کالمز
این ایف سی ایوارڑ اور جی بی کی کنفیوز سیاسی قیادت

ہمارے قومی سیاسی مزاج کی ایک نہایت افسوسناک مگر مستقل حقیقت ہے کہ اگر کوئی سیاسی قائد اجتماعی مفاد کی بات کرے تو اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے بجائے محض اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی مخالف ہے۔ یوں قومی مفاد، جماعتی تعصب اور ذاتی انا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، اور نقصان صرف ایک فرد یا جماعت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان کو این ایف سی ایوارڈ میں شامل کرنے کا معاملہ بھی اسی سیاسی تنگ نظری کی ایک واضح مثال ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اپنے دورِ حکومت میں اس مقصد کے لیے سنجیدہ اور مسلسل کوششیں کیں، مگر بدقسمتی سے اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی مخالفت کے باعث یہ کوششیں بارآور نہ ہو سکیں۔ چونکہ آئینی طور پر این ایف سی ایوارڈ میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا متفق ہونا لازم ہے، اس لیے یہ اہم قومی مطالبہ سرد خانے کی نذر ہو گیا۔
اس کے بعد طویل عرصے تک این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ اب جبکہ ایک مرتبہ پھر وفاقی سطح پر این ایف سی ایوارڈ میں ترمیم اور نئے ایوارڈ کے اجرا کی بات ہو رہی ہے اور اس ضمن میں اجلاس بھی بلائے جا رہے ہیں، تو حافظ حفیظ الرحمن نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دوبارہ آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے میاں محمد نواز شریف جیسی قومی قیادت کو اس امر پر قائل کیا کہ گلگت بلتستان کو این ایف سی ایوارڈ میں شامل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پر پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی قیادت نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ عین انتخابات کے موسم میں مسلم لیگ (ن) این ایف سی ایوارڈ کی بات کیوں کر رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کئی برسوں بعد وفاقی سطح پر این ایف سی ایوارڈ کے اجرا پر سنجیدگی سے غور شروع ہوا ہے۔ ایسے میں اگر گلگت بلتستان کے لیے حقِ شراکت کی آواز بلند کی جا رہی ہے تو اسے انتخابی نعرہ نہیں بلکہ قومی ذمہ داری سمجھا جانا چاہیے۔
یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ این ایف سی ایوارڈ گلگت بلتستان کی معاشی خود کفالت کے لیے کس قدر ناگزیر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں شمولیت کے بعد وفاق سے بار بار گرانٹس کی التجاؤں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو ارب روپے سے زائد رقم گلگت بلتستان کے حصے میں آ سکتی ہے، جس سے یہاں کی حکومت اپنی ترجیحات اور ضروریات کے مطابق آزادانہ طور پر بجٹ ترتیب دے سکے گی۔
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ سیاست اور معیشت کے طالب علموں میں بھی این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے خاطر خواہ آگاہی موجود نہیں۔ این ایف سی (قومی مالیاتی کمیشن) ایوارڈ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 160 کے تحت قائم ایک آئینی نظام ہے، جس کا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔ اس ایوارڈ کا اجرا صدرِ پاکستان کرتے ہیں اور اس پر عمل درآمد وفاق اور صوبوں کے باہمی اتفاقِ رائے سے ہوتا ہے۔
اگر پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی قیادت اس بات سے نالاں ہے کہ یہ آواز مسلم لیگ (ن) اور حافظ حفیظ الرحمن نے کیوں اٹھائی ہے، تو انہیں چاہیے کہ محض اعتراضات کی سیاست کرنے کے بجائے اپنی وفاقی قیادت، خصوصاً سندھ حکومت، کو قائل کریں کہ وہ گلگت بلتستان کے جائز حق کی مخالفت ترک کرے۔
یہ اعتراض بھی سامنے آتا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے بغیر این ایف سی ایوارڈ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ آئینِ پاکستان کے بعض آرٹیکلز میں مناسب ترمیم کے ذریعے یہ راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت اٹھائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کا فیصلہ کر چکی ہے۔ حافظ حفیظ الرحمن اپنی قیادت کو آمادہ کر چکے ہیں، اب پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے رہنماؤں، خصوصاً امجد حسین صاحب، پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی قیادت کو اس قومی معاملے پر آمادہ کریں۔
یہ مسئلہ کسی ایک جماعت یا فرد کا نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی آنے والی نسلوں کے معاشی اور سیاسی مستقبل کا سوال ہے۔ اسے سیاسی انا اور جماعتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے۔
گلگت بلتستان کے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس اہم قومی مسئلے پر کردار ادا کرنے والوں کی حمایت کریں اور محض مخالفت برائے مخالفت کرنے والوں کا جمہوری محاسبہ کریں۔




