈوگرہ کہلاتے ہیں اور ان کی حکومت ڈوگرہ حکومت کہلاتی ہے جس کا آخری بادشاہ ہری سنگھ تھا۔ جبکہ پنجاب کے بادشاہ رنجیت سنگھ کی سکھ فوج خالصہ کہلاتی تھی. گلگت بلتستان میں جو زمین خالصہ سرکار کہلاتی ہے وہ اس دور کی علامت ہے۔ انہوں نے چونکہ بلتستان، آستور اور گلگت پر قبضہ کیا تھا اس لیے آج بھی ان علاقوں میں خالصہ سرکار قانون موجود ہے جس کے تحت زمین حکومت کی ملکیت تھی ۔ یہ الگ بحث ہے کہ اسی سال حکومت گلگت بلتستان نے خالصہ سرکار قانون کو ختم کیا اور اب نئے قانون کے تحت ان خالصہ اراضیات کا نیا مالک پھر سے حکومت گلگت بلتستان ہے۔ یعنی صرف نام بدل دیا گیا ہے ۔ ملکیت سرکار کی ہی قرار دی گئی ہے۔
بہرحال، گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کو سمجھنے کے لیے یہ تمہید باندھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے ہی تین اہم باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ یہ علاقہ تاریخی طور پر نہ ہی برصغیر کا حصہ رہا ہے نہ ہی کشمیر کا۔ اس علاقے کی تاریخ رسم رواج اور کلچر برصغیر اور کشمیر سے بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ دوسری اہم بات اس علاقے پر پہلے پنجاب کے سکھ افواج نے حملہ کرکے بلتستان، آستور اور گلگت پر قبضہ کیا۔ بعد ازاں جموں کشمیر ریاست کا 1846 میں قیام عمل میں لایا گیا اور بلتستان استور اور گلگت کو بھی اس کا حصہ قرار دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب ایسٹ انڈیا نے رنجیت سنگھ کی افواج کو شکست دے کر اس کی سلطنت کا خاتمے کرکے جدید ریاست کشمیر کا قیام عمل میں لایا تو گلگت اور آستور میں مقیم خالصہ فوج اور اس کے جنرل نے اس نئی ریاست کشمیر کے لیے اپنی وفاداری پیش کی اور ان کے ملازم بن گئے اور خدمات انجام دینے لگے۔ بلاشبہ ان کو برٹش انڈیا کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ معاہدہ امرتسر میں صاف لکھا ہوا ہے کہ اس جدید ریاست کشمیر کی دفاع ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹس انڈیا کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح گلگت آستور اور بلتستان کے علاوہ دیگر علاقوں پر قبضہ کے لیے انگریز سرکار کی پشت پناہی اورمدد سے ڈوگرہ فوج نے جارحیت شروع کی۔ اور گوہر امان کی وفات کے بعد مکمل طور پر نہ صرف گلگت پر قبضہ کیا بلکہ چلاس دیامر سے چترال تک قبضہ کیا۔ ہنزہ نگر پر قبضہ کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن کشمیری فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بلا آخر کرنل آرنلڈ ڈورانڈ نے 1891 میں کشمیر کی افواج اور پونیال لیویز اور مقامی کچھ راجاؤں کی مدد سے خود ہنزہ نگر فتح کیا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان علاقوں میں خالصہ سرکار کی کوئی اراضیات یا خالصہ سرکار قانون موجود نہیں تھا کیونکہ، ہنزہ نگر، پونیال، دیامر، چترال کے علاقوں کو پنجاب کے سکھوں نے فتح نہیں کیا تھا بلکہ جموں کی ڈوگرہ فوج نے بڑٹش انڈیا کی مدد سے فتح کیا تھا۔ اس لئے موجودہ گلگت بلتستان پر انہوں نے دو طرح کی انتظامی حکومت قائم تھی۔ بلتستان اور استور پر براہ راست مہاراجہ کشمیر کی حکومت تھی باقی علاقے پر مہاراجہ کے علاوہ انگریز سرکار کی بھی حکومت تھی۔ گلگت ایجنسی میں وہ تمام علاقے شامل تھے جن کو ڈوگرہ فوج نے انگریز سرکار کے ساتھ مل کر قبضہ کیا تھا۔ اس لئے ان علاقوں کو گلگت ایجنسی کا نام دیا گیا اور یہاں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ تعینات کیا گیا۔ گلگت ایجنسی کا قیام 1877 میں عمل میں لایا گیا۔ کرنل ڈورانڈ نے اس کا تفصیلی ذکر اپنی کتاب دی میکنگ آف اے فرنٹیئر میں کیا ہے۔
ڈورانڈ نے ہی گلگت لیویز کو گلگت سکاوٹس کا نام دے کر از سر نو ان کو منظم کیا جو گلگت ایجنسی کی سرحدوں کے تحفظ کے ذمہ دار تھے اس لیے گلگت ایجنسی میں مہاراجہ کی فوج بہت ہی کم تھی۔ البتہ بلتستان، بونجی اور آستور میں مہاراجہ کے افواج قیام پذیر تھیں جن کی تعداد قلیل تھی۔جبکہ پوری ریاست کشمیر کا بیرونی حملے کی صورت میں دفاع تاج برطانیہ کی ذمہ داری تھی اس طرح گلگت ایجنسی کا دفاع بھی بڑٹش انڈیا کی ذمہ داری تھی۔ بعض برطانوی فوجی رپورٹس کے مطابق 1946–47 میں ریاست جموں و کشمیر فوج کی کل نفری تقریباً 29,000 تھی، جن میں سے تقریباً 9,000 متحرک اور باقی ریزرو یا نیم فوجی دستے تھے۔
یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مہاراجہ کی کل ریگولر فوج نو ہزار سے زائد نہ تھی۔ گلگت ایجنسی میں مہاراجہ کے چند سو فوجی تعینات تھے۔ کیونکہ اس علاقے کے دفاع کی ذمہ داری بڑٹش انڈیا کی تھی جنہوں نے گلگت سکاؤٹس کی شکل میں فوج تیار کی تھی۔
اس پس منظر میں یہاں دو طرح کا حکومتی نظام موجود تھا۔ بلتستان ریجن براہ راست مہاراجہ کشمیر کے زیر انتظام تھا جبکہ گلگت ایجنسی میں مہاراجہ کے علاوہ تاج برطانیہ کا مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ بھی ایک طرح کا حکمران تھا جو نہ صرف بیرونی جارحیت کے خلاف تحفظ اور دفاع کا ذمہ دار تھا بلکہ گلگت ایجنسی میں بغاوت کچلنے کی بھی ذمہ داری ان پر عائد تھی۔ مقامی راجاؤں کا کردار اہم تھا۔ وہ حکمران تو تھے لیکن آزاد حکمران نہ رہے تھے بلکہ انہوں نے برٹش انڈیا اور ڈوگرہ بادشاہ کی بیعت کی تھی۔ ان کو خراج دیتے تھے اور وفاداری کے بدلے میں ان کو وظیفہ ملتا تھا اور آج تک وہی مراعات اور پروٹوکول کے ساتھ وظیفہ مقرر ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہنزہ نگر اور غذر کے چند اہم حکمران گوہر امان، عذر خان اور ہنزہ کے میر صفدر علی خان کے بعد کے راجوں کو بڑٹش سرکار نے تعینات کیا تھا ۔
تاج برطانیہ نے اس علاقے کی سٹرٹجک اہمیت اور روسی جارحیت کے پیش نظر، پہلے گلگت ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہاں برٹش انڈیا کا نمائندہ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا بعدازاں 1917 کے روسی سوشلسٹ انقلاب کے پیش نظر 1935 میں برطانوی ہند نے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ سے گلگت ایجنسی لیز پر لیا جس سے 1935 کا گلگت لیز ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس طرح تاج برطانیہ نے مہاراجہ کشمیر کو نہ صرف بلتستان و آستور کا بلکہ پورے گلگت ایجنسی کا بھی قانونی حکمران تسلیم کیا۔ یہ لیز ایگریمنٹ 60 سال کے لئے تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم 1939 _45 ، کی وجہ سے تاج برطانیہ معاشی بحران کا شکار ہوا اور سمندر پار کالونیوں پر قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا اس لیے 1947 کا تقسیم ہند کا منصوبہ سامنے آیا اور 15 اگست 1947 کو برصغیر کے تقسیم کے نتیجے میں دو ریاستیں انڈیا اور پاکستان کا وجود عمل میں آیا ۔ اسی پس منظر میں تاج برطانیہ نے مدت مکمل ہونے سے قبل ہی گلگت لیز ایگریمنٹ ختم کیا اور گلگت ایجنسی مہاراجہ ہری سنگھ کے حوالے کیا اور انہوں نے اپنے کزن برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو گلگت ایجنسی کا گورنر مقرر کیا جس سے انقلاب گلگت کے دوران گرفتار کیا گیا ۔
تقسیم ہند کے منصوبے کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تاج برطانیہ نے شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ حق دیا تھا کہ وہ پاکستان انڈیا سے الحاق کریں یا اپنی علیحدہ حیثیت کو برقرار رکھیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ریاست جموں وکشمیر بشمول گلگت بلتستان کا حکمران ہری سنگھ تھا۔ انہوں نے دونوں ملکوں سے الحاق کرنے سے انکار کیا۔ جس کے بعد قبائلیوں نے 22 اکتوبر 1947 کو ریاست کشمیر پر حملہ کیا پھر انڈیا پاکستان میں کشمیر پر پہلی جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947 کو ریاست جموں و کشمیر کا الحاق انڈیا سے کیا، جس کو بنیاد بنا کر انڈیا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان پر آج بھی دعوی دار ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے مہاراجہ ہری سنگھ نے عوامی امنگوں کے خلاف انڈیا کے ساتھ دستاویز الحاق نامہ پر دستخط کیے تھے جس کے ردعمل میں گلگت بلتستان میں ڈوگرہ فوج کے خلاف بغاوت شروع ہوئی اور یکم نومبر 1947 کو ڈوگرہ حکومت بلکہ انڈین حکومت سے آزادی حاصل کی۔
۔قبائلی لشکر کشی کی تفصیلات جنرل فرمان نے اپنی کتاب دی رائٹرز ان کشمیر میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس حملے کے بعد ریاست جموں و کشمیر کئی حصوں میں بٹ گئی۔ 24 اکتوبر 1947کو پاکستان نے موجودہ پاکستان کے زیر انتظام 4 ہزار مربع میل پر مشتمل آزاد کشمیر کو ایک نمائندہ حکومت اور نیم خودمختار ملک کے تسلم کیا۔ جبکہ انڈیا نے ریاست جموں و کشمیر کا بقیہ 56 ہزار مربع میل پر قبضہ کیا جسے انڈین زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کہا جاتا ہے۔ جبکہ 28 ہزار مربع میل پر گلگت بلتستان مشتمل ہے جو 16 نومبر 1947 کے بعد سے پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ تاج برطانیہ کے زمانے میں گلگت ایجنسی کا دفاع گلگت سکاوٹس کی ذمہ داری تھی۔ 3 جون 1947 کے منصوبے کے تحت اگست 1947 میں برٹش انڈیا نے گلگت لیز ایگریمنٹ ختم کیا اور گلگت ایجنسی کو مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے دوبارہ حوالے کیا۔ کیونکہ بطور حکمران اس علاقے کا لیز انہی سے لیا گیا تھا۔ اور مہاراجہ نے برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو بطور گورنر گلگت ایجنسی مقرر کیا تھا۔
اسی اثنا میں 31 اکتوبر 1947 کو گلگت ایجنسی کے دفاع کی ذمہ دار گلگت سکاوٹس نے بغاوت کی اور مقامی لوگوں کی تائید سے گلگت میں تعینات ڈوگرہ گورنر برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا اور یکم نومبر کو آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا۔ اور ایک علیحدہ آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کا قیام عمل میں لایا گیا یہ آزاد حکومت اور ریاست محض 16 دن برقرار رہی۔ گلگت ایجنسی میں مہاراجہ کی فوج نہ ہونے کے برابر تھی اس لیے یہ انقلاب کامیاب ہوا۔ برگیڈیر گھنسارا سنگھ بعدازاں جنگی قیدیوں کے تبادلے میں انڈیا کے حوالے کیا گیا۔ گلگت کے بعد مقامی قیادت استور و بلتستان آزاد کرانے روانہ ہوئی۔ بقول کرنل حسن خان انہوں نے انقلابی کونسل کی میٹنگ میں پستول نکال کر شاہ ریئس خان کو پہلا صدر مقرر کرایا تھا۔
