کالمز

کیا صوبائی حکومت گرداب میں پھنسی ہے؟

گزشتہ دنوں جیو نیوز میں طلعت حسین کے پروگرام "نیا ء پاکستان” میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الر حمن نے کہا ہے کہ "ہم کشمیر کا نہیں مسلہ کشمیر کا حصہ ہیں۔ ہم نے کھبی گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دلانے کا وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ وزیر اعظم پاکستان نے گلگت بلتستان کے دورے کے دوران گلگت بلتستان کے حقوق کے تعین کے لئے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ کمیٹی گلگت بلتستان میں ہماری حکومت بننے کے بعد بنائی گئی ہے جو کہ گلگت بلتستان کے حقوق کے تعین کے لئے ممکنہ حل پر غور کر رہی ہے۔ایسی کسی کمیٹی میں پہلی دفعہ گلگت بلتستان کو نمائندگی دی گئی ہے اور یہ اپنی نوعیت کی پہلی کمیٹی ہے جو تمام حقائق کی روشنی میں گلگت بلتستان کے مسلے پر غور کر رہی ہے۔ مگر حقوق کی فراہمی کے دوران ہم پاکستان کا کشمیر کے حوالے سے تاریخی موقف کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ہم وفاق کو نقصان دینے والے کسی آپشن کا مطالبہ کھبی نہیں کر یں گے "

اسی طرح وزیر اعلیٰ نے ڈان نیوز میں اپنے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ” گلگت بلتستان کے تما م علاقے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ نہیں ہیں ۔ صرف بلتستان کے موجودہ چار اضلاع ،استوراور گلگت آزادی سے قبل مہا راجہ کشمیر کی زیر نگرانی ریا ست کشمیر کا حصہ تھے۔ جبکہ ہنزہ ،نگر، غذر اور دیامر آزاد ریا ستیں تھیں جن کے حکمرانو ں نے آزادی کے بعد پاکستان سے بلا مشروط باضابطہ الحاق کیا تھا۔”

اس سے قبل وزیر اعلیٰ نے سلیم صافی کا پروگرام ” جر گہ” میں بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ "کشمیر کا ز کے لئے ہماری بڑی قر بانیاں ہیں ہم کشمیر پر پاکستان کے موقف کو کھبی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔”

وزیر اعلیٰ نے انہی دنوں یہ بھی کہا ہے کہ” گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں طالبان موجود ہیں اور سرحدی علاقوں میں داعش کی سر گر میاں بھی تشویش کا باعث ہیں”۔

وزیر اعلیٰ کی مذکورہ باتوں سے لگتاہے کہ وہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا مکمل آئینی صوبہ بنانے اور کشمیر کے مسلے سے گلگت بلتستان کو الگ کر نے کے حق میں نہیں ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ مسلہ کشمیر پر پاکستان کے مو قف کو نقصان پہنچا ئے بغیر گلگت بلتستان کو ایسا کوئی سیٹ اپ دیا جائے جو پی پی پی کے گذشتہ دور میں دئیے گئے سیٹ اپ سے زرا مختلف ہو اور گلگت بلتستان کے لوگ پی پی پی کے پیکیج کو بھول کر (ن) لیگ کے نئے پیکیج کو سراہانے پر مجبور ہو جائیں۔ تاکہ (ن)لیگ کے بارے میں لوگوں کایہ تاثر ختم ہو جائے کہ وہ گلگت بلتستان کو حقوق دینے میں سنجیدہ نہیں ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پی پی پی جب بھی مر کز میں حکومت میں ہوتی ہے وہ گلگت بلتستان میں کوئی نہ کوئی اصلاحاتی سیٹ اپ دیتی رہی ہے۔

اس سوچ کی بنیاد پر گلگت بلتستان کے مسلے کا موجودہ جو پنڈورا بکس کھولا گیا ہے اس میں جلتی پر تیل ڈالنے کا کام اِس وقت آزاد کشمیر کی قیادت کر رہی ہے۔ کشمیری سیاسی قیادت نے صاف کہہ دیا ہے کہ وفاق نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی غلطی کی تو اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ایسا کوئی بھی اقدام کشمیرکاز کے لئے جانوں کی قر بانیاں دینے والے ہزاروں لوگوں کے خون سے غداری کے مترادف ہوگا اور اس کے خلاف سخت مزاحمت کی جائے گی۔

دوسری طرف ڈان نیوز کو دئیے گئے وزیر اعلیٰ کے انٹر ویو میں کی گئی ایک اہم بات کی جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر مولانا عبدلسمیع نے عین موقع پر نشاندہی کر کے بلتستان اور استور کے عوام کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب ان علاقوں سے وزیر اعلیٰ کے خلاف سخت بیانات دئیے جارہے ہیں ۔ بلتستان سے ان کی اپنی جماعت کے لوگ بھی سخت بیانات داغ رہے ہیں اور ان کاکہنا ہے کہ بلتستان کو الگ کرنے کی حماقت کی گئی تو اتنا خطر ناک رد عمل ہوگا کہ حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو جائیں گی۔

اس پر مستزاد یہ کہ گلگت بلتستان کی ٹھیکیدار برادری کی طرف سے شروع کیا گیا اینٹی ٹیکس موومنٹ کا جادو اس وقت سر چڑ ھ کے بولنے لگا ہے ۔ 14 جنوری کی کامیاب ہڑتال کے بعد اب ٹھکیدار برادری 28 جنوری 2016 ؁ء کو ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ جس کی حمایت تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں کر رہی ہیں ۔اس دوران ماضی میں گندم سبسڈی کی بحالی کے لئے بنایا گیا مشہورِزمانہ عوامی اتحاد یعنی عوامی ایکشن کمیٹی مولانا سلطان رئیس کی قیادت میں میدان میں کود پڑی ہے۔

