کالمز

ہفتۂ نور

بیس اکتوبر سے چھبیس اکتوبر کو خطہ شمال کے شیعہ امامی اسماعیلی مسلمان اپنے محبوب امام حضرت نور مولانا شاہ کریم الحسینی (جس کو باقی دُنیا ہزہائینس پرنس کریم آغاخان چہارم کے نام سے جانتی ہے۔) کی اس خطے میں پہلی آمد کی یاد میں ہفتۂ نور کے نام سے مناتے ہیں۔ کیونکہ یہ پوری اسماعیلی تاریخ کے چودہ سو سالوں میں پہلے امام ہیں جن کو بنفس نفیس بیس اکتوبر انیس سو ساٹھ کو اس خطے میں آکر قدم رنجہ فرمانے اور ایک ہفتے تک خیمہ زن ہوکے اپنی جماعت کو دیدارِ مبارک کے فیوض و برکات سے فیض یاب کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کہتے ہیں اس گھر کی قسمت پر تو فرشتے بھی نازاں ہوا کرتے ہیں جس گھر کے مہمان اہلِ بیت کے امام ہوں۔ اس لحاظ سے خطہ شمال کیوں اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو کہ آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلِ بیت کے زندہ و حاضر امام زمانہ ایک ہفتے تک اس خطۂ جمال و کمال کے باکمال مہمان ٹھہرے۔

مجھے رہ رہ کے حضرت امام سلطان محمد شاہ  (آغا خان سوم) کا وہ فرمان یاد آتا ہے جب دس مارچ انیس سو چالیس کو آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے شمالی سرحداتِ ہندوستان کی اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فارسی زبان میں صرف دو منٹ کا فرمان فرماتے ہیں۔ اس فرمان کو سننے کے لیے ارضِ شمال کے طول و عرض سے جماعت کا ایک جمِ غفیر میر آف ہنزہ کے دربار میں پہنچتا ہے پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب امام زمانہ کی مبارک آواز وہاں موجود جماعتوں کی سماعتوں میں رس گھول دیتی ہے۔ فرماتے ہیں:

’’تمام فرزندانِ شمالی سرحداتِ ہندوستان و بدخشان، تمام دوستداران و مخلصان را بدعائے خیر یاد میکنم ۔‘‘

یعنی شمالی سرحداتِ ہندوستان (یاد رہے اس وقت پاکستان معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا۔) کی تمام روحانی فرزندوں اور بدخشان کے تمام دوستداروں اور اخلاص مندوں کو نیک دُعا میں یاد کرتا ہوں۔

پھر فرماتے ہیں:

’’بہ آموختنِ علمِ فرزندانِ خود سعی نمائید و دانستن زبانہائے یورپ و زبانِ انگلیسی جہد کنید۔‘‘

یعنی اپنی اولاد کو علم سکھانے کے لیے کوشش کرتے رہنا، یورپ کی زبانیں اور انگریزی زبان سیکھنے کے لیے کوشاں رہنا۔

پھر بڑی اُمید دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یقین دارید کہ نورِ محبت و لطفِ من برسائر جماعۂ ہنزہ مثلِ خورشید خواہد رسید۔‘‘

یعنی یقین رکھو کہ میری محبت و عنایت کا نور ہنزہ (اس وقت یہ پورا خطہ ہنزہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔) کی پوری جماعت پر سورج کی طرح طلوع ہوجائے گا۔

امام کی یہ یقین دہانی بیس اکتوبر کو سچ ثابت ہوئی تھی۔ جب اس سلسلے کے اونچاسویں امام کے نور کی کرنیں پہلی دفعہ نہ صرف یہاں کی جماعت پر بلکہ شمال کے پہاڑوں پر بھی ایسی چمکی تھیں کہ یہ پہاڑ بھی مثلِ یعقوت بنے تھے۔

لفظِ دیدار یا امامِ زمانہ کا چہرۂ انور کا نظارہ کرنا ’’این سعادت بزور بازو نیست‘‘ کے مصداق ہر کس و ناکس کے مقدر میں نہیں ہوتا ہے۔ سیدنا پیر ناصر خسروؒ اپنے زمانے کے امام حضرت امام مستنصرباللہ علیہ السلام کے ہاتھ پہ بیعت کرنے اور ان کے دیدار سے شرف یاب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں؎

