جا اِیْمِکِیْ بَاش (میری مادری زبان)
"مادری زبانوں کا عالمی دن”
قلمکار: احسام ہنزائی
آج مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کی مناسبت سے چند اہم معلومات آپ سب دوست و احباب تک پہنچانا چاہتا ہوں۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والے لوگوں کے لئے تین طرح کی زبانیں بہت اہم ہوتیں ہیں۔۔
جن میں ایک مادری زبان، دوسری قومی زبان اور تیسری عالمی زبان۔۔
عالمی اور قومی زبانوں کی اہمیت کا تو سب کو اندازہ ہے مگر مادری زبان کی اہمیت روزبروز کم ہوتی جا رہی ہے۔۔ اس کی ایک وجہ جدید تعلیم میں انگریزی زبان کا تسلط اور طلبہ و طالبات کا دیہی علاقوں سے حصولِ تعلیم کے لئے شہروں کی طرف جانا اور دوسری وجہ قومی زبان کا دباؤ اور عالمی زبانوں کا پھیلاؤ ہے۔۔
چونکہ میری اپنی مادری زبان بُرُشسکی ہے جو کہ پاکستان کے شمالی علاقے کے ڈسٹرکٹ ہنزہ (مرکزی ہنزہ) سمیت ڈسٹرکٹ نگر کے پورے علاقے اور یاسین کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔۔
حیدرآباد ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ایک بہت ہی معزز و محترم بزرگ مرحوم علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی، جن کو بابائے بُرُشسکی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، نے اپنی انتہائی مہنت اور کاوشوں سے نہ صرف بُرُشسکی حروف تحریر میں لائے (اُردو حروفِ تہجی سے آٹھ اضافی حروف) بلکہ اس زبان کی باقاعدہ دو جلدوں پر مشتمل لغت اور اپنی شاعری اور دیگر تصانیف کے ذریعے اس زبان کو ناپید ہونے سے بچایا ہے۔۔ جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے چیرمین جناب ڈاکٹر خالد جامی کے زیرِ نگرانی شائع ہونے والی بُرُشسکی لغت کی تیسری جلد ابھی تیار ہونے کو تھی کہ علامہ نصیر الدین صاحب سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔۔ اللّٰه تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔۔ آمین۔۔
ان کے ساتھ کچھہ اور بزرگ حضرات بھی ہیں جن کی خالص بُرُشسکی میں شاعری بھی قابلِ ذکر ہے۔۔ جن میں مرحوم غلام عباس حسن آبادی اور محترم شیر باز ہنزائی سرِ فہرست ہیں۔۔
اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں اور بھی کئی مادری زبانیں بولی جاتی ہے۔ بلتستان میں بلتی اور گلگت میں شینا، کھوار اور وخی بولی جاتی ہے۔۔
یاد رہے کہ ہنزہ بالا میں وخی اور لوئر ہنزہ میں شینا جبکہ مرکزی ہنزہ میں بُرُشسکی قابلِ ذکر ہیں۔۔ اسی طرح چترال میں چترالی، فارسی اور کہوار جبکہ پنیال اور گاہکوچ کے علاقوں میں شینااور کہوار بولی جاتی ہے۔۔۔
علاوہ ازیں کوئی بھی زبان کسی بھی قوم کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہے۔ یہ ناصرف جذبات کے اظہار و خیال کا ذریعہ ہے بلکہ اقوام کی شناخت بھی زبان سے ہی ہوتی ہے۔ پاکستان، ہندوستان، امریکہ، افریکہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، ایران، اٹلی و دیگر ممالک کی اقوام کی اپنی علیحدہ زبانیں ہیں، جو کہ اقوام کے افراد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی طرح ہر ملک کی ایک قومی زبان ہوتی ہے جس سے ہر ملک کے افراد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی قومی زبان اردو جبکہ ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہے۔ ان دونوں ممالک کے افراد اپنی زبانوں سے پہچانے جاتے ہیں جبکہ دونوں ممالک کی قومی زبان کے علاوہ کچھ اور زبانیں بھی ہیں جیسے پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں سندھی، بلوچی، پنجابی، سرائیکی، پشتو و دیگر اور ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں میں تامل، تیلوگ، کنادا، ملایالم، سنسکرت و دیگر شامل ہیں۔
نومبر 1999ء کو یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، پشتو 8 فیصد، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ انسان کی یاداشت بدل جاتی ہے لیکن زبان نہیں بدلتی، وہ یاداشت کھو سکتا ہے لیکن اپنی زبان نہیں بھول سکتا۔ بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لیئے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی قرار دادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ قومیتی شناخت اور بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگارنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہے۔
مقامی یا مادری زبانوں کو انسان کی دوسری جِلد بھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہر لفظ اور جملے میں قومی روایات، تہذیب وتمدّن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقاء اور اس کے فروغ کا سب سے موئثر آلہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اگر قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات اس کی تہذیب، اس کی تاریخ، اس کی قومیت سب کچھ مٹ جائے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہوچکی ہیں۔ زمانے کی جدت اور سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہیں جہاں کل زبانوں کا 12 فیصد یعنی 860 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیا دوسرے، 516 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جبکہ 37 کروڑ ہندی، 35 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔
آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔ دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اور نظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زود اثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھرا کر سنا دیتے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے اسکے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کا کام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔
مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مدد ملتی ہے ،زبان کی آبیاری ہوتی ہے ،نیا خون داخل ہوتا ہے اور پرانا خون جلتا رہتاہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاءپزیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاءکے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پزیر رہتی ہے، نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں ،نیا ادب تخلیق ہوتا ہے،استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔
ایک اور بات جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ عالمی زبان کو ضرور اپنایا جائے مگر عالمی زبان کی تعلیم کو مادری اور قومی زبان میں بھی پڑھایا جائے۔۔
عالمی زبان سیکھنا بلکل اچھی بات ہے اور زمانے کی ضرورت بھی ہے، آج کل تعلقات صرف ایک ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ اب دنیا کے کونے تک تعلقات ہوتے ہیں، چاہے تجارتی تعلقات ہوں یا رشتے کے تعلقات ہوں۔۔
جدید زمانے کے لوگوں کی نظریات اور سائنسی ایجادات کی معلومات کو سمجھنے اور سیکھنے کے لئے عالمی زبان کا سیکھنا بہت ضروری ہے۔۔۔
عالمی سطح پر زبانوں کی تعداد اور ان کو بولنے والوں کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے۔ صرف 75 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور صرف 8 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جو کل عالمی آبادی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر صرف 100 زبانوں کا استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
لہذا
کسی بھی قوم کے تہذیب و ثقافت اور اس کی بقاء کے لئے مادری زبان کا زندہ و تازہ رہنا انتہائی ضروری ہے جس کے لئے ہم سب کو کوشاں رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کی زبانوں کی قدر کرنی چاہیے۔۔