بقول ایف ایم عالم اسی دوران پیچھے سے میجر بروان نے حکومت پاکستان سے رابطہ کیا اور مدد مانگی جس کے نتیجے میں سردار محمد عالم 16 نومبر 1947 کو گلگت پہنچ گئے۔ یہ پہلا پاکستانی افسر تھا جس نے تقسیم ہند کے بعد پہلی بار گلگت میں قدم رکھا تھا اور بطور پولیٹیکل ایجنٹ یہاں کا انتظام سنبھال لیا ۔ اسی دوران اقوام متحدہ نے انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرائی۔
22 اکتوبر 1947کو ریاست کشمیر میں قبائلیوں کی لشکر کشی کے بعد حکومت پاکستان نے 24 اکتوبر 1947 کو موجود آزاد جموں و کشمیر کو بطور نمائندہ حکومت و ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی ملیٹری ایگریمنٹ سے دو ماہ قبل پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں کشمیر سے 28 اپریل 1949،کو معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول پاکستان نے حاصل کیا،اور گلگت بلتستان پر ایف سی ار کا قانون لاگو کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ معاہدہ کراچی میں گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا اور اسی دستاویز کے تحت تاحال یہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے جبکہ اقوام متحدہ کی کئی ایک قراردادیں پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پر پاکستان کے ڈی فیکٹو کنٹرول کو تسلیم کرتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کا اصل ہیرو کون ہیں ؟ کیا یہ انقلاب اچانک رونما ہوا تھا اور اس سے عوامی حمایت حاصل نہیں تھی ؟ کیا 1947 سے قبل گلگت بلتستان ہنزہ نگر غذر ،دیامر کے لوگوں نے سکھ اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف جدوجہد نہیں کی تھی؟ کیا 1947 کی جنگ آزادی کو تاریخی تناظر سے علیحدہ کر کے دیکھنا درست ہے؟ کیا یہ بیانیہ درست ہے کہ یکم نومبر 1947 کو جنگ آزادی کا اعلان پورے گلگت بلتستان پر لاگو ہوتا ہے؟ کیا ہمارے آباواجدا نے یہ جنگ محض ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے لڑی تھی یا ان کے پاس گلگت سکاوٹس جیسی برطانوی تربیت یافتہ فوج کا اسلحہ موجود تھا؟ اور گلگت ایجنسی کے علاوہ بونجی، استور اور بلتستان میں مہاراجہ کی فوج کی کل تعداد کتنی تھی؟ کیا مہاراجہ کی فوج کشمیر میں قبائلیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے موقع سے فائدہ اٹھا کر گلگت سکاوٹس نے مقامی لوگوں کے تعاون سے بغاوت کی تھی؟ کیا جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ہیرو میجر بروان تھا یا پھر کرنل حسن خان، بابر خان، شاہ خان، صفی اللہ بیگ ،فدا علی ،فیض امان، شاہ سلطان ، شیر علی یا پھر گلگت سکاوٹس کے سپاہی امیر حیات جیسے دیگر سپاہی تھے جنہوں نے جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا؟
ان سوالات کا جواب اس مضمون کی قسط سوئم میں قارئین کے لیے پیش کیا جائے گا۔