حکومت کی پریشانی کے لئے یہ سارا کچھ کم نہ تھا ایسے میں قائد ملت جعفریہ آغا راحت حسین الحسینی نے آغاضیاء الدین مر حوم کی گیارویں برسی کی تقریب سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ آئینی حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت ہے ۔ انہوں نے حقوق کے حصول کے لئے منظم تحریک چلانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام اپنے تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہو کر حقوق کے لئے تحریک چلانے کی تیاری کریں۔

مذکورہ صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی بہت منظم انداز میں اپنی تنظیم سازی کے علاوہ حکومت کی پریشانیوں میں اضافے کے لئے کئی آپشنز پر غور کر رہی ہے اور اس سلسلے میں پارٹی کی نو منتخب قیادت مسلسل اجلاسوں میں مصروف ہے ۔

حکومت کے لئے درپیش مذکورہ تمام مصیبتوں کو بات چیت کے زریعے حل کرنے کی بظاہر حکومتی سطح پر کو ئی تیا ری مجھے نظر نہیں آرہی ہے۔ وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں اپنے کافی مدتی قیام کے بعد بیرون ملک دورے پر گئے ہیں جبکہ وزراء اور ممبران اسمبلی کی اکثریت اسلام آباد میں مقیم ہے ۔جہاں پر سینئر وزیر اکبر تابان کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد کر کے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ تمام لوگ سردی سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ ضروری کام سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ادھر وزیر اعلیٰ کے مختلف ٹی وی چینلوں کو دئیے گئے انٹرویز کے اقتباسات ان کے اصل پیرائے سے ہٹ کر یہاں ان کے مخالفین ان کے خلاف مہم کے طورپر استعمال کر رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں جنوری کے مہنے میں گلگت بلتستان کا سیاسی درجہ حرارت تیزی سے گرمی کہ طرف بڑھ رہا ہے۔

گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو ابھی محض ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا ہے ایسے میں ایک ساتھ اتنی مصیبوتوں کو دعوت دینے سے ظا ہر ہوتا ہے کہ گذشتہ حکومت کی طرح اس حکومت کی مجموعی ٹیم سیاسی طور پر اتنی تجربہ کار نہیں ہے۔ اور حکومتی ٹیم میں مشاورت کا عمل بھی ناپید نظر آتا ہے ۔وگرنہ ٹیکس سمت آئینی حقوق کا پنڈورا بکس ایک ساتھ کھولنے کا جواز نہیں بنتا تھا۔ ٹی وی چینلوں کے چالاک اینکر پسر سنز کے سامنے تاریخی امور پر بات چیت کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ تاریخ ہمیشہ متنازعہ ہوتی ہے۔ تاریخ وہ مضمون ہے جس پر اتفاق رائے نہیں پائی جاتی ہے۔آ پ جب بھی تاریخ پر بات کر یں گے اس کے جواب میں مخالف رائے سامنے آئے گی۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے حقوق کا پنڈورا بکس کھولنے سے پہلے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس مسلے میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ یہاں کی سول ساسائٹی کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جبکہ کشمیر کے دونوں اطراف کی سیاسی قیادت گلگت بلتستان کو پاکستان کا مکمل صوبہ کسی صورت دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کی طرف سے اقوام متحد میں اس مسلے پر گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کشمکش چل رہی ہے۔ ایسے میں اس مسلے پرمیڈیا اور عوامی سطح پر بات کرتے وقت ہمیشہ احتیاط لازمی ہوتی ہے ۔ کیونکہ کسی اقدام سے قبل متنازعہ بات عوام کو تقسیم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کو چاہیے کہ وہ حقوق سے لیکر ٹیکس کے ایشو تک تمام امور کا از سر نو جائزہ لیں اور بات چیت کا راستہ اپنا لیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات کا یہ کہنا کہ لوگ جو بھی کریں ہم ٹیکس کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مشرف کی زیر نگرانی گلگت بلتستان کی اُس وقت کی حکومت کا حصہ رہے ہیں جب بات چیت کو کم اہمیت دی جاتی تھی ۔ ان کا وہ حکومتی تجربہ آج کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ جمہوریت میں ہر مسلے کا حل بات چیت سے نکالا جاتا ہے۔

وزیر اعلیٰ کا ان دنوں نیشنل میڈیا پر کسی بھی اہم مسلے پر انٹرویو دینے سے پہلے اس کے ممکنہ اثرات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ میڈیا پر کی جانے والی بات کے ہمیشہ مثبت اثرات نہیں ہوتے ہیں اس کے منفی اثرات بھی نکل آتے ہیں۔ اور آج کل نیشنل الیکٹرانک میڈیا پر بات کرنے کی مثال کمان سے تیر نکلنے کے مترادف ہے جو ایک دفعہ نکلی تو واپس نہیں آتی اور نہ ہی لائیو پروگرام میں ایڈیٹنگ کی گنجائش ہوتی ہے۔ جب تک وزیر اعلیٰ اسلام آباد کم عرصے کے لئے قیام کرتے تھے تب تک معاملات ٹھیک چل رہے تھے اس دفعہ طویل قیام اور میڈیا کے ساتھ بات چیت کے خبت نے ان کے لئے سیاسی مشکلات کا آغاز کر دیا ہے ۔ میڈیا میں بات کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ کام پر تو جہ دیں کیونکہ آپ کا کام جب بولنے لگے گا تو میڈیا آپ کی غیر مو جودگی میں بھی آپ ہی کی بات کرے گا۔ لگتا ایسا ہے اِن دنوں صوبائی حکومت گراب میں بری طرح پھنس گئی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال سے نکلنے کے لئے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کیا حکمت عملی اپناتی ہے؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button