کالمز

شرارتی چڑیا، گوپس کی بچی اور قومی ترانہ

وادیٔ گوپس کے ساتھ کیا مسلہ ہے کہ اس سرزمین میں قدم رکھتے ہی صحت ناساز رہتی ہے۔ کل بھی ایسا ہوا تھا۔ دانت میں شدید درد نے سونے نہیں دیا تھا۔ میڈیکل اسٹور سے پین کلر لاکے دو تین گولیاں میں نے ایک ساتھ لی تھیں پھر خدا معلوم کب نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ صبح شاید دیر سے آنکھیں کھلتیں لیکن کھڑکی پر ٹک ٹک کی آواز نے جلد ہی جگا دیا۔ میں حیران تھا اتنے سویرے میری کھڑکی پر کون یہ حرکت کر رہا ہے۔ ساتھ والے کمرے میں ساتھی خاتون تھی سوچا وہ کسی کام سے آئی ہوگی۔ خیر بادل نخواستہ بوجھل قدموں کے ساتھ میں نے کھڑکی کے پردے سرکائے تھے اور کھڑکی کا پلا کھولا تھا۔ پھر جہاں دھوپ کی کرنوں سے آنکھیں چندھیا گئی تھیں وہاں گوپس کی ٹھنڈی ہواؤں نے بھی لب و رخسار کا دیوانہ وار بوسہ لیا تھا۔ اسی اثنا معلوم پڑا کہ ٹک ٹک کرنے والا کوئی اور نہیں ایک شرارتی چڑتا تھی۔ کھڑکی پر ایسے شیشے لگے تھے جو باہر سے آئینے کی طرح تھے چڑیا کو اس آئینے میں اپنا عکس نظر آیا تھا اور وہ شاید اس کو دوسری چڑیا سمجھ کر اس کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ جس کی وجہ سے ٹک ٹک کی آواز گونج رہی تھی۔ گوپس جس ہوٹل میں میری رہائش تھی وہاں کی ایک کھڑکی روڑ کی طرف کھلتی ہے۔ میرا اس طرح اچانک کھڑکی کھولنے سے جہاں چڑیا فرار ہوئی تھی وہاں میری نظریں سامنے برلبِ سڑک اس بچی پر پڑیں تھیں جو کتابوں سے بھرے بیگ کو اپنے معصوم کاندھوں پر لٹکائے سکول کی طرف رواں دواں تھیں۔ اس کو شاید سکول کے لیے دیر ہوئی تھی۔ وہ تیز تیز چل رہی تھی۔ پھر وہ بچی یکایک مشینی انداز میں رک گئی تھی۔ رک کیا گئی تھی بس ایسی کھڑی ہوگئی تھی جسے فوجی جوان پریڈ کے دوران ہوتے ہیں۔ میں نے جب غور سے دیکھا تو قریب کسی سکول کی اسمبلی سے قومی ترانے کی آواز گونج رہی تھی اور یہ ننھی سی جان قومی ترانے کے احترام میں ایسی کھڑی تھی کہ معصوم کندھوں پر کتابوں سے بھرے بیگ کے بوجھ سے گویا ایک طرف جھکی جا رہی تھی۔ جونہی ’’سایۂ خدائے ذوالجلال‘‘ کے ساتھ ترانہ ختم ہوا۔ یہ ننھی سی جان کتابوں کے بوجھ سے نڈھال ہوکر ایک طرف گر گئی تھی۔ پھر کچھ دیر کے بعد وہ اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور اس وزنی بیگ کو کاندھوں پر لٹکائے تیز تیز چلنے لگی تھی اس کو سکول کے لیے دیر جو ہوئی تھی۔ کتابوں کا وہ بیگ کافی بڑا تھا لیکن اس ننھی پری کے دل میں قومی ترانے کا احترام اور وطن کی محبت اس سے کئی گنا بڑی تھی شاید وہ اس لیے قومی ترانے کے اختتام تک اس وزنی بیگ کو اپنے معصوم کاندھوں پر برداشت کئے جا رہی تھی۔ وہ چاہتی تو قومی ترانے کے درمیان بھی بیگ زمین پر رکھ سکتی تھی لیکن اس ننھی سی جان کو وطن کی محبت روک رہی تھی۔ ایک ننھی سی جان میں وطن کی اس بے پناہ محبت کو دیکھ کر جہاں میں خوشی سے سرشار ہو رہا تھا اور میرا دانت درد بھی پس منظر میں چلا گیا تھا وہاں مجھے اس پاگل جنرل امجد شعیب اور اس لفافہ صحافی محمد مالک کی وہ بے تکی باتیں یاد آرہی تھیں۔ کہاں ایک معصوم بچی کے دل میں وطن سے محبت اور قومی ترانے کا یہ احترام اور کہاں ان پاگلوں کی زبانی کہ گلگت بلتستان والے ملک کے وفادار نہیں۔

کل کا پورا دن میرا ان خیالات کے ساتھ گزرا۔ پھر ناشتے کے بعد ہم (اشرف خان، حمیرا اور راقم) پھنڈر جا رہے تھے۔ حمیرا بی بی کا تعلق کراچی سے ہے۔ وہ فلیڈ ڈیوٹی پر آئی ہوئی تھی۔ وہ راستے میں شہیدوں کی قبروں پر پاکستان کے جھنڈے دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں۔ ’’اتنی قربانیوں کے باوجود پھر بھی آپ پر یہ الزام کیوں کہ آپ ملک کے وفادار نہیں۔‘‘ حمیرا کا سوال پچھلی سیٹ سے میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ میں نے حمیرا کے اس سوال پر ان کے سامنے علامہ اقبالؒ کا یہ شعر رکھا تھا؎

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دلدار نہیں!

