کالمز

مایوس کن امتحانی نتائج ۔۔۔ ذمہ دار کون؟

گلگت بلتستان میں سرکاری سکولز اور کالجز میں تعلیمی معیار کا اگر جائزہ لیا جائے تو بہت کم ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں پر سالانہ آنے والا رزلٹ کو کسی حد تک اطمنان بخش قرار دیا جاسکتا ہے اس سال آنے والا سالانہ رزلٹ نے نہ صرف والدین بلکہ پورے خطے کے عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے قراقرم بورڈ سے انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات میں کل 5736 امیدوار وں نے حصہ لیا اور صرف 1635امیدوار کامیاب ہوگئے اور امتحانی نتائج کی شرح28 فی صد رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار کتنی حد تک بہتر ہوا ہے سالانہ امتحانات میں بہتری کے کوئی آثار دیکھائی نہیں دیتے اور نہ ہی حکمران اس جانب کوئی توجہ دیتے ہیں حالانکہ گلگت بلتستان کے سکولوں اور کالجز کے اساتذہ کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے اس کے باوجود مایوس کن نتائج سے سرکاری تعلیمی اداروں کی شرمناک کارکردگی سے ہر کوئی پریشان ہیں دوسری طرف پرائیوٹ تعلیمی ادارے ہیں جن کے نتائج سالانہ بہتر سے بہتر آرہے ہیں مگر سرکاری سکولوں اور کالجز کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے

گلگت بلتستان کا ضلع غذر جہاں پر شرح خواندگی بہتر ہونے کے باوجود جو مایوس کن رزلٹ آیا ہے اس پر والدین کے ساتھ ساتھ عوام بھی پریشان ہیں پورے ضلع میں اس سال انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں کل 1277طلبا و طالبات نے حصہ لیا اور صرف 260پاس جبکہ 1017فیل ہوگئے غذر بوائز ڈگری کالج کا اس سال جو شرمناک رزلٹ آیا ہے اس پر والدین سخت پریشان ہیں کالج کا رزلٹ صر ف 29فی صد آنا قوم کے معماروں کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے جبکہ گرلز انٹر کالج کا رزلٹ میں بہتری وہاں کی پرنسپل کی محنت ہے جس کی وجہ ہر سال کی طرح اس سال بھی بہتر رزلٹ آیایہ واحد کالج ہے جس کارزلٹ 72فی رہا ہے اس طرح یاسین کو ایجوکشن انٹر کالج کارزلٹ 53فی صد گوپس کو ایجوکشن کا لج 59 جبکہ چٹور کھنڈ انٹر کالج 43فی صد رزلٹ آیاہے۔

علم و دانش کی بدولت آج یہ وسیع وعریض دنیا ایک گاؤں کی شکل اختیار کرچکی ہے زندہ قومیں اپنی تمام تر توانائیاں دانشمندی اور مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ علم و دانش کے فروغ پر صرف کرتے ہیں اور وہ اپنی بقاء بھی ان ہی عوامل سے جڑے رہنے میں دیکھتی ہیں اور ان قومی اداروں کی تعمیر وترقی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتی ہیں انسان تین چیزوں کا مرکب ہوتا ہے روح ،عقل ،ذہن اور جسم ،تعلیمی اداروں کے ذریعے سے ان عوامل کی تربیت ہوتی ہے اس کے لیے سب سے زیادہ بے علمی بھی علم کے اداروں میں ہوتی ہے آج سے سولہ سال قبل ایک بین الااقوامی ادارے نے تعلیمی اداروں کے اندر ایک سروے کرایا تھا جس میں انتہائی پریشان کن صورتحال سامنے آئی تھی۔

