گلگت،مذہبی ہم آہنگی پر ورکشاپ
انٹرنیشنل اسلامک سینٹر لاہور بین المذاہب و بین المسالک اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے ایک معروف ادارہ ہے۔اس کو تمام مکاتب فکر کے جید علماء کا اعتماد حاصل ہے۔ برادرم حافظ نعمان حامد اس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں، انتہائی نرم دل اور معاملہ فہم شخص ہیں۔ انہوں نے گلگت بلتستان میں ایک انتہائی اہم ورکشاپ منعقد کرنے کے لیے راقم الحروف سے رابطہ کیا۔ورکشاپ کا عنوان تھا\”Intra/Inter-faith Dialogue and Conflict Resolution Skills\”۔ یہ محرم الحرام سے قبل کی بات ہے۔میں نے ان سے عرض کیا کہ گلگت بلتستان میں محرم الحرام کو حالات کشیدہ ہوتے ہیں، لہذا آپ اپنے پروگرام کو بعدِمحرم ترتیب دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوئی خاص مذہبی پروگرام یا کسی ایک مسلک کے لوگوں کا پروگرام نہیں کرنا چاہتے، بلکہ تمام مکاتب فکر کے جید علماء پر مشتمل ایک ورکشاپ کے انعقاد کا خیال ہے ، ہمارا پروگرام کوئی جلسہ نہیں بلکہ ایک مشترکہ ورکشاپ ہوگا جس میں مسلم کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہونگے۔اور ہم تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار لوگوں کے ساتھ غیرمسلموں بالخصوص عیسائیوں کو بھی دعوت دے کر اکٹھا کرکے ،ساتھ ڈائیلاگ کروانا چاہتے ہیں اور ہمارے ایک مہمان غیرمسلم بھی ہونگے۔ مجھے ان کی طرف سے یہ تفصیلی وضاحت سن کر بڑی خوشی ہوئی تاہم پھر بھی میں نے اصرار کرکے محرم الحرام کے بجائے صفر کے آغاز میں ورکشاپ کے انعقاد کا کہا، جو انہوں نے مان لیا۔یوں 26اور27نومبر کو پروگرام منعقد کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا اور انہوں نے دعوت نامے اور پروگرام شیڈول ای میل کیااور یہاں گلگت سے ڈیزائن کرواکر پرنٹ نکلوایا ۔ اب میری ذمہ داری یہ تھی کہ تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے رابطہ کروں اور ورکشاپ کے پہلے روز کے لیے مہمانوں کا انتخاب بھی کروں اور انہیں دعوت بھی دوں۔ حافظ نعمان کایہ بھی اصرار تھا کہ اگر وزراء اور ارکان اسمبلی پروگرام میں شامل ہوں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اللہ کے فضل سے بہت ہی قلیل وقت میں ان کی تمام ڈیمانڈز کو پورا کیا اور محترم وزیربیگ، اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی، محترم سیدسرورشاہ صاحب، ممبر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی و امیر جمیعت علمائے اسلام گلگت بلتستان، اسماعیلی ریجنل کونسل کے صدر کرنل عبیداللہ بیگ صاحب، محقق و دانشور جناب شیر باز علی برچہ صاحب اور جناب شیخ مرزاعلی صاحب جیسے مشہور شخصیات سے رابطہ کرکے انہیں ورکشاپ کی نوعیت و افادیت بتلا دی تو تمام بزرگوں نے کمال محبت سے اپنی آمد و شرکت کو یقینی بنانے کی یقین دھانی کرادی۔پھر ورکشاپ کے شرکاء میں سے بھی ایسے جید اور دانشور ور قسم کے احباب کو مدعو کیا کہ وہ مکمل دو دن پورے دے سکیں اور پروگرام کے اثرات و افادیت کو بعدازیں عام سوسائٹی میں فروغ بھی دیں۔ ان میں الواعظین بھی تھے ، شیوخ بھی اور علماء و مفتیان کرام بھی، صحافی بھی تھے پروفیسرز بھی، ادیب بھی تھے شعراء بھی، اور نوجوان طلبہ بھی۔یوں پچاس کے قریب احباب نے شرکت کی۔
ورکشاپ کے منتظمین دو دن پہلے ہی گلگت پہنچ چکے تھے۔برادرم حافظ نعمان اور مولانا یاسین ظفر صاحب(ناظم اعلی وفاق المدارس السلفیہ پاکستان، پرنسپل جامعہ سلفیہ فیصل آباد) نے گلگت آمد کی اطلاع کی، انہوں نے ورکشاپ کی تیاریوں کا جائزہ لیا اور اطمینان کا اظہار کیا۔ گلگت اورمضافات کا چکر لگایا۔ حضرت قاضی صاحب نے ان کے گھومنے پھرنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور ساتھیوں کا انتظام کیا۔انہوں نے گلگت دیکھا اور گلگت کے قدرتی حسن سے بہت متاثر ہوئے اور اس کا اظہار بار بار کرتے رہے۔
ورکشاپ اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوا۔ شرکاء وقت پر سرینہ ہوٹل پہنچ گئے۔ ابتدائی تعارف ہوا، پروگرام کے اغراض و مقاصد اورآپس میں اعتماد کی بحالی کے حوالے سے مختصر گفتگوہوئی۔ اس کے بعد ٹی بریک ہوا۔ دن گیارہ بجے سے دو بجے تک مولانا یاسین ظفر اور حافظ نعمان نے مختصر خطاب کیا اور اس کے بعد گلگت بلتستان کے معزز مہمانوں نے مذاہب میں ہم آہنگی اور رواداری اور کامیاب معاشرتی زندگی کے اصولوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔برادرم زینت شاہ(PDCN) نے بھی اسماعیلی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے مہمانوں کو ویلکم کہا اور مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے مثالوں سے بھر پور مزین گفتگو کی۔شیعہ علماء کونسل کے رہنماء شیخ مرزا حسین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ قیام امن کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ حالات کن اسباب و علل کی وجہ سے بگڑتے ہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسباب و علل میں پڑے بغیر امن و امان اور مذہبی رواداری کے لیے میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔ ان کے بعد جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کے امیر و ممبر لیجسلیٹیو اسمبلی گلگت بلتستان مولانا سرور شاہ نے تفصیلی خطاب کیا۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیت’’ اخرجت للناس‘‘ کا مفہوم تمام تر تفصیلات کے ساتھ بیان کیا اور کہا کہ قرآن نے بھی لفظ’’الناس‘‘ یعنی انسانیت پر زور دیا ہے۔ قرآن کا آفاقی مضمون انسانیت کی بھلائی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ جب تک اسباب و علل کو جانچا نہیں جائے گا اور ان بنیادی خرابیوں کو دور نہیں کیا جاتا تب تک رواداری اور امن و امان کی بحالی ناممکن ہے۔ جب ایک ڈاکٹر مریض کو دیکھتا ہے تو سب سے پہلے مریض کے خون، پیشاب وغیرہ کا مختلف لبیارٹریوں میں کئی ٹیسٹ کرواتا ہے۔ تب مرض تشخیص ہوتی ہے تو دوا دیتا ہے۔ہمیں بھی ان تمام اسباب کو تلاش کرنا ہوگا جن کی وجہ سے قتل و غارت اور ظلم و ستم کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اس محفل کے چیف گیسٹ جناب وزیر بیگ صاحب اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی تھے۔ انہوں نے بھی بہت ہی خوبصورت باتیں کی۔ تمام شرکاء اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور راقم الحروف کا نام لے کر کئی بار شکریہ ادا کیا۔ اس ورکشاپ کی افادیت کو سراہا اور منتظمین سے گزارش کی کہ آئندہ بھی ایسے ورکشاپ کا انعقاد کیا جائے تاکہ مذہبی ہم آہنگی کو بہتر طریقے سے فروغ دیا جاسکے۔مسائل کو تعلیم و تعلم اور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے پرزور دیا۔ورکشاپ کے منتظمین نے اسلام آباد سے کنیڈین ڈپٹی ہائی کمشنر جناب مسٹر برناڈ مکفیل کو بھی مدعو کیا تھا۔ مسٹر برناڈ ورکشاپ کے شروع سے آخر تک دلجمعی کے ساتھ شریک رہے۔ انہوں نے انگلش میں معززمہمانوں کا شکریہ ادا کیا، ترجمانی کے فرائض جناب سید عبدالحمید نے انجام دیے جو اسلام آباد سفارت خانے سے خصوصی طور پر آئے تھے۔ عبدالحمیدصاحب بہت ملنسار اور نفیس انسان ہیں۔ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے ہیں۔مسٹر برنارڈ نے کنیڈا کی مختصر تاریخ بیان کی اور خصوصی طور پر کہا کہ امن و امان اور مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے کنیڈا پوری دنیا میں ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ ایک واقعہ بھی سنایا کہ ایک دفعہ کنیڈا کی کسی مسجد کی دیوار پر کسی نے کوئی نازیبا نعرہ لکھ دیا۔ کنیڈین شہریوں نے جب دیکھا تو خود سیڑھیاں اور دیگر رنگ وروغن کا بندوبست کرکے ان نعروں کو مٹایا اور مسلمانوں سے کہا کہ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے ہم کنیڈا کے شہری اس پر معذرت کرتے ہیں۔ اور ایسی قبیح حرکت کرنے والے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ مسٹر برنارڈ نے گلگت کے مناظر کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ دنیا میں بہت کم خطے ایسے ہیں جو اتنی فطری خوبصورتی سے مالامال ہیں۔
نوے منٹ پر مشتمل یہ سیشن ختم ہوا، کھانے اور نماز کے بعد آخری مختصر سیشن شروع ہوا۔اس میں تمام شرکاء کو ایک مختصر ٹاپک دیا گیا کہ’’ فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب و علل کیا ہیں۔شرکاء کے چار گروپ بنائے گئے اور انہیں باہمی مذاکرہ سے اسباب و علل تحریری بیان کرنے کو کہا گیا۔ہر گروپ کا ایک لیڈر بنایا گیا۔ مختصر وقت میں شرکاء نے فرقہ وارانہ فسادات کی بہترین وجوہات پیش کی۔ ان کا خلاصہ یوں ہے۔انصاف کی عدم فراہمی، جاہلانہ رسومات اور ان پر سختی سے عمل کرنا، قانون کی عملداری میں سست روی،حب جاہ و حب مال، عصبیت،عدم برداشت، اسلامی تعلیمات کی روح سے دوری، سماجی، سیاسی اور مذہبی اداروں کی مجرموں کی پشت پناہی،مقدس شخصیات کی توہین ، گالیوں پر مشتمل فحش مذہبی لٹریچر، دوسرے کے مذہب، مسلک اور کلچر میں مداخلت کی کوشش،افہام و تفہیم کی کمی، جنریشن گیپ ،اخلاقی تربیت کی کمی،اور تعصب، نفرت، حسد، ضد، کینہ ، بغض، عداوت اور مذہب کی غلط تشریح ، لوڈ اسپیکر کا ناجائز استعمال وغیرہ عناصر و اسباب وعلل قرار پائے۔ملٹی میڈیا کے ذریعے مختلف تحریروں، اقوال ، نقشوں اور گرافس کے ذریعے مثالیں دے کر عنوان کی افادیت، و اہمیت اور مذہبی کشیدگی سے ہونی والی نقصانات ، معاشرے پر اثرانداز ہونے والے مثبت اور منفی اثرات کو سمجھایا گیا۔
ورکشاپ کا دوسرا دن بھی بہت ہی خوشگوار رہا۔ ابتداء میں ہی’’ بین المذاہب وبین المسالک مکالمہ اور حل تنازعات‘‘ \”Intra/Inter-faith Dialogue and Conflict Resolution Skills\”
کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اس بحث میں تمام شرکاء نے دل کھول کر حصہ لیا۔ مجادلہ، مناظرہ ، مباہلہ اور مکالمہ پر دلائل و براہین پرمشتمل گفت وشنید ہوئی۔ ہر شریک نے آزادنہ طور پر ڈائیلاگ میں حصہ لیا۔ اور اس کے بعد ٹی بریک ہوا۔ اگلا سیشن بھی کمال کا تھا۔ جس میں اقوام متحدہ کا منظور کردہ انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ،پر برادرم نعمان نے ایک لمبی پریزنٹیشن دی اور پھر ہر ہر شق کو انگلش اور اردو ترجمے کے ساتھ پڑھ کر سنایا۔ ملٹی میڈیا کی سہولت موجود تھی جس کی وجہ سے شرکاء باسانی خود بھی پڑھ رہے تھے۔ اس چارٹر کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ بھی لیاگیا۔ شرکاء کی بڑی تعداد نے اس چارٹر کے بعض شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا۔ اور دل کھول کر جو کہنا تھا کہہ لیا۔ یہ بتانا بھول ہی گیا کہ اس ورکشاپ کے اصولوں میں سے یہ بھی طے تھا کہ اپنی بات بلاکسی ہچکچاہٹ اور شرماہٹ کے بلاکم وکاست عرض کی جائے اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھپایا جائے یا دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی جائے۔ یعنی انداز جارحانہ نہیں تھا اور نہ ہی مباہلانہ و مناظرانہ بلکہ مکالمانہ تھا جس کو تمام شرکاء نے سراہا۔