جب ہم وادی پھنڈر پہنچے تو حمیرا حیران رہ گئی۔ بنیادی سہولیات سے محروم وادی پھنڈر کے ہر گھر کے در و دیوار پر دل دل پاکستان اور جان جان پاکستان کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔ یہ ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ والی حرکت نہیں تھی بلکہ یہاں کے باسیوں کو ان کے امام نے اپنے فرامین میں فرمایا تھا کہ اپنے ملک پاکستان کے وفادار شہری بنو۔ یہ امام کے فرمان پر عمل کی ایک جھلک تھی۔

اب ہم پھنڈر کے آئی لینڈ میں تھے۔ آئی لینڈ کیا تھا۔ سبزہ زار اور پھولوں کا مسکن۔ یہاں پہنچ کے یقین نہیں آرہا تھا کہ روئے زمین پر ایسا منظر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمیں کئی برس پہلے رحیم گل کی کتاب ’’جنت کی تلاش‘‘ میں پڑھا ہوا یہ جملہ بے ساختہ یاد آیا تھا۔ انہوں نے دیوسائی کے بارے میں لکھا تھا ’’اگر اٹالین یا سپینی سیاح نے یہ منظر دیکھا ہوتا تو یقیناً اس نتیجے پر پہنچتے کہ خدا ہے اور یہی اس کا گھر ہے۔‘‘ ہمیں بھی ایسا ہی لگا تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب آئی لینڈ ہوٹل کے سبزہ زار میں جگہ جگہ پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا تھا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا وہاں موجود ایک مقامی ملازم سے پوچھا ’’ہوٹل میں ان جھنڈوں کا کیا کام؟‘‘ تو انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا ’’سر! یہ تو ہماری پہچان ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’اس بے لوث محبت کی وجہ؟‘‘ تو کہنے لگے ’’سر! میں ان پڑھ آدمی ہوں مجھے وجہ کا نہیں پتہ ہاں اتنا پتہ ہے کہ میرے امام نے فرمایا ہے کہ ملک کے وفادار شہری بنو۔ اب ایک وفادار شہری اپنی محبت کا اظہار ان جھنڈوں کی صورت میں ہی کرے گا ناں؟‘‘ میں یہ سب سن کے سرشار ہو رہا تھا۔

میں نے اسی اثنا حمیرا کو آواز دی اور ان سے کہا کہ اسی جھنڈے کے نیچے میری ایک خصوصی تصویر لے لیں۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا تھا ’’خصوصی تصویر؟‘‘ میں نے کہا ہاں خصوصی تصویر، یہ تصویر میں جنرل امجد شعیب اور اس لفافہ صحافی کے نام خصوصی پوسٹ کردوں گا۔ اگر وہ انسان کے بچے ہیں تو اس ایک تصویر میں ہی یہاں کے عوام کی سرزمین پاکستان کے لیے بے لوث محبت کا نظارہ دیکھیں گے۔ اگر نہیں تو ان کے تعصب پر ہم کفِ افسوس ہی مل سکتے ہیں۔‘‘

حمیرا اور اشرف ماموں نے تصویر کھینچی۔ میں جب بار بار اشرف کو ماموں کہ کے پکارتا تو حمیرا کہتی۔ ماموں؟ جی ماموں! میں اشرف کو ماموں بنا نہیں رہا بلکہ وہ رشتے میں میرے ماموں لگتے ہیں۔ ماموں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ایسے ایسے لطیفے سنائے کہ مزہ آیا۔ بہرحال ہنسی مذاق کے ساتھ اچھا سفر رہا۔ ان کے شکریے کے ساتھ میں نے ضروری سمجھا کہ کیپشن کے طور پر کچھ لکھوں بھی۔ تاکہ دُنیا کو یہ تو پتہ چلے کہ بنیادی سہولیات سے محروم اس خطے کے عوام پاکستان سے کتنی ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان کو اس سے کیا غرض کہ ان کے پاس اچھا سکول نہیں، اچھی صحتی سہولیات نہیں ان کے پاس پاکستان کا جھنڈا ہے ناں۔ بھلا ان کو اور کسی چیز کیا ضرورت۔ اس شرارتی چڑیا کا بھی شکریہ کہ وہ مجھے نہیں جگاتی تو شاید میں محبت میں ڈوبی اس ننھی سی بچی کو بھی نہیں دیکھ پاتا۔

شرارتی چڑیا تمہارا شکریہ کہ تم نے ہماری آنکھیں کھولیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button