کالمز

کوہ ہندوکش کی یخ بستہ ہوائیں اور جنگلی حیات

تحریر :ظفراقبال

کوہ ہمالیہ اور قراقرم کے بہ نسبت کوہ ہندوکش پہاڑی صحراؤں پر مشتمل ہے۔اس پہاڈی سلسلے میں سنگلاخ اور فلک بوس چٹانوں کے علاوہ کہیں کہیں ہری بھری ڈھلوان نما پہاڈ بھی موجود ہیں ،جہاں پانی چشموں سے نکل کر ڈھلوان نما میدانوں کو سیراب کرتا ہے،یہ سبزہ زار میدان یقیناً ورئے زمین پر اللہ کی طرف سے اس خطے کے لئے عظیم نعمت سے کسی طور بھی کم نہیں ،یہ ہرے بھرے میدان مئی کے آغاز سے عام چراگاہ بن جاتیں ہیں ،علاقے کے لوگ اپنے مال موشیوں کو چار یا پانچ مہنے کے لئے ان نالوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔یوں اپریل سے ہندوکش کے وادیوں میں چہل پہل شروع ہوتی ہے۔پرندے چہچہاتے ہیں،خوشی کے گیت گاتے ہیں،یہ ان کی ملن کا مہنہ ہوتا ہے ،اُنچے پہاڑوں سے جرنے اور ابشاریں گیت گاتے ہوئے وادیوں میں گرتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات بھی ان قدرتی مناظر سے خوب لطف اندوز ہوتے  تھے۔ان جنگلی حیات میں مارخور اور ماکوپولو شیپ کثير تعداد میں پائے جاتے تھے۔کیونکہ مہا راجہ پرتاب سنگھ نے اپنے عہد امارات میں پوری ریاست میں جنگلی حیات کی نسل کشی کو روکنے کے لئے قانون سازی کر رکھی تھی۔یہی وجہ تھی کہ کھلے عام ان جانور کا شکار جرم تھا ،اور جرم کے مرکتب افراد کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جاتی تھی۔
شومہ قسمت کہ سن ١٩٦٠ کے بعد ان جانوروں کا انتہائی بے دردی کے ساتھ شکار کیا گیا،یہاں تک کہ پامیر اور ہندوکش میں ان جانوروں کی نسل معدوم ہو چکی ہے۔
قانون تو موجود ہے ،لیکن اکثر اوقات قانون کے رکھوالے ہی اس جرم میں برابر کے شریک پائے گئے ہیں۔
بے رحم اور بے لگام شکاری جانوروں کے ساتھ ساتھ نیاب پرندوں کی شکار سے بھی گریز نہیں کرتے ،جن میں شاہین ۔گولڈن ایگل ،رام چکور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
کوہ ہندوکش کی فضاؤں میں راج کرنے والی ،،سنہرے عقاب ،، کی زندگی خطرے سے دوچار ہے،اگر ان پرندوں اور جنگلی حیات کی زندگیوں کو بچانے کے لئے بروقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے ،تو کم ہی عرصے میں ان کی نسل معدوم ہو جائیں گی،
اور ہماری انے والی نسلیں ان جانوروں اور پرندوں کی صرف کہانیاں ہی سنیں گی۔
کوہ ہندوکش میں پائی جانے والی مارکوپولو شیپ دنیا بھر میں مشہور ہے،
١٣ویں صدی عسوی میں جب اطالوی سیاح مارکوپولو دشت پامیر سے گزر رہا تھا ،تو پہلی دفعہ اس شیپ کا ذکر اپنے  سرگزشت سفر  میں کر چکا ہے،بعض تاریخ نويسوں کا خیال ہے، کہ ماکوپولو نے اسی راستے سے قبلائی خان کے دربار تک رسائی حاصل کیا تھا،یہ صرف قیاس ارائی ہے یا حقیقت ،اس پر کچھ کہنا قبل ازقت ہے ،کیونکہ کچھ لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں ،کہ مارکوپولو ایران سے اگے گیا ہی نہیں تھا،اور لوگوں سے سنی سنائی باتوں کو اپنے سفر نامے کا حصہ بنا لیا،
قوی امکان ہے کہ اس زمانے میں مارکوپولو شیپ یہاں پر کثير تعداد میں پائے جاتے تھے ،لیکن آج ہم اُس دور سے موازنہ کرتے ہیں، تو ان کی دس فیصد نسل ہی آج زندگی کی آخری سانسیں لے رہیں ہیں،یہ حکومت وقت کی زمہ داری ہے کہ ان جانوروں کی زندگیوں کو بچانے کے لئے قانون پر عمل درامد کرائے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button