اسی سیشن میں خطبہ حجۃ الوداع کا عربی متن اور اردو ترجمہ بھی دیکھنے کو ملا۔ ایک ایک شق پڑھ کرسنایا اور اسکرین پر دکھایا گیا۔ اور کائنات کے نبی جناب محمد ﷺ کے سنہرے الفاظ دل کو موم اور دماغ کو متاثر کررہے تھے۔ اور میرے ساتھ بیٹھاکنیڈین ڈپٹی ہائی کمشنر بھی بہت ہی محظوظ ہورہا تھا خطبہ حجۃ الوداع کے مفاہیم سن کر۔ سچ یہ ہے کہ یہ خطبہ انسانی حقوق کا ایک آفاقی چارٹر ہے۔کاش ہم مسلمان اس کو ہی سمجھتے اور عمل کرتے۔ اور ایک بات پر تمام شرکاءِ ورکشاپ نے صاد کیا کہ 1948ء میں مرتب کیے جانے والے انسانی حقوق کے چارٹر سے بدرجہ بہتر وہ خطبہ ہے جو آنحضرت نے چودہ سول سال پہلے دیا تھا۔ واقفان حال نے یہ بھی کہا کہ یہ چارٹر تو اس خطبہ کی کاپی نظرآتی ہے۔ بس لفظ اسلام اور محمد کو ہٹا کر اپنی مرضی کی چند ترامیم کرکے اسے انسانی حقوق کا چارٹر قرار دیا گیا ہے۔اس تفصیلی سیشن کی تمام گفتگو یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں ۔ ورنہ سچ یہ ہے کہ بہت ساری غلط فہمیاں ان دونوں چارٹروں کے مطالعہ و جائزہ اور تقابل کے بعد ختم ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ٹی بریک ہوا۔ جس میں پہلے روز کی طرح ایک ایکٹیوٹی دی گئی۔
آج کا عنوان تھا کہ ’’فرقہ وارانہ فسادات کی معاشرے پر اثرات اور خاتمے کے لیے تجاویز‘‘۔ پہلے دن اسباب وعلل پر غور و خوض کیاگیا تھا اور آج اثرات کا جائزہ لیا جارہا تھا۔اور تجاویز دی جارہی تھی۔ ہر گروپ ہوٹل کی کرسیوں میں سر جوڑے بیٹھا تھا اور چاہ نوشی کے ساتھ اپنی دانست کے مطابق اپنے لیڈر کواثرات و تجاویز لکھو رہا تھا۔ ان سب کی نگرانی اور لکھا ہو ا اسٹیج پر پڑھ کر سنانے کے لیے تیار کرنے اور بلانے کی ذمہ داری ناچیز کی تھی۔ آج بھی بہت اچھی باتیں ہوئی کہ کس طرح فرقہ وارانہ فسادات سے معاشرتی زندگی تباہ و برباد ہوتی ہے اور خاتمہ کے لیے خوب تجاویز بھی سامنے آئیں۔ تجاویز کا خلاصہ یہ ہے۔ اپنی مذہبی و مسلکی عبادات و اعتقادات دوسروں پر زبردستی نہ ٹھونکی جائیں۔ دوسروں کا عقیدہ اس کے مذہبی رہنماؤں سے جانیں ،اور اپنا عقیدہ خود بیان کریں۔ دوسروں کی مقدس شخصیات کا احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ باہمی مشترکات پر زور دیا جائے۔عدل و انصاف اور عقائد کا احترام یقینی بنایا جائے۔ روزگار کے مواقع ہر ایک کے لیے یکساں میسر ہوں۔ کرپشن نہ ہو، دینی تعلیمات کی تشریح و توضیح مزاج کے مطابق نہ ہو، ہو بہو دینی تعلیمات نسل نو تک منتقل کیے جائیں۔کسی کی عزت نفس مجروح نہ کیا جائے۔مذہبی رسوم اور عبادات، طور طریقے اور اعمال معبد خانوں تک محدود کیے جائیں۔ دوسروں کے گھر میں جھانکنے کی روش سے گریز کیا جائے۔
مثبت اثرات کا خلاصہ یہ ہے۔معاشرے میں امن وامان اور آشتی عام ہوگی۔ ہر انسان آزادی کے ساتھ اپنے عبادات انجام دے گا۔اور تصادم پیدا نہ ہوگا۔غلط فہمیاں دور ہونگیں، افہام و تفہیم کی فضاء قائم ہوگی۔ بہت سے معاملات مل بیٹھ کر حل کرنے کا موقع ملے گا۔کسی کے جذبات مجروح نہیں ہونگے،معاشرے کی ترقی میں ہر ایک کا حصہ ہوگا۔ ظلم ختم ہوگا۔ میرٹ بحال ہوگا۔ تعلیم عام ہوگی، جہالت کا خاتمہ ہوگا۔ورکشاپ کے آخر میں ایک اعلامیہ’’امن برائے انسانیت‘‘ پڑھ کر سنایا گیا اور تمام شرکاء نے مکمل تائید کی۔اس کا متن یہ ہے۔
