کالمز

ضیا علی شہید- ٹوٹتی بکھرتی یادیں

نوٹ: کل ضیا علی شہید کی زیر نظر تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی تھی۔ ان کی تصویر اور تصویر پر ان کے چاہنے والوں کے کمنٹس دیکھتے ہوئے پرانی یادیں تازہ ہوئیں اور ضیا علی شہید پر لکھی گئی کئی سال پہلے کی ایک تحریر یاد آگئی جو ’’فکرونظر‘‘ کے کسی شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اُن دنوں میری ڈیوٹی گوپس غذر میں تھی۔ لیب ٹاپ میں ڈھونڈا، خوش قسمتی سے وہ تحریر مل گئی۔ خواہش ہوئی کہ قند مکرر کے طور پر آپ بھی پڑھے۔ بس ایک گزارش ہے کہ یہ تحریر کچھ سال پہلے کی ہے۔ اس کو اس تناظر پڑھا اور محسوس کیا جائے۔ شکریہ!

…………

رات سے برف بھاری ہو رہی تھی۔ دانت میں شدید درد کی وجہ سے میں رات بھر سو نہیں سکا تھا۔ صبح اپنے بیڈ روم سے باہر آیا۔ برف سے ڈھکی وادیِ گوپس ایک خواب ناک منظر پیش کر رہی تھی۔ دفتر جانے کے بجائے دانت کے درد کی شدت نے مجھے سول اسپتال گوپس پہنچا دی تھی۔ اسپتال میں مریضوں کا جمِ غفیر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ گزشتہ کچھ دنوں کے خشک اور ٹھنڈے موسم نے اپنا اثر دکھا دیا ہے۔ میں لوگوں کے پجوم کو چیرتے ہوئے ڈینٹل وارڈ میں داخل ہوا تھا۔ ہنستے کھلتے چہرے کے ساتھ ڈینٹل آفیسر مولا داد تمام مریضوں کو چھوڑ کر مجھ سے مصافحہ کرنے آگے بڑھے تھے۔ اس نوجوان کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی۔ اپنا تعارف کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’سر! میں ضیا علی شہید کا منجھلا بھائی ہوں۔‘‘

ضیا علی شہید………… یہ نام سن کر میں چونک پڑا تھا۔ اس کی وجہ ایک نہیں بلکہ کئی ایک تھیں۔ ان بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ تھی کہ گزشتہ سال بزمِ علم و فن سکردو کے زیر اہتمام ’’حسینؑ سب کا‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب میں، میں نے ایک تقریر کی تھی۔ جس کا عنوان ’’حسینؑ سب کا، کیا ہم سب بھی حسینؑ کے ہیں؟؟؟‘‘ تھا۔ بعد میں وہ تقریر ’’فکرونظر‘‘ کے کسی شمارے میں شائع بھی ہوئی تھی۔ پھر کیا تھا دھمکیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ امین ضیاؔ صاحب نے خوب ہی کہا ہے ؂

زبان سے کہتے ہیں ہم سب، حسینؑ سب کا ہے

یہ نعرہ دیکھ لو تاریخ میں کہ کب کا ہے

دھمکی دینے والے بار بار ایک نام لے رہے تھے کہ ’’جان عزیز ہے تو اس طرح کی تقریریں کرنے سے باز رہے ورنہ آپ کا انجام بھی ضیا علی جیسا ہوگا۔‘‘ خیر! دھمکی اپنی جگہ۔ ایسی چیزوں سے ضعیف الاعتقاد لوگ ڈرتے ہیں۔ اللہ پاک کا احسان ہے کہ میں ضعیف الاعتقاد نہیں ہوں۔ اس ذاتِ بابرکت پہ اتنا یقین کہ اس نے کب، کہاں اور کیسی موت دینی ہے اس سے ایک بال کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتی تو پھر یہ ڈر، خوف، دھمکی کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ ویسے بھی میں گھر میں الٹی کرتے ہوئے مرنے سے امن کے لیے مرنا مناسب سمجھوں گا۔ دوستِ محترم جمشید دُکھی کے بقول ؂

اگر ہو امن مجھ کو مارنے سے

مجھے سولی پہ لٹکاؤ خدا را!

