وادی ہنزہ کے اس پار تلک (سفرنامہ)
تحریر ڈاکٹر عبد اللہ شاہ ہاشمی
لاہور میں سورج سوا نیزے پر آیا ہوا تھا اور 49 درجے سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں جہاں ہر مسام سے پسینہ رس رہا تھا وہاں انگ انگ حسین وادیوں کے حسیں نظاروں کے لئے مچل رہا تھا ۔یہ آرزو ہر سال دل میں جنم لیتی ہے اور موسم گل میں بے ثمر بھی نہیں رہتی البتہ کبھی شوگران تک اور کبھی کالام یا راولا کوٹ تک کو مکرر دیکھ کر پوری ہو جاتی ہے۔اب کے موسم کی شدت نے ذوق سفر کو مہمیز دی تو سوچا کہ ہم سفر اچھا ہو تو سفرکامزہ دو آتشہ ہو جائے گا۔ چنانچہ وقار ملک سے رابطہ کیا۔ ملک صاحب نہ صرف سیر و سیاحت کے رسیا ہیں بلکہ دیکھنے کی چیز کو بار بار دیکھنے کے قائل ہیں۔وہ شاہراہ قراقرم پر درہ خنجراب تک سفر کی ڈاکومینٹری ایک معروف ٹی وی چینل سے پیش کر چکے ہیں اور آج کل ’’سفر ہے شرط‘‘ کے ہی نام سے سیاحوں کوسہولیات مہیا کر رہے ہیں۔ذوق و شوق اور پیشہ یک ہو جائیں تو نشہ بڑھ جاتا ہے۔
ہم رات گیارہ بجے لاہور سے نکلے ۔ملک صاحب حسین فطرت کے دلدادہ ہونے کے علاوہ مختلف النوع موضوعات کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں بلکہ کسی موضوع پر بند نہیں ۔وہ مختلف موضوعات پر بے تکان بولتے گئے اور میں ایک اچھے سامع کی طرح سنتا چلا گیا۔ علم، مطالعہ اور دانش یک جا ہوں تو بندے کی گفتگو میں چاشنی پیدا ہو جاتی ہے البتہ بعض اوقات افکار و نظریات تیزی سے بدلنے لگتے ہیں۔ جی ٹی روڈپر رات کا سفر زیادہ خوشگوار تو نہیں ہوتا البتہ ملک صاحب کی خوش گفتاری سے وقت کی رفتار کا اندازہ نہ ہوا اور یہ بھی کہ
گفتگو اچھی لگی ، ذوق نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
تین بجے ہم راولپنڈی میں پشاور روڈ پر ایک بنگلے پر دستک دے رہے تھے۔ ملک اعتبار صاحب نے شریک سفر ہونا تھا ۔وہ بھاری بھر کم شخصیت کے مالک ہیں۔ذوق مطالعہ رکھتے اور مطالعہ فطرت کے کے رسیا ، گلیشئر پیمائی ان کا اضافی شوق ہے۔ گلیشئر دیکھ کر ان کی طبعیت مچل جاتی ہے۔وہاں کچھ دیر رکنے کے بعد ہم دوبارہ جی ٹی روڈ پر تھے۔ ٹیکسلا سے ہری پور کی طرف مڑے تو صبح کے آثار نظر آنے لگے۔ ذرا آگے بڑھے تو سفر کا پہلا خوب صورت منظر اچانک سامنے آگیا۔سورج ابھی مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے تھا اور خان پور لیک کا دلکش نظارہ سامنے۔ایک کشتی سطح آب پر تیر رہی تھی اور پرندے ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔حسن بیان سے بالا یہ منظر اس قدر پیارا تھا کہ ہم کھو سے گئے ۔البتہ مجھے جوش ملیح آبادی کا شعر یاد آیا
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لئے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
اب جو چلے تو روشنی میں مناظر تیزی سے بدلنے لگے ۔ثبات کی بجائے تغیر میں حسن پنہاں ہوتا ہے۔ ماحول میں حسن نکھر رہا تھا۔ وقار صاحب اب اپنی معلومات اور تجربات سے ہمیں مطلع کر رہے تھے۔ شاہراہ قراقرم تاریخ اور جغرافیہ اور آپ بیتی ۔جب یہ شاہراہ کاغذوں میں تھی تو دنیا بھر کے انجینئر اسے ناممکن قرار دے رہے تھے۔گویا ان کے خیال میں اسے بنانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا اور بن جائے تو اسے رواں دواں رکھنا تصور سے باہر ۔انسان جنوں سے بڑھ کر ہے ۔پاکستانی اور چینی ماہرین نے ایک ہزار ساتھیوں کی قربانی دے کر نقشہ ایشیا میں حیرت کدہ لا کھڑا کیا۔تیرہ سو کلومیٹر طویل یہ شاہراہ حسن ابدال سے شروع ہو کر ، بل کھاتی ،لہراتی ، انسانوں سے خراج لیتی چین میں کاشغر تک چلی جاتی ہے ۔اسے شاہراہ دوستی اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں ۔