o ہم تمام، جو اس اعلامیہ کے دستخط کنندگان ہیں، انسانیت، معاشروں اور اقوام کو امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں اور تمام لوگوں کوآپس میں محبت، اخوت، عظمت، تحریم و تکریم اور باہم عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں۔
o اگرچہ ہم مختلف مذاہب، عقائد، ثقافت اور معاشروں میں اختلافات پاتے ہیں، تاہم، ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ تمام لوگوں کو بے شمار حقوق اور اقدار حاصل ہیں جنہیں تمام مذاہب اور عقائد میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
o تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں، تاکہ وہ انسانیت کے ناطے امن اور باہمی ہم آہنگی کے ساتھ مل کر رہ سکیں۔
o ہم دہشت گردی کو کھلم کھلا طور پر مسترد کرتے ہیں((مذمت کرتے ہیں)، کیونکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ معصوم لوگوں کے تقدس کا احترام کیا جائے۔
o ہم واضح طور پر اسلام کے نام پر کی جانے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں، نہ صرف یہ بلکہ ہم اسلام اور دیگر تمام مذاہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کی نہ صرف مخالفت کرتے ہیں، بلکہ کھلم کھلا طور پر مذمت کرتے ہیں۔
o جہاں تک پر تشدد کارروائیوں کا تعلق ہے، تمام ممالک کی حکومتوں کو ان کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ہم آج اکٹھے اس لیے کھڑے ہیں کہ تمام مسائل کا پرامن حل تعلیم اور مذاکرات کے ذریعے ممکن بنائیں۔
o ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انسانی حقوق، بنیادی آزادیوں، مرد اور عورت کے درمیان عدل و مساوات، صلح، عفو درگزر، کشادہ دلی اور یکجہتی جیسی اعلی انسانی قدروں کو فروغ دیا جائے۔
o ہم مشترکہ طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام انسان برابر ہیں اور سب کے ساتھ یکساں عزت و احترام، حلیمی برد باری، انصاف اور یکجہتی کے ساتھ پیش آ یا جائے، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔
o ہم تمام مغربی حکومتوں اور مسلمانوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ معاشرتی وحدت کو فروغ دیں، کیونکہ وحدت اور پر امن بقائے باہمی کے حصول کا یہی ایک راستہ ہے۔
o ہم دنیا کی تمام حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ نفرت، تشدد، مذہبی عدم رواداری اور قومیت پرستی کے خلاف اپنی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کریں۔
o ہم دنیا کی جملہ حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ غربت و افلاس کے انسداد، جہالت کے خلاف جنگ، ہتھیاروں کی دوڑ اور قدرتی ماحول کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی جدوجہد تیز تر کر یں۔
بہر صورت دو دن پر مشتمل اس ورکشاپ پر ہر مکتبہ فکر کے ذمہ دار لوگوں نے شرکت کی اور اپنے خیالات، احساسات، جذبات بلاکم وکاست بلا خوف و خطر بیان کیے۔اختتام پروگرام میں کنیڈا کے ڈپٹی کمشنر مسٹر برناڈ نے تمام شرکاء کا خصوصی شکریہ ادا کیا او ر سید عبدالحمید نے ترجمانی کے فرائض ادا کیے۔ راقم الحروف نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور منتظمین و مہمانوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور انہیں دعوت دی کہ آئندہ بھی ایسے پروگراموں کا انعقاد یقینی بنایا جائے تاکہ ہمیں مثبت فوائد حاصل ہوں اور مل بیٹھ کر اپنے مسائل سلجھانے کا موقع ملے۔