آمد بر سرِ مطلب۔ ضیا علی شہید کے بارے میں لوگوں سے کافی کچھ سنا تھا لیکن اس دھمکی کے بعد ایک عجیب تجسّس پیدا ہوگیا تھا کہ آخر اس زمین زادے کا جرم کیا تھا جس کی وجہ سے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ دانت کے درد کی شدت نے ایک ڈینٹل آفیسر سے ملاقات کرواکر ایک دفعہ پھر حیرت و تجسّس کی دُنیا میں مجھے دھکیل دیا تھا۔ ضیا علی شہید کے بارے میں کچھ جاننے کی حسرت بڑھتی جا رہی تھی۔ مولا داد جیسے ذہین نوجوان کو مجھے یوں حیرت میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ انہوں نے رات کا کھانا اپنے دولت خانے میں ساتھ کھانے پر اصرار کیا۔

اب جبکہ میں ضیا علی شہید کے دولت خانے میں تھا۔ میرے سامنے ضیا علی شہید کی ماں اور ان کا منجھلا بھائی مولا داد تھا۔ ان کے والد محترم علی داد آج گھر پر موجود نہیں تھے اس لیے ان سے ملاقات کی حسرت باقی رہی۔ ضیا علی کے آباؤ اجداد کئی عشرے پہلے واخان افغانستان سے ہجرت کرکے یہاں گوپس میں آباد ہوچکے تھے۔ عجیب اتفاق ہے کہ لالک جان شہید کے آباؤ اجداد بھی واخان افغانستان سے ہجرت کرکے یاسین ہندور میں آباد ہوئے تھے۔ وخی تاجکوں کے ان دونوں سپوتوں نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا کہ آج پوری قوم کو ان پر ناز ہے۔ ضیا علی شہید کے گھر میں وخی تاجکی زبان بولی جاتی ہے۔ ضیا علی پانچ بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ ان کی بہنیں پیا گھر سدھار چکی ہیں۔ منجھلا بھائی مولا داد سول ہسپتال گوپس میں ڈینٹل آفیسر ہے۔ مولا داد نے دنیور گلگت سے شادی کی ہے۔ بھابی شستہ بروشسکی بولتی ہے۔ ضیا علی کا چھوٹا بھائی عاشق علی وطن عزیز کے کرپٹ نظام سے تنگ آکر روزگار کی تلاش میں دیارِ غیر کی خاک چھان رہا ہے۔ ضیا علی نے شادی نہیں کی تھی ان کی والدہ محترمہ کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے کئی بار ان سے شادی کا کہا تو انہوں نے مذاق میں ٹال دیا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ میں کسی کی بیٹی کو بیوہ بنانا نہیں چاہتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں زیادہ دیر زندہ رہ سکوں۔ ہم ان کی باتوں کو مذاق سمجھتے تھے۔ مگر آج ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ مذاق میں کہی ہوئی ان کی باتوں میں کتنی صداقت تھی۔‘‘

باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ کھانے کا دَور چلا۔ بڑے پُرتکلف کھانے دسترخواں پر سجائے گئے۔ نہ جانے یہ دانت کے درد کی شدت تھی یا ضیا علی شہید کے ساتھ ہونے والا ظلم کا احساس تھا مجھے یوں لگ رہا تھا میں کھانا نہیں کھا رہا بلکہ کھانا مجھے کھائے جا رہا ہے۔

کھانے سے فراغت کے بعد موضوعِ سخن ضیا علی شہید کی وہ ٹوٹتی بکھرتی یادیں تھیں جن کے سہارے ان کے خاندان والے زندگی کے ایام کاٹ رہے تھے۔ جبکہ ہماری حالت یہ تھی ؂

دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن

رات کٹتی نظر نہیں آتی

ضیا علی شہید کی تاریخ پیدائش گھر کے کسی فرد کو یاد نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ضیا علی جس پسماندہ علاقے میں پیدا ہوئے تھے وہاں صرف پیدائش ہوتی ہے تاریخ نہیں۔ تاریخ پیدائش اس لیے بھی نہیں مل پارہی کیونکہ جب وہ شہید کر دئیے گئے تو ان کے تمام اسناد بھی ضائع کر دئیے گئے تھے۔ سنہ ۸۰ء کی دہائی میں وہ گورنمنٹ ہائی اسکول گوپس سے میڑک کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے شہر قائد کا رُخ کرتے ہیں۔ اپنے قیامِ کراچی کے دوران وہ کراچی یونیورسٹی سے بی۔ ایس۔ سی (بیچلر آف سائنس) کا اِمتحان اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جی۔ ایس۔ ایف (غذر اسٹوڈنٹس فیڈریشن) کی بنیاد رکھ کر اس کے اوّلین صدر کی حیثیت سے اپنی سیاسی کیرئیر کا آغاز کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا رول ماڈل تصور کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی سے نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔

اُن دنوں جب وہ چھٹیوں پر اپنے گھر گوپس آئے ہوئے تھے۔ گوپس سے دو لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ عوام الناس جلسے جلوس کرتے ہیں۔ ضیا علی پہلی مرتبہ اس اغوا کے خلاف عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) کی اُس وقت کی انتظامیہ کے سربراہان چیف کمشنر خان عنایت اللہ خان اور فورس کمانڈر عبدالغفور خان گوپس پہنچتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ چیف کمشنر صاحب ضیا علی کی تقریر سے اس حد تک متاثر ہوتے ہیں کہ اسٹیج پہ آکر بڑے جذباتی انداز میں عوام سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ’’مجھے صرف چوبیس گھنٹے کی مہلت دی جائے اگر کل شام تک میں اُن اغوا شدہ لڑکیوں کو بازیاب کرانے میں کامیاب نہ ہوجاؤں تو خدا کی قسم! میری ایک ہی بیٹی ہے میں اُن کا نکاح ضیا علی سے پڑھوا لوں گا۔‘‘

ٹھیک چوبیس گھنٹے کے اندر اندر دوسرے دن شام سے پہلے ہی چیف کمشنر صاحب اُن اغوا شدہ لڑکیوں کو بازیاب کراکر ضیا علی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یوں یہ عوامی طوفان تو تھم جاتا ہے مگر ضیا علی دُشمنوں کی آنکھوں کا کانٹا بن جاتا ہے۔

پھر غذر سے ایف۔ سی ( فرنٹیر کور) کے انخلا میں بھی ضیا علی کی طرف سے ضلع گیر ہڑتالیں تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ضلع غذر میں امن و امان کا قیام بھی اسی کاوش کی مرہونِ منت ہے۔ ایف۔ سی کی بلڈنگ ابھی تک گاؤت گوپس میں خالی پڑی ہے۔ گلگت سمیت دیگر اضلاع میں ابھی تک غریب عوام ایف۔ سی کے رحم و کرم پر ہے اور امن و امان کے نام پر کروڑوں رقم ان کی نذر ہوچکی ہے جبکہ نتائج زیرو۔ خیر! یہ ایک الگ بحث ہے۔

یوں آئے روز اس نوجوان کی پوشیدہ صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آنے لگتی ہیں۔ کہتے ہیں جب وہ چھٹیوں میں گوپس اپنے گھر میں ہوتے تھے تو ان کے لیے کئی اعلیٰ شخصیات کی ٹیلی فون کالز آتی تھیں۔ اُس وقت صرف ہائی اسکول گوپس میں ٹیلی فون کی سہولت موجود تھی۔ پیپلز پارٹی سے نظریاتی وابستگی کی وجہ سے کئی دفعہ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد سے اُس وقت کی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے اسکول میں فون کیا اور اسکول انتظامیہ نے ضیا علی سے وزیراعظم صاحبہ کی بات کروائی۔ اس سے بھی آپ ضیا علی شہید کے سیاسی قد کاٹھ کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

میں ضیا علی شہید کے گھر میں نہ جانے کیوں ماضی کی پرچھائیوں کے پس منظروں میں کھو چکا تھا۔ ضیا علی کی ماں آنکھوں میں آنسو لیے اپنے لختِ جگر کی درد بھری داستان سنائے جا رہی تھی۔ پھر اس اعتماد کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوتیں کہ گویا میں ان کی درد بھری کہانی سن کر ان کو ان کا بیٹا واپس کرنے آیا ہوں۔

