کالمز

سسرالیوں کے دیس ہنزہ میں

دوہزار گیارہ کے بعد آج کسی پروگرام کے سلسلے میں ہنزہ کی پہلی یاترا ہوئی۔ آج جب کئی سالوں بعد دوبارہ اس خوبصورت وادی کے تاریخی شہر کریم آباد پہنچا تو سورج کی آخری کرنیں ہنزہ کی پہاڑوں کو ایسے بوسہ دے رہی تھیں جیسے کوئی حسینہ اپنے لبوں پر لپ اسٹک کی آخری ٹچ دے رہی ہو۔ دو ہزار چھ اور دوہزار گیارہ پورے دو سال میں اپنی پروفیشنل مصروفیات کی وجہ سے ہنزہ میں خیمہ زن رہا ہوں۔ اس لیے کریم آباد میں داخل ہوتے ہوئے یادوں کے ایک طوفان نے گھیر لیا۔ فرحت عباس شاہ ایسے ہی یاد نہیں آئے؎

تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ

تو کسی روز میرے گھر میں اُتر شام کے بعد

شام کے پھیلتے سائے کے ساتھ جہاں یادوں کے دیے جلے وہاں تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتی ہنزہ کی ہلکی قدرے خنک ہواؤں سے کچھ ایسا آمنا سامنا ہوا جیسے کبھی میروں کے سامنے ان کے رعایا دست بستہ کھڑے ہوجاتے تھے۔

آپ چاندنی راتوں میں ہنزہ ناصر آباد سے خوبصورت نگر کے تاریخی گاؤں مناپن کا نظارہ کریں یا پھر آپ کی نظریں پھسل کر راکاپوشی کی برف پوش چوٹیوں پر پڑے تو آپ سانس لینا بھول جائیں گے۔ برف پر رقصاں تخیل کی پریاں آپ سے ہمکلام نہ ہوں تو کہہ دینا۔ یہ شعر ایسے ہی کسی منظر کا حال بیان کرتا ہے؎

کریمی! راکاپوشی کے نظارے

سکوتِ شب میں بہتر بولتے ہیں

یہ الگ بات کہ ہمیں ہنزہ کی سکوتِ شب کی پریاں نہیں بلکہ دن کے اجالے میں سوسن پری ملی تھی۔ پریاں تو پریاں ہوتی ہیں دن کی ہوں یا رات کی، اپنی یادیں چھوڑ ہی جاتی ہیں۔ آج بھی جب میں گلگت سے سسرالیوں کے دیس ہنزہ کی طرف پا بہ رکاب ہوا تو سوسن نے شوخی سے پوچھا تھا ’’واپسی کب ہوگی؟‘‘ ہم کہاں چپ رہنے والے تھے جواب میں کہنا پڑا ’’دعا کریں پھر کسی پری سے آمنا سامنا نہ ہو۔‘‘ سوسن شکی مزاج بیوی نہیں ہیں انگلش لڑیچر کی طالبہ ہیں، کہنے لگی ’’تخیل کی پری ناں؟‘‘ میں نے کہا ’’آپ کے بعد تخیل کی پریوں سے بھی سرگوشی ناانصافی لگتی ہے۔‘‘ پھر کیا تھا سوسن نے بڑے مان اور شان سے مجھے گاڑی میں بٹھا کے رخصت کیا تھا۔

شام کی سیر کے بعد زیرو پوائینٹ میں ایک کیٹین کی چائے نے جہاں سوسن کی ادراک والی چائے کی یاد تازہ کی وہاں ٹوٹے بدن کی تھکاوٹ بھی کافور کر دی۔ کسی فارسی گو نے خوب کہا ہے؎

چائے و چینی در کف ہر نا سزا حیف است حیف

مثلِ گل خنداں بدستِ نوجوانان است چائے

چائے سے یاد آیا کہتے ہیں ایک راہ گیر نے کسی ہنزہ والے سے ٹھیٹ شینا میں بڑی سادگی سے پوچھا تھا ’’وا موشا وا! او غضنفر پچھا اے کیٹین کون ہن؟‘‘ یعنی غضفر چچا کی کینٹین کہاں ہے؟ ہنزہ والے نے سمجھا یہ دربار ہوٹل کو غضنفر چچا کی کینٹین سمجھ کر پوچھ رہا ہے۔ اس نے راہگیر کو سمجھایا یہاں کینٹین کی چائے ہی اتنی مہنگی ہوتی ہے کہ دربار ہوٹل کا سوچ کر ہی چائے کی پہنچ سے دور رہنے کو دل کرتا ہے۔

ہنزہ کی اس پہلی رات نے گویا سفر زیست اور یادِ ماضی سے ایسے روبرو کیا کہ ایک بار پھر فرحت عباس یاد آئے؎

رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا

کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button