کالمز

محرم الحرام اور واقعۂ کربلا

تحریر:نزار فرمان علی

” (اے محمدؐ )کہہ دو میری صلوٰۃ،میرے مراسم عبودیت ، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کیلئے ہے”(القرآن)

محرّم مسلمانوں کے ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کے لغوی معنی وہ چیز جو ممنوع ہے۔عرب قدیم میں ان مقدس مہینوں میں شمار ہوتا تھا جن میں جنگ و جدل بند کر دی جاتی تھی اور لڑنا حرام سمجھا جاتا تھا اسی لئے لغوی معنوں کے اعتبار سے اسی مہینے کا نام ہی محرم ہو گیا۔ اسکے معنی تعظیم کیا گیا، عزت کیا ہوا کے ہیں اسے غم کا عرصہ بھی کہا گیا ہے ،عام الفیل کا مشہور واقعہ جس میں ابرہہ ہاتھیوں کے بڑے لشکر کے ذریعے خانہ کعبہ کو نقصان پہنچانے آ رہا تھا اور رب العزت کے حکم سے اسے شکست اور ذلت نصیب ہوئی۔آپؐ کی حدیث کے مطابق اس مہینے کی ۱۰ تاریخ کو اسلام سے پہلے کے مذاہب میں بھی مقدس مانا جاتا تھابعض انبیا ء سے وابستہ تاریخی واقعات اس مہینے کی ۱۰ تاریخ کو پیش آئے مثلاً حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ کی مغفرت ، حضرت نوحؑ کا طوفان، حضرت یونس ؑ کا مچھلی کے پیٹ سے نجات پانا وغیرہ۔یہودی ۱۰ محرم کو با قاعدہ روزے کا اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے اسی دن نجات ملی تھی۔ آنحضرت ؐ بھی رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے ۱۰ محرم کے روزے کا اہتمام فرماتے تھے۔محرم کا مہینہ مسلمانوں میں ایک اہم تاریخی واقعہ کربلا کی وجہ سے معروف ہوا ہے ۔

Karbalaمستند تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کربلا(کربلائے مُعلّیٰ)عراق کا ایک مشہور شہر جو حضرت امام حسینؑ ، حضرت عباس، اور کئی عاشقان صادق کے مزاروں اور واقعہ عاشورہ کی وجہ سے زیارت گاہ و مرکز عقیدت ہے ۔ قدیم تاریخ میں کربلا کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ہے مثلاً غاضرِیّہ، نینویٰ(حائر کے جنوب مشرق میں ایک قریہ )۔ماہرینِ آثار قدیمہ گزشتہ ہزار سالہ تاریخ اور نام و نشان کے حوالے سے بیان کرتے ہیں "کربلا کور بابل ہے یعنی بابل کا قریہ۔کربلا اشوری نام ہے جو "کرب”و” ایلا ” سے مرکب ہے اور اس کے معنی ہیں ” حرّم اللہ” ۔کربلا مشرق سے جنوب تک پھیلے ہوئے ٹیلوں کا نام ہے اور اسی مناسبت سے اس آبادی کو کربلا کہا گیا ہے۔ ماہرین زبان و ادب اور مشہور روایت کے مطابق اس کی وجہ تسمیہ اس طرح ہے "کربلا پاؤوں کی نرم روئی کو کہتے ہیں ۔ یہ زمین چونکہ نرم و کشادہ تھی اس لئے کربلا نام پڑا، کُربلتِ الحِنطَۃگیہوں چھانے اور پھٹکے گئے ۔ عہد بنوت میں امام حسینؑ کی شہادت کا تذکرہ اور آنحضرت ﷺ کا خاک کربلا ملاحظہ فرمانا اور اسے سونگھنا ، نیز کربلا کی مٹی کا ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کو بطورامانت دینا۔ ایک اور اہم روایت میں بیان ہوتا ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ مقام کربلا سے گزرتے ہوئے ایک جگہ رکے ،نماز پڑھی اور فرمایا "یہاں ان کے اونٹ بیٹھیں گے، یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کے خون بہائے جائیں گے۔ آلِ محمدؐکے کچھ جوانمرد شہید ہوں گے اوران پر زمین و آسمان روئیں گے(الصواعق المحرقہ)چنانچہ محرم ۶۱ ہجری کی دوسری تاریخ کو امام ؑ اپنے خاندان اور دوستداروں کے ساتھ کربلا میں خیمہ زن ہوئے اور ۱۰ محرم ۶۱ ہجری کو اپنے اقرباء و جانثاروں (جن کی تعداد ۷۲ )کے ساتھ ( اس زمین میں)جام شہادت نوش فرمایا۔ 