میں ایک دفعہ پھر ماضی میں کھو چکا تھا۔ مروَرِ زمانہ کے ساتھ وقت کی دُھول میں دن رات کا قافلہ گم ہوتا رہتا ہے۔ وادیِ گوپس ہے۔ فروری ۱۹۹۰ء ؁ کی بکھری بپھری ہوائیں چل رہی ہیں۔ ضیا علی کے والد محترم علی داد اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زمینداری کے کاموں میں مشغول ہے جبکہ بہن بھائی اپنی جان سے پیارے بھائی کی راہ تک رہے ہیں۔ ضیا علی بی۔ ایس۔ سی کی ڈگری لے کر کراچی سے اپنے گھر کی طرف رختِ سفر باندھ چکا ہے۔

میرے سامنے جگلوٹ تھانہ کی ایف۔ آئی۔ آر کی فوٹو کاپی پڑی ہے۔ جس کے مطابق ضیا علی اسلام آباد پہنچ کر ۱۰؍ فروری ۱۹۹۰ء ؁ کو ایک ویگن میں بیٹھ کر گلگت کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ویگن رات تین بجے پڑی بنگلہ پہنچ کر رُک جاتی ہے۔ ڈرائیور آگے جانے سے انکار کرتا ہے۔ سامنے واقع ایک مسجد میں پناہ لینے کے لیے ضیا علی سمیت دیگر مسافر وہاں چلے جاتے ہیں۔ مسجد خدا کا گھر………… امان، شانتی اور امن و آشتی کی جگہ۔ مگر ضیا علی سمیت دیگر مسافروں کے لیے قتل گاہ کا منظر پیش کرتی ہے۔ ان مسافروں سے مذہب کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ پنجتن پاک سے محبت کے جرم میں ان پانچ مسافروں کو مسجد میں جگہ نہیں دی جاتی ہے۔ ایک نامعلوم گاڑی میں ان کو بیٹھا کر چقر کوٹ کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ کٹھ مُلّا قتل کا فتویٰ دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے دین اسلام کو دُنیا میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ الحمدللہ! میں نے قرآن پاک حرف بہ حرف پڑھا ہے۔ احادیثِ نبویؐ کے مطالعے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ان تعلیمات کی روشنی میں، میں پورے وثوق اور ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ دین اسلام حلیمی، انکساری، برداشت، صبر، انسان دوستی، خیال داری اور بھائی چارگی کا درس دیتا ہے جس میں کسی بے گناہ کا قتل جائز نہیں۔ ہوسکتا ہے مُلّاصاحب کے ہاں اس کی اجازت ہو یہ مجھے نہیں معلوم۔ یوں ارضِ شمال کے اس قابلِ فخر فرزند کو دیگر مسافروں سمیت انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ ظلم و بربریت کی تاریخ رقم ہوجاتی ہے۔ سیاہ رات سیاہ سے سیاہ تر ہو جاتی ہے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے کہ کہاں وہ زمانہ کہ کفّار بھی مسجد میں داخل ہوتے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انہیں عام معافی کا اعلان کرکے ان کی نگہداشت خود فرما رہے ہوتے تھے اور کہاں اب………… شاید ایسی ہی مساجد کے بارے میں میرے دوست جمشید دُکھیؔ نے کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے ؂

مساجد آئے دن اِس شہر میں تعمیر ہوتی ہیں

ولیکن کعبۂ دِل ہر گھڑی مسمار ہوتا ہے

ضیا علی اور دیگر چار مسافرین جن میں دو ہنزہ خیبر کے اور دو نگر کے تھے، کو شہید کرنے کے بعد ایک ٹیوٹا گاڑی میں نامعلوم مقام کی طرف لے جایا جاتا ہے جبکہ ایک مسافر ملکی شاہ ولد رمضان ساکنہ بوبر پونیال کسی طریقے سے وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور دوسرے دن تھانہ جگلوٹ ضلع گلگت میں آکر اس واقعے کی ایف۔ آئی۔ آر درج کرتے ہیں۔

ایک ہفتے تک اس قابلِ فخر سپوت کی لاش تک غائب کر دی جاتی ہے مگر علاقے میں مسلسل جلسے جلوس اور اُس وقت کی انتظامیہ کی کاوشوں کی وجہ سے ۱۸؍ فروری ۱۹۹۰ء ؁ کی شام ضیا علی شہید کی لاش گوپس پہنچائی جاتی ہے۔ ضیا علی شہید کے والدین حسبِ معمول گھریلو کاموں میں مشغول، ان کے بہن بھائی منتظر کہ ان کا بھائی کراچی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اُن کے پاس آرہے ہیں۔ مگر کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا جگر گوشہ صرف کراچی کو ہی نہیں پوری دُنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکے ہیں۔ قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ماں باپ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ بہن بھائی اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ یوں سرزمین شمال کے اس قابلِ فخر سپوت کو ہزاروں چاہنے والوں کی سسکیوں اور آہوں میں ۱۹؍ فروری ۱۹۹۰ء ؁ کی صبح دس بجے ناردرن ایریاز پولیس کی سلامی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیوستِ خاک کیا جاتا ہے۔

ضیا علی شہید کو سپردِ خاک کرنے کے بعد اُس وقت کے ایس۔ پی غذر علی احمد جان اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں کہ ’’کچھ مہینے پہلے میں کراچی میں تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے باہر ہزاروں لوگوں پر مشتمل ایک مجمع تھا جو ایک نوجوان کی تقریر کو بڑی دلجمعی اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔ میں نے کسی سے تقریر کرنے والے کے بارے میں پوچھا توکہا گیا کہ شمالی علاقہ جات کا ایک نوجوان ہے۔ میرا تجسّس بڑھ گیا۔ میں نے ان کا نام دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ضیا علی نام ہے۔ غذر اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر ہیں۔ دوسرے دن میں نے گلگتی کچھ نوجوانوں سے اس نوجوان کے بارے میں معلومات لینے کے بعد ان سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایک ہفتے کے بعد ان سے صرف آدھا گھنٹے کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اُس آدھا گھنٹے کی ملاقات میں ہی میں اس نوجوان کی پوشیدہ صلاحیتوں کا قائل ہوا تھا۔ میں نے اُن کو شاباش دے کر کہا کہ آپ کراچی میں رہ کر ہمارا نام روشن کر رہے ہیں تو انہوں نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا تھا کہ میں بہت جلد اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں آکر اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کی باتوں میں صداقت تھی۔‘‘

کہنے والے کہتے ہیں کہ ایس۔ پی صاحب کی تقریر کے بعد لوگ جذبات پر قابو نہیں پا رہے تھے۔ وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر غذر غازی جوہر تقریر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں ہم نے ایک اور قائداعظمؒ کو مٹی میں ملا دیا ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت جلد قاتل قانون کے کٹہرے میں ہوں گے۔‘‘ مگر یہ صرف تسلیاں تھیں۔ اس فرزند کی شہادت نے سب کو جذباتی کر دیا تھا وہ اپنے بکھرے بپھرے جذبات پر قابو نہیں پا رہے تھے۔ پھر ضیا علی شہید کے نام ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کا خصوصی تعلیقہ مبارک (فرمان) آتا ہے جس میں شہید ضیا علی کی روح کے دائمی سکون کے لیے دُعائے اسیس اور علاقے کے لوگوں کو امن اور صبر سے رہنے کی تلقین پر علاقے میں امن و امان قائم ہوجاتا ہے۔

ضیا علی شہید کا قصور کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم۔ میرے سامنے ان کا سب سے بڑا قصور ان کا کھراپن تھا۔ جس کی وجہ سے وہ وقت کے ظالموں کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا تھا۔ بھلا ایسے کھرے انسان کو زندہ دیکھنا کس کو پسند تھا۔ ظالموں نے بے دردی سے ان کو راستے سے ہٹا دیا۔ ایسی شخصیات بار بار پیدا نہیں ہوتیں ان کے لیے صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر قائداعظمؒ ، لالک جان اور ضیا علی جیسے سپوت جنم لیتے ہیں اور مفکرِ پاکستان حضرت اِقبالؒ کو کہنا پڑتا ہے ؂