کوہستان میں ہم شاہراہ پر ایک آبشار کے پاس رک گئے ۔پہاڑ کی چوٹی سے اترتی یہ آبشار کئی منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں ایک مقامی آدمی سے گفتگو رہی، ذرائع آمدن کم اور تعلیم اس سے بھی کم۔ترقی توتعلیم کے دروازے سے اِن ہوتی ہے ۔حالات و واقعات کے تجزیے کے بغیر نتائج پر بحث بیکار ۔ہم برائی اور جہالت کی جڑیں کاٹے بغیر اچھے نتائج کی توقع کرتے ہیں۔ وقار بتا رہے تھے کہ شاہراہ سے پہلے بعض جگہیں ایسی تھیں جن کی چوڑائی صرف ڈیڑھ فٹ تھی اور صرف انسان ہی اس سلک روٹ سے گزرتا تھا۔اب یہ چین پاکستان کے درمیان تجارتی شاہراہ ہے جس پر سینکڑوں ٹرک چلتے ہیں اور شمالی علاقہ جات سیاحوں کی جنت ہیں۔سائیکلسٹ مر دعورتیں بھی برفانی چوٹیوں کے دامن چھو لیتے ہیں اور جھیلوں اور گلیشئیرز کے مناظر سے بھی لطف اٹھاتے ہیں۔9/11 سے پہلے یہاں خاصا رش رہتا تھا ۔اب یہ سلسلہ ذرا کم ہو گیا ہے۔البتہ چینی اور جاپانی سیاح آتے جاتے رہتے ہیں۔
حسن ابدال سے درہ خنجراب تک جگہ جگہ خوب صورت ریستوران موجود ہیں۔ وقار ملک صاحب ٹھہرے سدا کے مسافر ۔ سو ہر جگہ ان کی جان پہچان ہے۔ شاہراہ قراقرم پر بشام ، چلاس ، گلگت ، پری بنگلہ، نگر ، علی آباد، گل مت، پاسو اور سوست بڑے قصبے ہیں۔گلگت تو بلتستان کا صدر مقام اور تجارتی مرکز بھی ہے۔ ہمارا پہلا قیام بشام میں تھا ۔موسم اچھا ، کھانا لذیذ اور ہم سفر خوش گفتار ۔۔۔ تکان کا نام و نشان نہ تھا۔ حالانکہ ہم اٹھارہ گھنٹے سے مسلسل سفر میں تھے۔ البتہ چائے کے لئے جگہ جگہ رک جاتے رہے۔ پوری وادی میں لوگ مہمان نواز اور خوش اخلاق ۔حتی کہ پولیس والے بھی بڑی محبت اور خلوص سے جائے پلاتے ہیں۔آپ چائے پی رہے ہوں تو کوئی خاموشی سے خوبانیوں کی پلیٹ رکھ جائے گا۔تکبر ، غرور اور نخوت سے پاک۔روپیا پیسا عام ہونے کے باوجود سادگی ، تصنع سے پاک۔ سمر (Sumar) سے گزرہے تھے کہ ایک خوبصورت منظر دیکھ کر دل اٹک گیا۔فرازِ کوہ سے آتی ندی چاندنی اگل رہی تھی۔دونوں طرف ریستوران ۔آگے کیسے جاتے۔ چلاس سے ایک رستہ بابو سر ٹاپ اور ناران پھرجھیل سیف الملوک کو جاتا ہے ۔شاہراہ قراقرم تو دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے ہی ۔گلگت سے ذرا پہلے ایک اور عجوبہ نظر آتا ہے۔ یہاں تین بلند ترین پہاڑی سلسلے (کوہ قراقرم ، کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش) ہزاروں سال سے سرجوڑے کھڑے ہیں۔یوں تو گلگت اور سکردو تک ہوائی سروس بھی ہے مگر ہوائی سفر سے جانے والے مسافر ان مناظر سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔اعتبار صاحب سلسلہ کوہ قراقرم پر چڑھے اور آگے بڑھنے لگے اور اسے سر کرنا چاہا۔بڑی مشکل سے انہیں یقین دلایا کہ یہ آپ کے جذبہ کوہ پیمائی کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ کل راکاپوشی یا کوہ التر کے دامن میں جائیں گے اور کسی پہاڑ نے چیلنج کیا تو چڑھ دوڑیں گے۔