حضرت امام حسینؑ کی شہادت میدان کربلا میں تاریخی روایات کے مطابق ۱۰ محرم ۶۱ ہجری کو ہوئی ۔محرم الحرام کے آتے ہی اہل اسلام کے چہرے سنجیدہ اور دل رنجیدہ ہو جاتے ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ نبی کریمؐ کے آنکھوں کی ٹھنڈک، حضر ت علی مرتضیٰ ؑ کے فرزند ارجمند اور جگر گوشہ حضرت فاطمہ بتولؑ ، حضرت امام حسین ؑ کو کربلا کے میدان میں یزیدی لشکر نے شہید کر ڈالا تھا۔

قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد 

آنحضرت محمد ﷺ کی اپنے نواسوں (حسنین کریمین) سے والہانہ محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ دوران نماز حالت سجدہ میں ہوتے تو معصوم نواسے آپ ﷺ کی پیٹھ مبارک پر بیٹھ جاتے اور آپ ﷺ سجدے کو اس وقت تک طول دیتے جب تک کہ وہ نہ اُتر جاتے سبحان اللہ۔ایک مرتبہ آنحضور ﷺ حسنین (حسن ؑ و حسین )ؑ کو کندھے پر بٹھائے کہیں جارہے تھے کہ راستے میں اصحابؓ ملے اور مسرت سے عرض کیا ’’سواری کتنی اچھی ہے‘‘۔حبیب خدا نے فرط محبت سے فرمایا ’’دیکھو تو صحیح سوار بھی کتنا اچھا ہے‘‘آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایامیرے دونوں نواسے جوانان جنت کے سردار ہیںآپﷺ اکثر فرماتے تھے ’’ جو ان سے (حسنؑ وحسینؑ ) سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے نفرت کرتا ہے وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے‘‘امام حسین ؑ کی عظمت و بزرگی کے حوالے سے آپﷺ کا ارشاد پاک ہے’’حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں‘‘۔یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ امام حسین ؑ رسول پاکﷺ کی آل سے ہے لیکن میں حسین ؑ سے ہوں کی عملی تفسیر معرکہ کربلا میں دین مصطفی ﷺ کو درپیش خطرات کاڈٹ کر مقابلہ کرکے ساری دنیا پرعیاں کردیا۔حضرت امام حسین ؑ نے میدان کربلا میں یزیدی لشکر کی عددی و عسکری پوزیشن کی پرواہ کئے بغیر اسلامی دستور و شعائر اللہ کے تحفظ کیلئے جس جرات،شجاعت،جوانمردی اور قوت ایمانی سے اپنے خاندان و احباب کی قربانی پیش کی وہ قیامت تک اہل اسلام میں باطل کا مقابلہ کرنے کی جرأت پیدا کرتی رہے گی۔آپﷺاگر اپنا ہاتھ دیتے تو دنیاوی لحاظ سے سب کچھ آپ کے قدموں میں رکھ دیا جاتا مثلاً خاندان واحباب کاتحفظ یقینی اور بے پناہ مادی دولت ،عہدے،مراعات وغیرہ،مگر اس صورت میں اہل ایمان کا کیا ہوتا ؟۔لہٰذا آپ ؑ نے اپنے مشفق نانا نبی کامل حضرت محمدﷺ کی اشاعت اسلام کی 23 سالہ کاوشوں، خلفائے راشدین اور اہل بیت اطہار کی قربانیوں اور رہتی دنیا تک اسلام کے حقیقی پیغام کو انسانی دخل اندازی سے مکمل طور پر شفاف رکھنے کیلئے اپنا سر تو دے دیا مگر اپنا ہاتھ(بیعت) نہ دیا۔آپؑ اورمحبان حق نے اپنے پاکیزہ خون سے شجر اسلام کی جو آبیاری کی اس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے خواجہ معین چشتی نے فرمایا:۔

شاہ است حسینؑ بادشاہ است حسینؑ
دین است حسین دین پناہ است حسینؑ
سر داد نہ داد ست در د ست یزید
حقا کہ بِنا لا الہ ٰ است حسینؑ 

اگرچہ کربلا کے میدان میں امام حسین ؑ اور آپ کے متعدد ساتھی شہید ہوگئے اور یزیدی فوج کو بظاہر جیت ملی مگر آپ کی شہادت نے حکومت وقت پر وہ ضرب لگائی کہ واقعہ کربلا کے بعد ایک دن بھی چین و امان نصیب نہیں ہوا، مکہ میں عبداللہ بن زبیر نے خلافت کا دعویٰ کیا اور مدینہ میں عبداللہ بن حنظلہ نے خروج کیا یہاں تک کہ 64ھ میں یزید کی موت اور65ھ میں معایہ بن یزید کی دستبرداری کے بعد یزید کے خاندان کی حکومت ختم ہوگئی اور آل مروان نے بھاگ دوڑ سنبھالا۔

امام عالیمقام ؑ نے لا اکرہ فی الدین کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنا اور بزرگ خاندان کا واسطہ دیا اور نہ ہی زور زبردستی کرکے لوگوں کو اپنا ہمرکاب کیا۔اس طرح آپؑ نے قیامت تک ایک روشن مثال قائم کی کہ اسباب جلا کر لوگوں کو جبراً شہادت پر مجبور کرنا اور بات ہے جبکہ چراغ گل کرکے لوگوں کو ابدی نجات بخشنا الگ حقیقت ہے۔اس جہاد اکبر کا مقصد فرد کو فرد کی غلامی سے آزادی دلا کر جیتے جی اللہ اور اس کے پیارے نبی ﷺ کی اتباع و محبت کے دار السّلام میں داخل کرکے ہر قسم کے غم اور خوف سے دائمی چھٹکاراتھا۔مرکز گریز قوتوں نے اپنے عارضی ، وقتی اور سفلی آدرشوں کی تکمیل کیلئے دین حق کے غیر متبدل اصولوں اور عالمگیر انسانی اقدار کو ٹھکرا دیا وہ اسوۂ رسولﷺ ، خلافت راشدہ کے منشور اور اہل بیت کی مودت کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کو الوہیت سے ملوکیت کی طرف ،علم دوستی سے جہل و کورباطنی کی سمت،اخلاص ،یگانگت و عرفان الٰہی سے قساوت، منافقت اور دورنگی کی طرف، حق پرستی سے اناء پرستی، ہٹ دھرمی و انتقامی روش اپنائے ہوئے تھے جس کے آگے کلمہ حق کا علم بلند نہ کیا جاتا تو خدا نخواستہ دین مبین اپنی اصل شکل میں برقرار نہ رہ پاتا۔ تائید ایزدی سے امام عالیمقامؑ نے اپنی جان مطہر کی قربانی دے کر روح اسلام کو منفی قوتوں سے ہمیشہ کیلئے تحفظ عطاء کردیا اور گلشنِ نبی کریمﷺ کی اپنے اور جان نثار ساتھیوں کے لہو سے ایسی آبیاری کی کہ انشاء اللہ قیامت تک خزاں جہل و غفلت کا قریب سے گزر بھی نہیں ہوگا۔چنانچہ راہ خداوندی میں حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ؑ زبیح اللہ نے درس ایثار و قربانی کی جو عظیم الشان مثال قائم کی تھی اسی طرح حضرت امام حسین ؑ اور آپ کے دوستداروں نے اس عظیم الشان سماوی تصور فدا کاری و جانثاری کو اوج کمال تک پہنچا دیا۔سبحان اللہ

یقیناًآپ ؑ کی ذاتِ گرامی اسلامی گفتار و کردار کا ایک لازول جیتا جاگتا نمونہ ہے حضرت امام حسین ؑ فرماتے ہیں کہ’’ہتھیاروں سے جنگ تو جیتی جاسکتی ہے مگر دلوں کو نہیں جیتا جاسکتا، دل تو کردار سے جیتے جاتے ہیں۔‘‘

آئیں ہم سب اس موقع پر بارگاہِ ایزدی میں عہد کریں کہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا اصول بناتے ہوئے نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں گے اور بدی کے کاموں کو روکنے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں گے ہم اللہ پاک کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے رنگ ،نسل ،ذات ،خاندان، علاقہ اور مسلک سے بالاتر ہوکر ملک و ملت کی ترقی کیلئے بے غرض اور بے لوث خدمات انجام دیں گے اور حبل اللہ(اللہ کی رسی)کو ایمان اور علم و عمل سے تھامے دنیا و آقبت میں کامیابی و کامرانی حاصل کریں گے۔آمین یارب العالمین۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button