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

شاید یہی وجہ ہے کہ ضیا علی شہید کے بعد وادیِ گوپس کی اس پٹی میں کوئی لیڈرشپ سامنے نہیں آئی۔ یکے بعد دیگرے دوسرے علاقے کے لوگ ان پر حکومت کرتے رہے۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس پٹی میں اتفاق و اتحاد کا شدید فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے بے حسی پنپ رہی ہے۔

دانت کے درد نے مجھے ایک ایسے درد سے آشنا کیا تھا کہ میں اُس درد میں تڑپتے تڑپتے خیالوں کی دُنیا میں پہنچ چکا تھا۔ اتنے میں مولا داد نے چائے کی پیالی میری طرف بڑھا کے مجھے متوجہ کیا تھا کہ ’’سر! چائے لے لیں۔‘‘

میں نے چائے کی چسکی لی۔ ضیا علی شہید کی ماں روئے جا رہی تھی۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو کے دو قطرے بے اختیار گر پڑے تھے۔ ضیا علی شہید کی شہادت کو ٹھیک ۲۳؍ سال ہونے جا رہے ہیں۔ فروری ۲۰۱۳ء ؁ کو ان کی ۲۳؍ ویں برسی منائی جا رہی ہے مگر اتنا بڑا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی لگتا یہ ہے کہ گویا صرف ۲۳؍ دن گزر چکے ہوں۔ وہی ماتم، وہی درد، وہی آنسو، نہ جانے کیا کیا۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ ربّ کے حضور دیر ہے اندھیر نہیں۔ کہنے والوں نے کہا، سننے والوں نے سنا اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ضیا علی کے قتل میں جو لوگ ملوث تھے وہ یکے بعد دیگرے عبرتناک موت سے دوچار ہوئے۔ جس ڈرائیور نے ویگن روکی تھی اور آگے جانے سے انکار کیا تھا وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ گاڑی حادثے میں دریا برد ہوئے اور اس کی لاش تک نہیں ملی جبکہ دوسرے قاتل کے گھر میں پریشر ککر پھٹنے سے ان کا پورا خاندان راگ کے ڈھیر میں تبدیل ہوا اور جس ملّا نے قتل کا فتویٰ دیا تھا وہ پاگل ہوکر عبرت ناک موت سے دوچار ہوئے۔ جی ہاں! ربّ کے حضور دیر ہے اندھیر نہیں۔

ان تلخ یادوں کے ساتھ نہ جانے میں کب نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم۔ صبح جلد ہی میری آنکھیں کُھل گئی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد میں اس قابلِ فخر سپوت کی قبر پہ فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ ہلکی سی برف پڑی ہوئی تھی۔ موسم ابرآلود تھا۔ اس سے کئی گنا زیادہ میرے دِل کا موسم ابرآلود ہوچکا تھا۔ دسمبر کی برفانی ہوائیں اوؤر کوٹ کو توڑ کر میرے سینے میں چُبھ رہی تھیں۔ ضیا علی شہید کی قبر میں نہ جانے کیا بات تھی میری نظریں مٹی کے اُس ڈھیر پر جم کر رہ گئی تھیں۔ ضیا علی شہید تو منوں مٹی تلے ابدی نیند سو چکا تھا مگر مجھے ایسا لگا کہ جیسے مٹی کا یہ ڈھیر مجھ سے مخاطب ہے اور دھمکی دینے والوں کی یاد دلا رہا ہے ’’جان عزیز ہے تو اس طرح کی تقریریں کرنے سے باز رہے ورنہ آپ کا انجام بھی ضیا علی جیسا ہوگا۔‘‘

بے احتیاطی میں بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔

میری دُعا ہے کہ ربّ ضیا علی شہید کی روح کو دائمی سکون نصیب فرمائے۔ آمین!

جبینِ دہر پہ لکھوں میں دردِ دِل کیسے

قلم کی نوک میں گنجائشِ سخن کم ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button