سر فہرست یہ بات تھی کہ ہمارے اداروں میں نگران خود اس ادارے کا نظم ونسق چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ غافل ہوتا ہے اور پیشہ وارانہ امور کے متعلق سرگرمیوں کی یا تو مخالفت کرتا ہے یا اس کی سمجھ میں نہیں آتی جن کا خمیازہ طالب علم اور قوم اٹھاتی ہے بہرحال ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے بہت سارے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ضلع غذر کا بوائزڈگری کالج کا حالیہ نتائج نہ صرف شرمناک بلکہ قابل تشویش بھی ہے ڈگری کالج غذر کا رزلٹ مایوس کن ہے حالانکہ کالج میں اعلی تعلیم یافتہ اکیڈمک اسٹاف موجود ہے اور کروڑوں روپے کی ٹرانسپورٹ ،لائبریری کی کتابیں ،فرنیچر،کمپیوٹر سب موجود ہے اس کے باوجود بھی کالج میں یقینابہت سے مسائل ہونگے ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حال کرنے کی ضرورت ہے اور مسائل کے حل کے لیے سماجی،مقامی کمیونٹی کیساتھ پیشہ ورانہ امور کے ادارے اور افراد سے مدد لینے کی بھی ضرورت ہے کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے کالج میں دستیاب وسائل سے بھر پور استعفادہ حاصل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی جائے جدید تعلیمی نظریو ں میں طلبہ نظام کے مرکزی مقامات ہوتے ہیں کالج کے بچوں کو تعلیمی معاملات میں اعتماد میں لیا جائے۔

غذر ڈگری کالج کے اس سال آنے والے مایوس کن رزلٹ سے والدین سخت اذیت کا شکار ہیں، اور سوال کر رہے ہیں کہ وہ اب اپنے بچوں کو کہاں داخل کرادیں؟ غریب والدین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کو ملک کے بڑے درسگاہوں میں تعلیم دلائے اب اگر دیکھا جائے تو ایک طرف بوائز ڈگری کالج ہاتون غذر کا رزلٹ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے وہاں پر گرلز ڈگری کالج گاہکوچ کا رزلٹ دیکھا جائے تو والدین کالج کی پرنسپل صاحبہ اور دیگر سٹاف کی ہر جگہ تعریف کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ سٹاف کی کمی کے باوجود گرلز ڈگری کالج گاہکوچ کا رزلٹ 72فی صد آنا بوائزڈگری کالج ہاتون کے زمہ دران کی انکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ڈگری کالج ہاتون میں تمام سہولتیں دستیاب ہونے کے باوجود مایوس کن رزلٹ وہ بھی صرف29 فی صددینے کے زمہ دران کے خلاف باقاعدہ تحقیقات ہونا چاہئے اور یہ دیکھا جائے کہ اتنا مایوس کن رزلٹ دینے کے زمہ دار کون ہیں حالانکہ کسی وقت غذر ڈگری کالج میں 500 سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے مگر کالج کا سالانہ آنے والا مایوس کن رزلٹ کے باعث وہاں زیر تعلیم طلباء نے آہستہ آہستہ اس کالج کو خیر باد کہنے شروع کر دیا اب تو صرف چند درجن طلبا ہی اس کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ایک درجن سے زائد لکچراز ان کو پڑھانے کے لئے موجود ہیں مگر اس کے باوجود رزلٹ کی صورت حال ہمارے سامنے ہے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کالج کے بعض لکچرار حضرات کالج میں ڈیوٹی کم نجی اداروں میں زیادہ دیتے ہیں جبکہ اس وقت صورت حال یہ کہ غذر کے سکولوں کے اساتذہ اور کالجزکے لکچرار ملاکر کوئی چار درجن سے زائد یہ لوگ سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ اداروں میں بھی کام کرتے ہیں اور نجی اداروں کی گاڑیوں میں ہی کالج آتے ہیں ایک دو گھنٹے ڈیوٹی دینے کے بعد نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں ان کی یہ حالت دیکھ کر دیگر اساتذہ بھی تعلیم پر کم توجہ دیتے ہیں حالانکہ اس حوالے سے سیکرٹری تعلیم گلگت بلتستان اور ڈائریکٹر کالجز کو سب کچھ پتہ ہے مگر وہ ان افراد کے خلاف نامعلوم وجوہات کی بنا پر کوئی کارروائی نہیں کرتے جس باعث خطے میں تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اگر حکومت نے تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے کے لئے عملی طور پر کوئی کام نہیں کیاتو ہر سال مایوس کن رزلٹ آتا رہے گا اور ہمارا تعلیمی نظام تباہی کے دھانے پر پہنچ جائیگا جس کے بعد شاید اس کو سنبھالنا مشکل ہواس حوالے سے محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کے حکام کو اپنا کردار ادا کرنے کی سخت ضرورت ہے ایسا نہیں کیا گیا تو سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا اور اس کے بعد شاید نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے کئی صدیاں لگ جائے ۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button