کالمز

بیٹیاں زخم سہہ نہیں پاتیں!

شکر ہے ربِ کائنات کا کہ انہوں نے خود ہی تو اپنی کتابِ پاک میں فرمایا ہے کہ ’’ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔‘‘ وہ دن میں کیسے بھول سکتا ہوں جب آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹروں کی ٹیم مجھے تسلی دے رہی تھی اور دس جگہوں پہ دستخط بھی لے رہی تھی کہ ’’سر! اللہ بہتر کرے گا۔ لیکن ہسپتال کی پالیسی کے تحت ہم آپریشن سے پہلے دستخط لیتے ہیں۔ خوانخواستہ، خدا نخواستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے جلدی بات کاٹ دی۔ اس سے آگے سننے کی شاید مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ میں نے ڈاکٹر کے ہاتھ سے گویا قلم چھینا تھا اور دیوانہ وار اپنا دستخط کیا تھا۔ اس کے بعد بے ہوشی اور آپریشن کا پروسس شروع۔ جاتے جاتے میں نے پوچھ ہی لیا۔ کتنا وقت لگے گا۔ ’’سر! چار گھنٹے کے اندر اندر انشااللہ ہم آپ کو بلائیں گے۔‘‘ اب میں ویٹنگ روم میں بیٹھے چار گھنٹے کاٹ رہا تھا۔ وقت جیسے تھم گیا ہو۔ بار بار اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا۔ موبائل اور لیب ٹاپ کھول کے خیالات کو منتشر کرنے کی کوشش کرتا لیکن جناب مجال کہ وقت گزرے۔ ایک ایک لمحہ قیامت ڈھا رہا تھا۔ آخر وقت کو تو گزرنا ہی تھا چار گھنٹے کیا گزرے۔ ایک نئی مصیبت آن پڑی۔ پھر وقت گزرتا گیا۔ پانچ گھنٹے، چھے گھنٹے اور سات گھٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جواب ندارد۔ ارے! میرے مولا! یہ کیا امتحان ہے۔ دل میں ہزار وسوسے کہ پتہ نہیں کیا ہوا ہوگا۔ کیونکہ میری بیٹی اور وہ بھی ننھی جان کیا واقعی آپریشن پروسس سے گزر سکے گی۔ میں نے تو سنا ہی نہیں دیکھا ہے کہ بیٹیاں بہت نازک ہوتی ہیں۔ وہ آپریشن تو دور کی بات، معمولی زخم بھی سہہ نہیں سکتیں۔ بے اختیار مجھے اپنی ہی بیٹی نہیں بلکہ سب کی بیٹیاں یاد آرہی تھیں کیونکہ؎

بیٹیاں ﺯﺧﻢ _____ ﺳﮩﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﯿﮟ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺩﺭﺩ _____ کہہ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﯿﮟ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺍٓنکھ _____ کا ﺳﺘﺎﺭﺍ ﮨﯿﮟ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺩﺭﺩ _____ ﻣﯿﮟ سہارا ہیں

ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ _____ ﮨﺮﺍﺱ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ

ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ _____ اُﺩﺍﺱ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﻧﻮﺭ _____ ہیں ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺑﺎﺏ _____ ہیں ﭘﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺩﻝ کی _____ ﺻﺎﻑ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﮔﻮﯾﺎ ﮐﮭﻠﺘﺎ _____ ﮔﻼﺏ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﻋﮑﺲ _____ اﭘﻨﯽ ﻣﺎﻭٔﮞ ﮐﺎ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ _____ ﺛﻤﺮ ﺩﻋﺎﻭٔﮞ ﮐﺎ

ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ _____ ﺳﺰﺍﺋﯿﮟ ﻣﺖ ﺩﯾﻨﺎ

ﺍﻥ ﮐﻮ ﻏﻢ ﮐﯽ _____ ﻗﺒﺎﺋﯿﮟ ﻣﺖ ﺩﯾﻨﺎ

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ _____ کی ﭘﯿﺎﺳﯽ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﭘﺮﺍﺋﮯ ﭼﻤﻦ _____ کی ﺑﺎﺳﯽ ہیں

ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺑﮯ ﻭﻓﺎ _____ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ

ﯾﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ _____ ﺧﻔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ

میں شاید خیالات میں ڈوب گیا تھا یا ڈبویا گیا تھا مجھے نہیں معلوم۔ ساتھ میں بیٹھے کزن نے کہا کہ ’’کاکا! آپ کا موبائل بج رہا ہے۔‘‘ میں نے دیوانہ وار فون اٹینڈ کیا تھا۔ کال آپریشن تھیٹر سے تھی۔ الحمداللہ! آپریشن کامیاب ہوا تھا اور مجھے اندر بلایا جارہا تھا۔ میں کیسے اندر گیا مجھے نہیں پتہ۔ بعض دفعہ قدم زمین پہ نہیں ہوتے۔ شاید اس دن میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا۔ جب میں اندر گیا۔ ننھی آشا بیڈ پہ دراز آنکھوں میں ڈھیر سارا آنسو لیے بس خاموشی کی ایک تصویر بنی تھی۔ میرا دل دھک سے بیٹھ گیا یا اللہ! یہ کیا سرمے کہ جگہ آنسو؟ یہ وہی آشا ہیں جو مجھے میلوں دُور سے دیکھ کے بابا بابا کہہ کے بھاگتی ہوئی آکے مجھ سے لپٹ جاتی۔ پھر اس کی معصوم فرمائیشیں کہ ’’بابا آئس لایا ہے؟، چاکلیٹ کہاں ہے؟، چیونگم دو نا۔‘‘ یا اللہ! آج تو یہ خاموش ہے۔ میں نے وہاں موجود لیڈی ڈاکٹر سے پوچھا تھا ’’خیر تو ہے؟‘‘ انہوں نے میری پریشانی بھانپ لی تھی۔ یک دم کہا ’’سر! الحمداللہ! بہت ہی کامیاب آپریشن ہوا۔ آپ کی بچی ماشااللہ بہت کوپریٹیو ہے۔‘‘ پھر یہ خاموشی کیسی؟ میں نے خود سے پوچھا تھا۔ شاید بے ہوشی کا اثر ابھی تک گیا نہیں تھا۔