رات 10 بجے کے قریب ہم کریم آباد میں ایک بین الاقوامی معیار کے ہوٹل میں پہنچے توخاصی ٹھنڈ تھی۔یہاں وقار ملک صاحب نے رہبر کی زبان میں ’’ہم بچوں ‘‘ کو اچھے استاد کی طرح پہاڑوں کی دنیا اور مقامی کلچر کے بارے میں کئی ہدایات اور کچھ معلومات دیں اور کچھ آداب سے آگاہ کیا اور پھر کھانے کے بعد وادی ہنزہ میں ہم نیند کی وادی میں چلے گئے۔ صبح جاگ ہوٹل کی بالکونی سے تین اطراف میں مناظر جو دیکھے تو یہ دل پر نقش ہو گئے۔راکا پوشی (25,551فٹ) پر دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی جاری تھی۔ ناشتے کے بعد کوہ التر کا دامن چھونے چل پڑے۔بازار کھل گئے تھے۔خوبانی ، اخروٹ اور چیری کے پھل دار درخت شہر کے اندر بھی سلامت تھے۔ جوں جوں آگے بڑھے بلندی بڑھتی گئی ۔پہاڑ بڑا اور دور ہوتا گیا۔دراصل پہاڑ اور انسان میں فرق یہ ہے کہ پہاڑ دور سے چھوٹے اور قریب سے بڑے لگتے ہیں اور انسان دور سے بڑے اور قریب سے چھوٹے ۔رستے میں قلعہ بلتت نے دامن کھینچا تو ہم نے غنیمت سمجھا ۔یہ ذرا بلندی پر ہے ۔سانس پھولتی ہے کسی زمانے میں ہنزہ کے حکمران یہاں رہتے تھے۔ قلعہ روہتاس یا شاہی قلہ لاہور سے اس کا تقابل مناسب نہیں ۔البتہ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اب اس میں کوئی حکمران رہائش پذیر نہیں۔اسے میوزیم بنا دیا گیا ہے اوردیکھنے سے ہنزہ کی تہذیب ،تاریخ اور معاشرت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ گائیڈ بڑا ذہین اور سمجھدار تھا۔اُس نے ایک گھنٹے میں قلعہ کی مختلف منازل طہ کرائیں اور سیاحوں کو بیش بہا معلو مات دیں۔ایک ایک چیز اور ایک ایک منظر سے کما حقہ روشناس کرایا۔سارا کلچر اور تاریخ سامنے لا کھڑی کی۔ یہ قلعہ ذرا بلندی پر ہے اس لئے تھوڑی سی ہایکنگ بھی ہو جاتی ہے۔
کریم آباد وادی ہنزہ کا دل ہے اور وادی ۹۰ کلو میٹر کی لمبائی میں دریائے ہنزہ کے شمال مغربی کنارے پر واقع ہے۔ سر سبز و شاداب وادی بلند پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں میں گھری ہے۔ہر چوٹی بیس ہزار فٹ سے بلند۔۔۔ چاندنی رات میں راکا پوشی اور بلمو تن (لیڈی فنگر) کے مناظر بڑے پُر فریب اور دلکش ہوتے ہیں۔واری ہنزہ کے لوگ نہایت خوبصورت، مہذب اورمرنجا مرنج ہیں۔ اگرچہ ۱۱/۹ سے پہلے یہاں مدتوں غیر ملکی سیاحوں اور کوہ پیماؤں کا رش رہا ہے اور ان کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ مگر صدیوں کے روایت پرست معاشرے نے ایک خاص کلچر پروان چڑھایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں کے ۹۵ فیصدشرح خواندگی نے قوت برداشت کو سہارا دیا ہے۔ لوگ علوم و فنون میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وقار ملک کے لیکچرز میں مرد و زن کی کثیر تعداد شامل تھی۔ رات جاپانیوں کے لیے ہوٹل میں رقص و موسیقی کا پروگرام تھا۔ مقامی آبادی کے کلچر اور جاپانیوں کے ذوق کو جانچنے کا اچھا موقع تھا۔ ہوٹلوں میں سیاحوں کے لیے ملٹی کلچر پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ التت سے ذرا آگے دوئی کار کابلند و بالا مقام سیاحوں کے لیے کشش رکھتا ہے۔ سیاح سورج کے طلوع و غروب کے پُر فریب مناظِر دیکھنے آتے ہیں اور چودھویں کے چاند کو بھی۔