بر جان من چو نورِ امامِ زمان بتافت

لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم

ترجمہ: ’’جب میری روح پر امامِ زمانہ علیہ السلام (کے فیضانِ باطن) کا نور چمکا تو میں روشن سورج بن گیا جبکہ اس سے قبل میری حیثیت اندھیری رات کی تھی۔‘‘

پیر موصوف کے اس شعر کے مصداق امامِ زمانہ کے دیدار سے پہلے یہاں انسانی زندگی غربت و افلاس کے اندھیروں میں منجمد ہوکر رہ گئی تھی۔ آپ نے تعلیم، صحت اور بچت پر نہ صرف زور دیا بلکہ آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذریعے جماعتی اور امامتی اداروں کا جال بچھاکر عملی طور پر کام کا آغاز کیا اور آج باسیانِ خطۂ شمال جس مقام پر کھڑے ہیں یہ آپ کا وژن اور بصیرت کا نتیجہ ہے۔ پیر ناصر خسروؒ نے بڑا حسبِ حال شعر کہا ہے۔ فرماتے ہیں ؎

معزول شُد دُو چیز جہاں از دُو چیزِ تو

از علم تو جہالت و از جود تو متال

ترجمہ: ’’(اے میرے امام!) آپ کی دو چیزوں نے دُنیا سے دو چیزوں کا خاتمہ کردیا۔آپ کی علم پروری نے جہالت اور آپ کی سخاوت نے غربت کا خاتمہ کر دیا۔‘‘

کیوں نہ جس امام نے منصبِ امامت پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے پہلا فرمان ہی کچھ ایسا کیا ہو کہ جس میں بے پناہ خلوص اور محبت چھلکتی ہو۔ تیرہ جولائی انیس سو ستاون کو آپ نے فرمایا تھا:

“My beloved spiritual children! I will do everything possible for your worldly and spiritual up-liftment. As you were in my beloved grandfather’s heart and thought, you will be mine.”

انیس سو ستاسی کو غذر کے دورے کے دوران آپ نے فرمایا تھا:

“When I will come back, this whole valley will be green.”

الحمدللہ! آج نہ صرف ایک وادی سرسبز ہوئی ہے۔ بلکہ ضلع غذر سمیت، گلگت بلتستان کی ایک ایک گلی روشن ہوئی ہے۔ ایک ایک وادی ظاہری و باطنی طور پر سرسبز و شاداب ہوئی ہے۔ کیوں نہ ہو، خدمت تو آپ کے خاندان کی ایک عظیم روایت رہی ہے۔ ملکِ خداداد پاکستان کے قیام میں بھی آپ کے آباؤاجداد خصوصاً سرآغاخان سوئم کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کی ان بے لوث خدمات کے اعتراف میں گلگت بلتستان کے ایک نامور عوامی شاعر اور ادیب جمشید خان دُکھی، جو بذات خود اسماعیلی نہیں ہیں، اپنے جذبات کا اظہار اپنے اشعار میں کچھ یوں کرتے ہیں؎

ظلمت کدوں میں شمعِ فروزاں ہے شاہ کریم

اہلِ وطن پہ کتنا مہرباں ہے شاہ کریم

گلشن کے ارتقا میں بڑا ان کا ہاتھ ہے

سچ پوچھئے تو جانِ گلستاں ہے شاہ کریم

کہتے ہیں روشنی کو کفِ دست میں نہیں چھپایا جاسکتا۔ اس لیے میرے پیارے امام کی نوازشات کو بھی دُنیا فراموش نہیں کرسکتی۔ میرا تو یقین ہی نہیں بلکہ یہ میرا عقیدہ ہے کہ جب تک سورج کی کرنیں زمین پر پڑتی رہنگی، جب تک چاندنی اپنی ٹھنڈک بکھیرتی رہے گی اور جب تک زمین پر انسان زندگی گزارتا رہے گا ایک حاضر و موجود امام کی نوازشات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ پیر ناصر خسروؒ فرماتے ہیں ؎

دین جد خویش را تازہ کند

آن امام ابنِ امام ابنِ امام

ترجمہ: ’’ہر زمانے میں دین کو تازگی و آبیاری ایک امام کے بعد اس کا بیٹا امام اور اس کا بیٹا امام ہی دے سکتا ہے۔‘‘

آئیں کہ اس اہم موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ اپنی نئی نسل کو تعلیم  کی نعمت  سے فیضایب کریں  کیونکہ یہ دین اسلام میں امام اوّل حضرت علی علیہ السلام کی اس عقلی روایت کا بھی  تسلسل ہے اور ہمارے آج اور کل کی ضرورت بھی!

اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہوں۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button