گلگت بلتستان میں ’مسند ‘ اقتدار سنبھالنے سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کو ایک بات زہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ وہ یہ کہ حکومت کی ڈوری چاہے جس کسی کے ہاتھ میں ہو، وہ جتنا بھی بااختیار یا وفاق کے ساتھ اس کے جتنے بھی گہرے مراسم ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا بعض معاملات پر ’موقف‘کسی صورت مضبوط نہیں ہوسکتا ہے ۔ اور کے مقابلے میں سڑک پر چلنے والے انجان راہگیر کی بات عام آدمی سن لے گا حکومت کی کبھی نہیں۔ ان معاملات میں ’ ٹیکس ‘ کا معاملہ بھی ہے ۔
جمہوری حکومتوں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کی بات کم از کم سن لیتی ہے بے شک بعد میں مان لے یا نہیں۔ اور ان ادوار میں ہر طرف سے عوام کو حکومت میں اپنائیت کا ایک عنصر نظر آتا ہے کہ دیکھوں ’صاحب مسند‘ میرے ووٹ کے پرچی سے اقتدار کے ایوان میں بیٹھا ہوا ہے ۔ اگر کسی کو جمہوری حکومت میں عوام کا حصہ ہونے پر شک ہے تو گلگت بلتستان میں حکومت کو دیکھیں۔ گلگت بلتستان میں گزشتہ تین برسوں میں درخت سے پتے گرنے کے ساتھ ہی کوئی نہ کوئی معاملہ چلتے ہوئے سڑکوں تک آکر احتجاج،دھرنا اور ہڑتال کی شکل اختیار کرجاتا ہے ۔ امسال گلگت بلتستان کا موسم خزاں گلگت بلتستان میں غیر قانونی ٹیکسز کا نفاز بلکہ توسیع ہے ۔ جس نے حکومت کے ناک میں دم کر کے رکھا ہوا ہے ۔ 25اکتوبر کو گلگت بلتستان کونسل کا سکردو میں اجلاس ، جس کی صدارت وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کررہے تھے ، سے چند روز قبل انجمن تاجران گلگت بلتستان نے غیر قانونی ٹیکسز کے نفاز کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا ۔ اور احتجاج یقیناًاپنی بات سنوانے کے لئے کم از کم کافی تھا جس کی وجہ سے وزیراعظم کے صدارت میں ہونے والے جی بی کونسل کے اجلاس میں اس ایشو کو ’ایجنڈے ‘ میں شامل کرلیا گیا۔
25اکتوبرکے اجلاس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ود ہولڈنگ ، ٹرانزیکشن ٹیکس و دیگر ٹیکسز کو معطل کیا جائیگا ۔ اور ساتھ میں حکومت نے احتجاج کے متحرکین کو اس بات کی درخواست کی کہ ٹیکسز کے معطلی کے بعد کسی بھی قسم کے شٹرڈاؤن،پہیہ جام یا ہڑتال کی کال دینا بے بنیاد ہے ۔ انجمن تاجران نے احتجاج کو ختم کرنے کی شرط وزیراعظم کے اعلان کے ’نوٹیفکیشن ‘ سے کردی۔ 25اکتوبر کے اجلاس سے آج 11نومبر تک مذکورہ اعلان ’تحریری‘ شکل میں نہیں آیا ۔ جس کے بعد انجمن تاجران نے مورخہ 13اکتوبر کو دوبارہ ’حتمی ‘ احتجاج کا اعلان کردیا ۔
وزیراعظم کے اعلان کے باوجود نوٹیفکیشن نہیں آنے کی وضاحت کے لئے صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے زمہ داران نے بروز جمعہ صحافیوں کو بریفنگ دی ۔ اس بریفنگ میں وزیراعلیٰ اپنے غیر ملکی دورے کی وجہ سے موجود نہیں تھے جبکہ صوبائی وزیرتعمیرات و قانون ڈاکٹر محمد اقبال ، پارلیمانی سیکریٹری اورنگزیب ایڈوکیٹ، معاونین خصوصی فاروق میر و حاجی عابدعلی بیگ، رضوان راٹھور سمیت محکمہ اطلاعات کے زمہ داران موجود تھے ۔ باوجود اس کے کہ ٹیکس لگانے کا معاملہ گلگت بلتستان کونسل کا ہے لیکن پھر بھی گلگت بلتستان کونسل کا کوئی بھی ’شو آف ہینڈ‘ ممبر موجود نہیں تھا۔ قانونی امور پر گفتگو وزیر قانون ڈاکٹر محمد اقبال کی بجائے پارلیمانی سیکریٹری اورنگزیب خان نے کی ۔ صوبائی حکومت کے زمہ داران نے یہ موقف اپنا یا کہ گلگت بلتستان کونسل کے پاس قانون سازی کے حوالے سے 2ایسے اختیارات موجود ہیں جو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے پا س نہیں ہے جن میں ایک اختیار کسی بھی قانون کو گلگت بلتستان تک ’توسیع ‘ دینے اور دوسرا اختیار کسی بھی قانون کو ترمیم کرنے کا اختیار ہے ۔یہی اختیار استعمال کرتے ہوئے سابقہ حکومت کی جی بی کونسل نے Income Tax Adaptaion act-2012 کو گلگت بلتستان تک توسیع دیدی ۔ جس کے بعد ٹیکسز کی کٹوتی شروع ہوئی ہے ۔ 2016میں نئے ٹیکسز کا نفاز قانونی طور پر اس طریقے سے ہوا کہ جس قانون کو بھی گلگت بلتستان تک وسعت ملے گی اس قانون میں ترمیم بھی گلگت بلتستان میں عائد ہوگی۔ 2016کا فنانس بل اسی طریقے سے گلگت بلتستان میں لاگو ہوا ہے لہٰذا(بقول ان کے ) ٹیکسز لگانے میں مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کا کردار نہیں ہے ۔گلگت بلتستان میں اس وقت تقریباً6اقسام کے ٹیکسز لاگو ہیں۔ جن میں جنرل سیلز ٹیکس، کسٹم ٹیکس(سوست بارڈر)، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس و دیگر موجود ہے جو سب کے سب کم و بیش مسلم لیگ ن کی حکومت سے قبل کے ہیں۔
وزیراعظم کے اعلان کے بعد نوٹیفکیشن کی معطلی کے حوالے سے پارلیمانی سیکریٹری اورنگزیب خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ 25اکتوبر کو وزیراعظم کے اعلان کردہ معطلی کا نوٹیفکیشن اس وقت پراسیس میں ہے ۔ ایک کاغذی آرڈر سے اس کو معطل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ مذکورہ ٹیکس کی معطلی کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ کشمیر و جی بی افیئرز، فنانس ڈویژن ، محکمہ قانون سمیت کئی اور وزارتیں اس پراسیس کا حصہ ہیں۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد مذکورہ میٹنگ کے ’Minutes‘ بنائے گئے ۔ ڈرافٹ Minutes ابتدائی طور پر وزیراعظم سیکریٹریٹ سے تیار ہوکر واپس گلگت بلتستان آئے تھے ۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان اور چیف سیکریٹری نے چند ضروری ترامیم کے بعد ڈرافٹ وزیراعظم سیکریٹریٹ کو واپس ارسال کردیا ہے ۔ آئین میں ترمیم سمیت Minutesکی آخری مراحل میں متوقع طور پر مزید 20سے 25دن لگیں گے ۔ صوبائی حکومت کے رہنماؤں کی بریفنگ سے قبل حکومت اور پٹرولیم ڈیلرز کے مابین مذاکرات جاری تھے ۔
صوبائی حکومت کے زمہ داران کے مذکورہ پریس بریفنگ میں آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا تھا کہ حکومت عوامی دباؤ کی زد میں ہے ۔ حکومتی زمہ داران اس بات کی تشریح کرنے سے قاصر تھے کہ وہ گلگت بلتستان میں ٹیکس لگانے کے حامی ہیں یا نہیں ۔ شاید وزیر قانون کی یادداشت کمزور ہوگئی ہے تھلیچی کے مقام پر ٹول پلازہ کی شکل میں ٹیکس کاٹنے کے حوالے سے ایک انٹرویو جو کہ روزنامہ اصاف میں راقم کے کریڈٹ سے ہی چھپا تھا میں کھل کر بتایا تھا کہ میں گلگت بلتستان میں مشروط فارمولے کی بنیاد پر ٹیکس عائد کرنے کا حامی ہوں۔ ٹیکس کے بغیر کوئی بھی حکومت نہیں چل سکتی ہے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لئے ٹیکس دینا پڑے گا ۔ گزشتہ روز ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان نے مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ ہم ٹیکس دیدیں اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہماری تنخواہ سے کئی ہزار روپے اس وقت ٹیکس کی نذر ہورہے ہیں۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اسمبلی فلور میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ ٹیکسز کا نفاز ناگزیر ہوچکا ہے علاقے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا ۔ جی بی کونسل ٹیکس کا فارمولہ طے کررہی ہے ۔ وزیراعلیٰ نے 2012میں اسمبلی سے باہر رہ کر بھی مراعات یافتہ طبقے سے ٹیکس لینے کی حمایت کا اعلان کیا تھا ۔ لیکن شدید عوامی دباؤ ( جو کہ گزشتہ سالوں کے دباؤ سے بہت کم ہے ) کو سامنے رکھتے ہوئے جناب ڈاکٹر محمد اقبال صاحب اس بات سے ہی مکر گئے اور کہا کہ ہم کسی بھی صورت ٹیکس لگانے کے حامی نہیں ہیں۔ جب تک ہمیں آئین میں شامل نہیں کیا جاتا ہے ان کا یہ موقف ان کے گزشتہ موقف سے یکساں تبدیل تھا ۔ جبکہ اورنگزیب خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ بعض لوگ لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں جبکہ گندم سبسڈی کا کھاتے ہیں۔ ممبران اسمبلی، بیوروکریٹس، اور ججز کی تنخواہ لاکھوں میں ہوتی ہے لیکن آٹا کا تھیلہ 640روپے میں ہی لے رہے ہیں۔ان کے تنخواہوں سے ٹیکس کٹنے میں حرج نہیں ہے ۔ پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون کی یہ بات وزیر قانون کے موقف کی مخالف ہے ۔ دونوں ایک پیج پر ہی نہیں ۔
گلگت بلتستان میں اس وقت سماجی اور سیاسی حوالے سے کئی ایسے مسائل ہیں جن کو ’نوٹیفکیشن‘ کی نظر سے دور رکھ کر اس کے اندر ہونے والے اتار چڑھاؤ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس میں مشہو ر زمانہ نعرہ’پانچواں صوبہ ‘بھی ہے ، گندم سبسڈی کا تھیلہ بھی اور ٹیکس دینے اور نہ دینے کا معاملہ بھی ہے ۔گلگت بلتستان کی حکومت ہی نہیں عوام کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہی ہوگا کہ ٹیکس دینا ہے یا نہیں۔ لفظ مشروط کی ضرورت نہیں ۔ اگر گلگت بلتستان کی عوام ایسے موڑ پر ہے کہ ٹیکس دے سکتی ہے تو ٹھیک اور اگر ٹیکس اگر معمولات زندگی اور اخراجات پر ایک اور بوجھ بن کرسامنے آرہا ہے تو نہیں ۔ تیسری رائے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جو کہ ڈاکٹر اقبال نے اپنایا فرض کریں کہ قومی اسمبلی میں نمائندگی ملنے یا لامحالہ طور پر آئینی صوبہ بننے سے عام آدمی ٹیکس دینے کا اہل کیسے ہوگاایسے غیر منطقی موقف کو تبدیل کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی عوام اور حکومت دونوں کو چاہئے کہ دوٹوک فیصلہ یا ہمت کریں۔چند لوگ اپنے مفاد سے ڈر کر ٹیکس مخالف تحریک چلائیں اور عوام گونگے سمندر کی طرح بہتے چلے جائیں۔
فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