جس روز ہم عطاآباد جھیل پہنچے تو اتفاق سے زیادہ رش تھا۔ عطا آباد تو پہلے آباد تھا جون ۲۰۱۰ ء میں یہاں پہاڑ آلتی پالتی مار کر دریا میں بیٹھ گیا جس کے نتیجے میں ۲۷ کلو میٹر لمبی جھیل وجود میں آ گئی اور شاہراہِ قراقرم کا ایک حصہ تباہ ہو گیا۔ وادی گوجل میں جانی و مالی نقصان بھی ہوا۔۔۔ جھیل کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے میلوں پھیلی زمردیں جھیل ہے ۔ ۳۰۰ فٹ گہری اور ۱۸ کلو میٹر لمبی جھیل میں ہم بوٹنگ کرتے جا رہے تھے۔ دونوں جانب بلند اور رنگ برنگے پہاڑ۔۔۔ ہم گل مت پہنچے ۔ یہ وادی گوجل کا اہم حصہ ہے۔ یہاں گلیشیر پہاڑوں سے اتر کر دریا کے کنارے تک چلے آتے ہیں۔اعتبار صاحب گلیشیر شناس قرار پائے اگر گلیشیر سڑک سے ذرا بلندی پر ہوتا تو ملک صاحب اسے ضرور چیلنج کرتے’’ہت تیرے کی۔۔۔ذرا نیچے اُتر‘‘۔ مارکو پولو ٹورسٹ اِن کے منتظم اعلیٰ کا حسنِ سلوک نہایت اچھا تھا۔ صحن چمن میں لگی چیری نہایت خوش ذائقہ تھی۔ گل مت ہی میں الامین ماڈل سکول دیکھنے اور اس کے پرنسپل سے ملاقات کا موقع ملا۔ قالینوں کا کارخانہ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔ اس وادی میں جو تہذیبی رچاؤ ہے وہ قدم قدم پر متاثر کرتا ہے۔
گل مت سے صبح سویرے ہوٹل کی گاڑی میں خنجراب کے لیے روانہ ہوئے۔ ایک کٹھن سفر مگر دل موہ لینے والے مناظر کے سفر کا آغاز۔۔۔ دریا وں کے کنارے، پہاڑوں کے درمیان بلندیوں کی طرف سفر جاری رہا۔ شاہراہِ قراقرم کے دونوں طرف چٹانوں اور پتھروں کے ہزاروں رنگ ہیں۔ لیکن پَسُو کے پاس یہ سورج کے ساتھ ساتھ رنگ اور شیڈ بدلتے ہیں۔ پَسُو میں ایک پہاڑی کے چوٹی پر خوبصورت ریستوران ہے۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب، ماسٹر حقیقت اور دیگر پڑھے لکھے افراد اسی کو ٹی ہاؤس بناتے تھے۔ سوست میں ڈرائی پورٹ ہے۔ اس کے آگے مسلسل بلندیوں کا سفر جاری رہتا ہے۔ ان بلندیوں پر برفانی ریچھ اور تیندوے کے علاوہ مار خور، مار موڈاور یاک پائے جاتے ہیں۔ یاک پالتو ہے۔ مارخور دیکھنے کی حسرت ہی رہی البتہ یاک اور مارموڈ کافی نظر آئے۔ درہ خنجراب لگ بھگ سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ یورپ کی بلند ترین برفانی چوٹیوں کی بلندی سولہ ہزار فٹ ہے جبکہ شاہراہِ قراقرم اتنی ہی بلندی پر سے خنجراب سے گزر کر چین میں داخل ہوتی ہے۔ ہم خنجراب پہنچے تو برف باری ہو رہی تھی درجہ حرارت منفی دو درجے تھا۔ ہم لاہور سے چلے تھے تو اُس روز درجہ حرارت ۴۹ درجے سینٹی گریڈ تھا اور ہفتے بعد ہم جون میں برف باری سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ شاہراہِ قراقرم اور وادی ہنزہ کا سفر اس قدر دلکش ہے اور تہذیبی رویے اس قدر پُر کشش ہیں کہ جو ایک دفعہ آ گیا وہ پُکار اُٹھتا ہے
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھو
سو آرزوئیں پوری ہوں ۔موسم اور قدرت مہربان ہو مگر دل کے نہاں خانے میں کوئی نہ کوئی حسرت رہ جاتی ہے۔ دریائے ہنزہ کے اس پار نگر ویلی ہے۔ ہنزہ کے متوازی دریا کے دو کناروں کی طرح نہ ملنے والی ۔خیال تھا وہاں رہتے، پڑھے لکھے لوگوں سے ملتے ۔راکا پوشی کے دامن کو چھو آتے۔گلگت میں صحافیوں سے ملتے اہل نظر اور اہل دانش سے گفتگو ہوتی مگر موسم گل میں شاخ دل بے ثمر رہی ۔ مسافر آخر مسافر ہے ۔ ایک دن تو اسے لوٹ ہی جانا ہوتا ہے سو ہم بھی یہ حسرت لئے لوٹ آئے۔