کالمز

کردار حاکموں کا ہوا داغدار اور۔۔۔۔۔۔۔۔ٹمپرنگ

تحریر: ایمان شاہ

‘درجہ بالا وجوہات سیریل نمبر1تا22کی تحقیقات کے بعد کمیٹی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ خالصہ سرکار رقبہ جات کو چند بددیانت اہلکار ان کے ذریعے سے جعل سازی اور ٹمپرنگ کرکے مملکت خداداد پاکستان کو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ موضع متذکرہ بالا کے سابقہ جمعہ بندی و جدید ریکارڈ کے فیلڈ بک جلد پنجم کو ریکارڈ سے اٹھایا گیا، اس لئے کمیٹی یہ سفارش کررہی ہے کہ درجہ بالا سیریل نمبر1تا22کو کالعدم قرار دیاجاکر اس وقت کے بددیانت اہلکاروں کا تعین کیا جاکر قرار واقعی سزاء دی جائے تو مناسب ہوگا۔۔۔۔۔

نقل شجرہ نسب کتھونی لف ہذا ہیں۔

اس چشم کشاء رپورٹ پر کمیٹی کے چیئرمین اسسٹنٹ کمشنر گلگت (اب ڈپٹی کمشنر نگر) نائب تحصیلدار ریکارڈ علی عباس۔۔۔۔ ڈی کے (DK)محمد ابراہیم۔۔۔۔۔ محمد عباس حلقہ گرداور۔۔۔۔۔ حاجی محمد اکبر خان آفس قانونگو۔۔۔۔فاروق احمد پٹواری حلقہ مناور۔۔۔ اور۔۔۔ ذاکر حسین پٹواری حلقہ جوٹیال کے دستخط موجود ہیں۔

مورخہ30جون کو چھٹینمبرDK-(16)/3436-43کے ذریعے اسسٹنٹ کمشنر گلگت (موجودہ ڈپٹی کمشنر نگر) کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔۔۔۔ انکوائری کمیشن نے مورخہ15جولائی2016ء کو ڈپٹی کمشنر گلگت آفس میں اپنی رپورٹ نمبرSDK-6(10)-mguioy3183/2016جمع کرادی ہے جس میں تقریباً400کنال زمین کی الائمنٹ میں ٹمپرنگ اور ہیراپھیری کو ثابت کرتے ہوئے محکمہ مال کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی سفارش کی گئی۔۔۔۔۔۔’

انکوائری کمیشن نے رپورٹ کا آغاز اس طرح کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

مقرر کمیٹی نے تحقیقات، ریکارڈ مال، پرت پٹوار، پرت سرکار، انتقالات، جمعہ بندی جدید، بندوبست2001ء اور کتھونی کی مدد سے ریکارڈ موضع مناور کا جائزہ لیا، اور مکمل تحقیقات کیا، جس سے عیاں ہوتا ہے کہ موضع مناور کے جدید ریکارڈ سال2001ء میں تکمیل کے بعد جعلسازی کرکے پرت سرکار میں نئے اوراق چسپاں کئے ہیں اور بعض رقبہ جات پر قلم زنی/ ٹمپرنگ کی گئی ہے جبکہ پرت، پٹوار اور کتھونی میں ٹمپرنگ اور جعل سازی صاف دکھائی دے رہی ہے، جو کہ ریکارڈ داخل ہونے کے بعد کسی بددیانت، کرپٹ اور جعل ساز اہلکاران کے ذریعے سے ریکارڈ مال کو مشکوک اور جعلی بنانے کی کوشش کی ہے، جس کا ثبوت ازروئے بندوبست، جمعہ بندی، مثل حقیقت کے سرورق پر ہر کیھوٹ دار اور مالکان اراضی کا شجرہ نسب مرتب کیا جاتا ہے اور اس شجرہ نسب کے ساتھ کیھوٹ نمبر اور تعداد رقبہ درج ہوا کرتا ہے جوکہ درج ہے اور درست ہے البتہ درج ذیل کیھوٹ ہائے کے رقبہ جات کوٹمپرنگ اور جعل سازی کرکے خالصہ سرکار رقبہ جات کو اپنی ملکیت درج کرنے کی ایک ناکام کوشش کی گئی ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ تفصیل میں سیریل نمبر1تا سیریل نمبر22تک میں ہونے والی ٹمپرنگ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جن کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔

30جون2016ء کو ا نکوائری کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، صرف15دن کے اندر15جولائی2016ء کو انکوائری کمیشن نے اپنا کام مکمل کرکے رپورٹ ڈپٹی کمشنر گلگت کے پاس جمع کرادی ہے۔۔۔۔۔ڈپٹی کمشنر گلگت نے رپورٹ ہوم سیکریٹری، ہوم سیکریٹری نے چیف سیکریٹری اور چیف سیکریٹری گلگت بلتستان اس بات کا پابند ہے کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو اعتماد میں لے کر محکمہ مال یا بندوبست (سٹیلمنٹ) کے ان ذمہ داران کیخلاف کارروائی کرکے نشان عبرت بناتا تاکہ آئندہ کسی بھی سرکاری ملازم کو سرکاری کاغذات میں ٹمپرنگ یا جعل سازی کرنے کی جرأت ہی نہ ہوسکے۔۔۔۔

میں انکوائری کمیشن کے چیئرمین اور تمام ممبران کی جرأت اور ہمت پر انہیں سلام پیش کرتا ہوں، تاہم مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ جمع کرائے جانے کے ایک ماہ بعد بھی کسی بھی ذمہ دار کیخلاف کارروائی نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ گلگت بلتستان میں گورننس کتنی اچھی ہے۔۔۔۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو میڈیا والوں سے ایک پیار بھرا شکوہ ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ میں میڈیا میں شائع خبروں کی گہرائی میں جاتا ہوں تو ’’کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا‘‘ جیسی صورتحال درپیش ہوتی ہے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی خدمت میں عرض ہے کہ میڈیا میں پانی، بجلی، سڑکوں کی خستہ حالی، میرٹ کی پامالی ، کرپشن، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے نہ ہونے پر مبنی خبروں کی گہرائیوں میں جھانکنے کی ضرورت ہی نہیں، آپ ہفتے میں ایک مرتبہ شہر کا چکر لگائیں، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ گلگت بلتستان کا میڈیا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا ہی نہیں کررہا ہے۔۔۔۔۔ عوامی مسائل کے حوالے سے جو خبریں جی بی کا میڈیا چھاپ رہا ہے وہ اصل مسائل کی عکاسی ہی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن میڈیا اصل مسائل سامنے لائے گا۔۔۔۔۔ اس کے بعد آپ کا یہ گلہ بھی ختم ہوجائے گا کہ ’’میڈیا اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا نہیں کررہا ہے۔‘‘

مجھے یقین ہے کہ انکوائری کمیشن کی4صفحات پر مشتمل رپورٹ آپ تک پہنچائی جاچکی ہوگی۔۔۔۔۔ اگر ایسا نہیں ہے تو میں یہ رپورٹ آپ تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ سزاء اور جزاء کے نظام کے بارے میں آپ کا وژن بالکل واضح ہے۔۔۔۔۔۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پڑھنے میں صرف10منٹ کا وقت لگ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد ذمہ داروں کو سزاء یا جزاء دینے کا فیصلہ آپ کے ضمیر پر چھوڑ دیتا ہو۔

جمشید خان دکھی کے تازہ اشعار کے ساتھ اجازت۔۔۔۔

کردار حاکموں کا ہوا داغدار اور

جھکنے لگا ہے جب سے سرافتخار اور

منزل سے ہمکنار جو ہوں گے تو کس طرح

گھوڑے پہ ہے نصیب کے میرے سوار اور

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button