تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا سنگم، دریائے سندھ کی یخ ہوائیں اور ہم
گلگت سے بونجی کے سفر میں جہاں ہوم آف این ایل آئی میں فوجی بھائیوں سے ملاقات اور دفاع وطن کے لیے ان کے عزم کو سلام پیش کرنے کا جذبہ ہمیں بے چین کیے دے رہا تھا وہاں راستے میں پہاڑی سلسلوں کی دلکشی نے ہمیں رکنے پر مجبور کیا۔ میرے پس میں ڈھلتی شام اور ڈوبتے سورج کی زردی مائل آج خلافِ توقع رفتگان کی یاد دلانے کی بجائے تین عظیم پہاڑوں کی گود میں اتر کر ایک عجیب سرشاری طاری کر رہی تھی۔ کون کہتا ہے کہ پتھر نہیں ملتے ہیں؟ یہ الگ بات ہے پتھر دل محبت کرنے والوں کو ملانے نہیں دیتے پتھر تو ملتے ہیں۔ ارے میاں! ہم ایک ایسے دیس کے باسے ہیں جہاں پتھر تو چھوڑ پہاڑ بھی گلے ملتے ہیں یقین نہیں آتا تو ذرا گلگت کی سیر کیجئیے گا۔ آپ کو گلگت کے شروع میں یعنی جگلوٹ کے مقام پر دُنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہِ ہمالیہ، کوہِ ہندوکش اور کوہِ قراقرم گلے ملتے ہوئے ملیں گے۔ اس تصویر میں اس کی ہلکی جھلک دیکھی جاسکتی ہے لیکن ڈھلتی شام اور سورج کے غروب ہونے کی وجہ سے منظر خواب خواب سا لگتا ہے۔ ہم بھی اس منظر میں کہیں کھو گئے تھے۔ اگر دریائے سندھ کی یخ ہوائیں جیکٹ اور بینان کو توڈ کے سینے میں نہ چبھ رہی ہوتیں تو شاید ہم دیر تک بے خبر رہتے۔ کسی دل جلے نے خوب نے کہا ہے؎
بے خودی میں ہم تو تیرا در سمجھ کر جھک گئے
اب خدا معلوم کعبہ تھا کہ وہ بت خانہ تھا
اور ہماری یہ حالت دیکھ کر گویا یہ پہاڑ ہم سے مخاطب ہوئے تھے؎
بت کہتے ہیں کیا حال ہے کچھ منہ سے تو بولو
ہم کہتے ہیں سنتا نہیں اللہ ہماری
مجھے حیدر علی آتش اور ان کا ہندوستاں یاد آیا تھا؎
الہٰی ایک دل کس کس کو دوں میں
ہزاروں بت ہیں یاں ہندوستاں میں
میرے اندر کا واعظ مجھ سے مخاطب تھا؎
نہیں یہ آدمی کا کام واعظ
ہمارے بت تراشے ہیں خدا نے
پروردگار کی صناعی، فطرت کی اس کاریگری اور ان بے مثال پہاڑی سلسلوں کے حسین امتزاج کی رعنائی پر ربِ کائنات کے حضور سجدہ ریز ہونے کو دل کر رہا تھا۔ ایسے عالم میں ہمیں پروفیسر کمال الہامی اور ان کا یہ شہرۂ آفاق شعر یاد آیا تھا۔ بڑی چاؤ اور چاہت سے یہ شعر گنگناتے ہوئے ہم گاڑی میں بیٹھے تھے؎
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیج میں ہم ہیں
مثالِ گوہرِ نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں