بلاگز

یک بہار او ر مبارک ہو

تحریر: اسلم چلاسی

لمحے، گھڑیاں، دن، مہینے اور سال ایسے گزرتے ہیں کہ یوں آئے اور یوں چلے گئے۔ کوئی پتہ ہی نہیں چلتا کل تک کے بچے بچپن سے ہوتے ہوئے جوانی سے گزر کر بزرگی میں داخل ہو گئے۔ بینائی جواب دے گئی، سماعت بھی چل بسی، چہرہ سکڑ گیا، بال سفید ہوگئے، لاٹھی کے سہارا مسجد تک بڑی مشکل سے پہنچ پایا، سجدہ رکوع قائدہ قیام بھی نہیں ہو پاتا مگر زہن میں وہی سات سال کا بچہ ہے جب کھیتوں کھلیانوں میں کھیلتا کودتا بچہ تھا۔ پرانے زمانے میں بزرگوں کو احترامَا چچا کہہ کر پکارتے، اس سے تھوڑا بڑا بلکل چشمہ لاٹھی والا ہو تو دادا کہتے تھے لیکن اب توہمارے ہاں بزرگوں کو چاچا یادادا کہنا ہی محال ہو چکا ہے۔ یہ لفظ سنتے ہی فٹ سے بزرگ کے چہرے کا رنگ لال پیلا ہو جاتا ہے، میں دادا کیسے ہوا تمہارا باپ دادا ہوگا میں تو ابھی بچہ ہوں ۔حالانکہ اس کی عمر اسی کے قریب ہوتی ہے۔ کچھ بزرگ تودادا لفظ کو گالی تصور کرتے ہیں۔ کل ہی قریبی محلے میں دو بزرگوں کے درمیاں محض عمر کے معا ملے کو لیکرلاٹھیاں اس قدر چلی کہ چوپال میں بیٹھے باقی بزرگوں کی دوڑے لگ گئی۔ غا لباً دونوں کچھ ستر کے قریب ہونگے ایک نے دوسرے کو چچا کہا پھر کیا تھا گھونسیں، لاٹھیاں، مکے حتی کہ دونوں کی چشمے بھی ٹوٹ گئے مگرپھر بھی غصہ برا بر تھا۔ گالیاں گلوچ جیسا کہ دو نا بالغ بچے ہو۔ ان کی گفتگو سے مجھے کسی شاعر کا یہ مصرعہ یاد آیا کہ،،کچھ لوگ بڑھاپے میں بھی با لغ نہیں ہوتے،،ان کا تو خیر کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ علم و عمل سے محروم رہے، زندگی بھر بکریاں چرائے یا پھر کھیتوں میں بیج بوتے رہے مگر جس ملک کو بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دیکرحاصل کیا اس ملک کا کوئی ادارہ اب تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہے۔