پھر آج ہسپت ال سے چھٹی ملی۔ یہ آشا کی ہسپتال سے ڈس چارج ہونے سے کچھ لمحے پہلے کی تصویر ہے۔ جس میں وہ قدرے خوش دکھائی دے رہی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بابا نے اسے یقین دلایا ہے کہ گھر جاکے ان کو ڈھیر سارے چاکلیٹس، بسکٹس اور بالونز لیں گے۔ ان کو جھولا جھولائیں گے۔ ان کو لے کے چھت پہ جائیں گے ایک دفعہ پھر نہ صرف آکاش میں اڑتے جہازوں کو مل کے بابائے کریں گے۔ بلکہ مون، سن اور سٹارز کو آؤ نا کھیلتے ہیں کی تکرار کریں گے۔ اس لیے آشا خوش ہے۔ اللہ کرے وہ خوش ہی رہے۔ ے بھی وقت کے ساتھ سمجھوتا کر ہی لیا۔ اب زیادہ سے زیادہ ان کی فرمائش یہ ہوتی ہے کہ ’’بابا! مجھے گود میں لے کے کارٹون دیکھاؤ نا۔‘‘ یہ الگ بات کہ کارٹونز دیکھتے ہوئے مجھ سےبار بار پوچھتی کہ ’’بابا اس لائن کی بھی ماما نہیں ہے نا۔‘‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اپنی ماما (ماں) کو کتنا مس کرتی ہے۔ اور ان کی ماما گلگت میں ان کے لیے آنسو بہا رہی ہے۔ خیر! اگلے تین مہینے تک آشا کا کارٹونز کے ساتھ دوستی کیسی رہتی ہے۔ یہ تو وقت بتا پائے گا کہ آشا کارٹونز سے دل بہلاتی ہے یا بے چین رہ کے ہمارا دل بے قرار کرتی ہے۔ اللہ خیر کرے۔

پھر آج ہسپتال سے چھٹی ملی۔ یہ آشا کی ہسپتال سے ڈس چارج ہونے سے کچھ لمحے پہلے کی تصویر ہے۔ جس میں وہ قدرے خوش دکھائی دے رہی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بابا نے اسے یقین دلایا ہے کہ گھر جاکے ان کو ڈھیر سارے چاکلیٹس، بسکٹس اور بالونز لیں گے۔ ان کو جھولا جھولائیں گے۔ ان کو لے کے چھت پہ جائیں گے ایک دفعہ پھر نہ صرف آکاش میں اڑتے جہازوں کو مل کے بابائے کریں گے۔ بلکہ مون، سن اور سٹارز کو آؤ نا کھیلتے ہیں کی تکرار کریں گے۔ اس لیے آشا خوش ہے۔ اللہ کرے وہ خوش ہی رہے۔

کسی قدر دان نے میرے پچھلے پوسٹ پہ کمنٹ کرکے کہا کہ ’’سر! بیمار تو بہت سارے لوگ ہوتے ہیں لیکن کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ آشا کی صحت یابی کے لیے دعاؤں کے لیے ہاتھوں کا جو سمندر اٹھا ہے اس کی وجہ آپ ہیں۔ ان کے محبوب رائیٹر کی بیٹی بیمار ہو اور وہ دعا نہ کرے یہ کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘ یہ آپ کی محبت ہے آپ پڑھتے ہیں، اپنا وقت دیتے ہیں، اپنی زندگی دیتے ہیں، تب ہم لکھتے ہیں۔ ورنہ جذبوں کو الفاظ کا رنگ دینا کوئی آسان کام تو نہیں۔ یقیناً یہ میرا ایمان ہے کہ جہاں دوا اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے وہاں دعا اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتی ہے۔ گہرے تاریک راتوں یا صاف و شفاف صبحوں اور دوپہروں میں نہ جانے کتنے ہاتھ آشا کی صحت یابی کے لیے بار گاہِ الٰہی میں اٹھے ہوں گے تب تو یہ ننھی کلی اب رو بہ صحت ہے۔ میں اس کے عوض آپ کو کیا دے سکتا ہوں ہاں ان ہزاروں لوگوں کی بے پناہ دعاؤں کے عوض میں بھی دعا ہی کرسکتا ہوں کہ اللہ آپ کو ایسے آزمائش سے نہ گزارے۔ آپ جہاں بھی رہے شاد اور آباد رہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button