کالمز

کیا وزیر اعلیٰ اور کابینہ ٹیکس بحران سے نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔۔؟

تحریر : محمد شریف رحیم آباد یؔ

گلگت بلتستان میں ٹیکسز کے نفاز کے لیے صوبائی حکومت عجلت کا مظاہر ہ کر رہی ہے ۔ رد عمل کیا ہوگا اس کا ادراک شاید اُن میں نہیں۔ حقوق اور آئینی حیثیت پر جرات سے خطے کا مقدمہ لڑنے کی سکت وہ نہیں رکھتے۔ کمیٹیاں تاخیری حربوں کا بہترین نعم البدل ہیں ۔ منتخب نمائندوں کو اپنی مراعات پہ کٹ لگنے کی فکر ستائی جار ہی ہے۔ Bossکو خوش کرنا بھی ہے اوریہ ان کے لیے پوائنٹ سکورنگ کا بہترین موقع بھی ہے۔

دوسری طرف عوام قیاس آرائیوں کا سہارا لیے ہوئے ہیں۔ نائی شاپ ، ریسٹورنٹ ، دکان ، اور پبلک مقامات ہر جگہ ٹیکسوں کے متعلق تبادلہ خیال کیا جارہا ہے، خدشات بہت زیادہ ہیں اور اُمیدیں کم ۔ انجمن تاجران کے کال پر گلگت بلتستان بھر میں تین دنوں کی کامیاب ہڑتا ل کے بعد صوبائی حکومت کے ذمہ دار افراد نے کور کمیٹی سے مذاکرات کئے اور ہڑتال کو مورخہ23 نومبر2017 تک مؤ خر کر دیا مگر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی صفت سے مشہور لیگی حکومت نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل دی اور معاہد ہ کے خلاف ورزی شروع کی۔ غیر سنجیدہ بیانات کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا۔ آنے والے دنوں میں ان کے ارشادات ان کے گلے کا ہڈی بن سکتی ہے۔ ان کے اس روئیے سے عوام میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہوگا۔

عوام کو مطمعن کرنا اور ان کے پریشانیوں کو دور کرنا وقت کے حکمرانون کی اولین ترجیح ہونی چاہیے مگر وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ Boss کا ڈائریکشن کچھ اور ہے۔

70 سالوں پر محیط ایک لمبا عرصہ 1947 سے 2017 تک کے دوران پاکستان میں سول اور فوجی حکومتیں آئی ہیں۔ فوجی اور سول حکومتوں کے طاقتور حکمران جن میں فیلڈمارشل محمد ایوب خان ، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف جیسے طاقتور ترین حکمرانوں بھی ٹیکسز کے نفا ز کا حکم نامہ جاری نہیں کر سکے اور نہ ہی ان کے کسی مشیر یا وزیر نے اُنہیں ٹیکس لاگو کرنے کا مشورہ دیا۔ وجوہات قابل فہم ہیں دنیا کا کوئی قانون نمائندگی دیے بغیر ٹیکس لاگو نہیں کرسکتا ۔ گلگت بلتستان کے ہر فرد کو پاکستان کے دیگر صوبوں کے شہریوں کے برابر اور اول درجے کے شہری حقوق دیے بغیر محصولات نہیں لے سکتے ۔ گلگت بلتستان کے باسی آئین پاکستان کے چھتری تلے آئینی صوبہ کے بغیر ٹیکسز کے نفاز کو انسانی حقوق کے منافی اور حکمرانوں کی جابرانہ اقدام سمجھتے ہیں۔

2009 کی صدارتی آرڈرکوعوامی مفادات سے زیادہ چند افراد کو نوازنے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں ۔2012 کے ٹیکس ایڈاپٹیشن ایکٹ کو منظور کرانے والے اس دور کے اراکین کونسل کا اقدام قابل نفرین ہے جو کہ دو جماعتوں کے اراکین پر مشتمل تھا ۔ موجود ہ اور سابق حکمرانوں کو اپنی غلطیاں سدھارنے اور ان کے ازالے کا وقت اب بھی ہے۔ آگے بڑھیں عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات پر قربان کریں بصورت دیگر تاریخ اُنہیں معاف نہیں کرے گی۔

اس وقت گلگت بلتستان کے دائیں اور بائیں بازوں کی تقریباً تمام پارٹیاں ٹیکس ایشو پر متحد ہیں ۔ تحریک انصاف اور تحریک اسلامی اس ایشو پر دو بڑے جلسے منعقد کرچکے ہیں۔ دیگر پارٹیوں کے ورکرز اور لیڈرز بھی عوامی ایکشن اور انجمن تاجران کے ہم نواں ہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن اور ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ہوٹل ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایگزیکٹیو آرڑر 2009 کو ممتاز قانون دان کھرل کے ذریعے چیلنج کیا گیا ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خطے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کور کمیٹی کے ممبران 23 نومبر2017 تک سکردو ، دیامر ، ہنزہ ، نگر اور غذر کا دورہ کرچکے ہیں اور اُنہیں مکمل عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اگلے مرحلے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اس تمام صورت حال کو مد نظر رکھا جائے تو یہ صوبائی حکومت کے لیے کڑا وقت اور امتحان ہے۔ اس سے عہد ہ برآں ہونا وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور ان کی ٹیم کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کا بچہ بچہ ان کے فیصلوں اور اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ان کے فیصلے ان کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتے ہیں ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button