پونے صدی بعد بھی اندرون خانہ ٹھیک چوپال کے ان دو بزرگوں کی طرح ہمارا ملک اپنے ابتدائی زمانے میں ہی بڑھاپے میں بھی بچے کے مانند کھڑا ہے۔ سال کا بجٹ بیرونی قرضے سے بنا تے ہیں، ترقیاتی کاموں کے نام پر قرض پر قرض چڑتا جارہا ہے پھر بھی کوئی تعمیر کہے نظر نہیں آتا۔ اداروں کے اندرچوری چکاری کا بازار گرم ہے، فیلڈ میں ٹکے کا کام نہیں ہوتا، کا غذات میں جنت عدن شہری اور دہی علاقے بنے ہوئے ہیں۔ سر کاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہے کمیشن مافیا ،،لین دین، اس ہاتھ دو اُس ہاتھ لو ، اقربا پروری ،میرٹ کا جنازہ روز نکل رہا ہے۔ جانے وہ کونسے ایسے خرافات ہے جو اس ملک میں نہ ہو، قانون قاعدے کے نام پر غریب کا جینا محال ہے جب کہ با اسر طبقہ قانون کو اپنے بائے جیب میں رکھتے ہیں۔ کوئی غریب بھوک مٹانے کیلے چھوٹی سی چوری بھی کرتا ہے تو جیل کے سلاخوں کے پیچھے جاتا ہے جبکہ دوسری طرف بیس کروڑ انسانوں کے ملک کو دونوں ہاتھوں سے جو لوٹتا ہے وہ بھی اس قدر کہ ملک کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں اس کے گریبان تک قانون کا ہاتھ نہیں پہنچتا ہے۔ ملکی مسائل برسوں سے جو ں کہ توں پڑے ہیں، پانیوں کو روکا جا رہا ہے، کشمیر کا مسلہ وہی کا وہی ہے، دشمن کو دوست بنانے کی کوشش ہورہی ہے، قومی معاملات ذاتی مفاد ات پر قربان ہو رہے ہیں اور یہ سب گزشتہ ایک سال سے نہیں ہے مسلسل ستر سالوں سے ایسا ہو رہا ہے ۔جس کا جو ہاتھ لگتا ہے جہاں کہے بھی لگتا ہے فورًا ہاتھ صاف کر جاتا ہے۔ اب نیچے سے اوپر تک سب کا ٹنے لگے ہیں، شاہ سے گدا تک سب سمیٹنے لگے تو ظاہر ہے عوام بھی خراب ہوگئے۔ ملک کو ٹیکس دینا بند کردی، بجلی پر کنڈا لگا دیا، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں ڈنڈی مارناشروع کردی۔ نتیجے کے طور پر اب نویں فیصد عوام اپنے فرائض سے زیادہ حقوق کی حصولی کی بات کرتی ہے۔ کئی دہایاں بیت جاتی ہے انصاف نہیں ملتا ہے، لوگ خود ہی انصاف کرنے لگ گئے۔ قتل و غارت شروع کردی، ذاتی دشمنیاں پیدا ہو گئے۔ ظاہر ہے جزا و سزاکا معاملہ یوں رہا تو فوری حساب کا یہ ایک راستہ بچتا ہے۔ غریب کے جان مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے، زندہ و جاوید انسانوں کو بٹھیوں میں جلا یا جاتا ہے، مضاربہ کے نام پر غریبوں کے کروڑوں روپے لوٹے جاتے ہیں، اتنی رقم ایک بوری میں ڈالکر سرحد پار تو نہیں لے گئے ادھر ہی مختلف کھاتوں میں چلے گئے ہو نگے مگر بد قسمتی سے غریب کی لٹی ہوئی مال کواب تک ہمارا یہ لولا سسٹم واپس دلانے میں ناکام ہے اور یہ ناکامیوں کا سلسہ گزشتہ ستر سالوں سے اس قوم کا مقدر بنا ہوا ہے۔

حسب معمول سال پر سال چڑ جاتا ہے اور اسی طرح کے ناکامیوں اور معمولی سی کامیابیوں کے ساتھ ایک اور سال اس قوم کا انتظار میں گزر گیا۔ اب نیا سال داخل ہوا ہے جس کے ابتدا میں کم از کم مایوسی کے الفاظ مناسب نہیں ہے۔ ہمیں امید رکھنا چاہیے کہ دیر آید درست آید کے مصداق ضرور تبدیلی آئے گی اور ہم بھی دنیا کے تیز رفتارترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑے ہونگے اور وہ دن بھی انشاء الللہ بہت جلد آئے گا کہ سارے قرضے ختم ہونگے بلکہ دنیا ہماری مقروض ہو گی اور اس عظیم انقلابی ترقی کی بنیاد یہی سال بنے گا اور یہ تین سو ساٹھ دن مملکت خدا داد کیلے باعث رحمت بن کر گزرینگے۔

الللہ تعالی اس مبارک سال کو امن آشتی بھائی چارگی اور خوشحالی کا باعث بنائے پورے پاکستانی قوم کو یہ برکتوں والا سال مبارک ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button