کالمز

سلطانہ برہان الدین، ایک نابغہ روزگار شخصیت

تحریر: امیرنیاب

زمین سلامت بہچیکو ای وجاہ ہایا
محترم انسان دنیائی کم نوما بونی

کیا اپ کی بیٹی یا پڑوس میں کسی کی بیٹی بہت ہی ذہیں اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے سنجیدہ اور شوق اور رکھتی ہے؟ کیا اس میں وہ صلاحیت بھی موجود ہیں کہ وہ آگے جاکر معاشرے کی بہتری کے لئے کچھ کرسکیں؟ اگر ہے کوئی، تو موقع ضائع نہیں کرنا۔ ان کو آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول کے انٹری ٹیسٹ میں شامل کراو اور پاس کرنے کی صورت میں پرنسپل صاحبہ خود ان کا خیال بھی رکھے گی اور مشکل حالات میں ان کی بھرپور رہنمائی اور مدد بھی کرے گی۔ پرنسپل بی بی سلطانہ کا ارادہ بلکل واضح ہے ان کا کہنا ہے کہ ہزہائنس کا وژن بھی یہی ہے کہ اداروں کی سب سے بڑی کامیابی بھی یہی ہوگی کہ کسی غریب خاندان سے کوئی ڈاکٹربنے، سی ایس ایس افیسر، آرمی افیسر ز بنکر ملک و قوم کے لئے خدمات انجام دیں۔ اس سے بڑھ کر ادارے کی کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی، جس کے لئے جو بھی قربانی دینا پڑجائے سکول کے پرنسپل اور اسکی ٹیم اپنی طرف سے ممکن تعاون اور بھرپور کوشش میں مصروف ہیں۔ میرے علم میں ایسے کافی کیسز ہیں کہ مالی مشکلات کی وجہ سے لوگ اپنے بچیوں کو سکول میں داخلہ نہیں کرانا چاہتے تھے لیکن پرنسپل صاحبہ کی ذاتی دلچسپی اور کوششوں کی وجہ سے انکے داخلے ممکں ہوا ہے۔

پرنسپل سلطانہ کی سب بہتریں خوبی یہ ہے۔ کہ اگر کوئی لڑکی آغاخان ہائیر سکول کوراغ میں انٹری ٹیسٹ پاس کر لیتی ہے اور اس لڑکی میں قابلیت ہونے کے باوجود مالی مشکلات کا سامنا ہو تو پرنسپل صاحبہ ہر حال میں اس کو سکول میں موقع فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ وہ اس کے مالی سپورٹ کے لئے سکول انتظامیہ کے علاوہ اپنی ذاتی کنکشن میں بھی انکی مالی سپورٹ کے لئے کوشاں رہتی ہے۔

ہر شعبہ زندگی میں افراد کار کی روز افزوں ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بنیادی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری معلم یا مدرّس پرعائد ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتی ہے جہاں وہ مختلف اشیا ء کے ناموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا سیکھتا ہے۔ لیکن بعد کی زندگی میں اسے ان لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے جو تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزار کر اسے عملی زندگی میں قدم رکھنا سکھاتے ہیں۔ تمام والدین کے پاس اتنا وقت اور صلاحیتیں نہیں ہوتیں کہ وہ تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں بچوں کو شامل کرنے کے قابل بنا سکیں۔ لہٰذا انھیں اساتذہ اور تربیت کرنے والے کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تدریس کے مراحل میں دور کے تقاضوں کے مطابق اضافہ اور جدید طریقہ کار میں مسلسل تبدیلی واقع ہوتی جارہی ہے چنانچہ شعبہ تدریس میں داخل ہونے والوں، یعنی اساتذہ کی اپنی تیاری کا کام بھی سائنسی انداز اختیار کرتا جارہا ہے۔ اور جب یہ اساتذہ اپنے تربیتی مراکز سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو مختلف عمروں کے بچوں اور بڑوں کی تعلیم و تربیت کے فن سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ تدریسی شعبے سے وابستہ افراد اس قدر زیادہ اور متنوع سطحوں پر فرائض انجام دیتے ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا یہاں دشوار ہے۔ اور یہ تمام صلاحیاتیں آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول کے تمام سکولوں میں موجود ہیں، لیکں میں یہاں آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول کوراغ چترال کے پرنسپل سلطانہ برہان الدین بالخصوص اور انکے بہت ہی تربیت یافتہ ٹیم کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں، جو ہر وقت تمام سٹوڈنٹس کے تمام سرگرمیوں کے دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں۔ اور ہر سٹوڈنٹ کے بارے میں تفصیلی معلومات رکھتے ہیں اور اس کے مطابق پرنسپل صاحبہ کے ہدایات کے مطابق سٹوڈنٹس کو ڈیل کیا جاتا ہے۔

پرنسپل سلطانہ برہان الدین نے سکول میں مساوی ایک سسٹم متعارف کروائی ہوئی ہے۔ سکول میں چاہے امیر باپ کی بیٹی ہو، چاہے سرکاری افیسر کی بیٹی یا ایک غریب مزدور باپ کی بیٹی، سب کے لئے سسٹم میں برابری قائم کیا گیا ہے۔ سکول اور ہاسٹل میں وہ ایک فیکس رقم مقرر ہے سے زیادہ پیسے خرچ کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے۔ فرض کریں اگر امیر باپ اپنی بیٹی کے لئے جیب خرچ کی مد میں اگر بیس ہزار روپے بیجھتا ہے یا مزدور باپ اپنی بیٹی کو دو، چار ہزار روپے، وہ رقم سکول انتظامیہ سٹوڈنٹس کو نہیں دیتے بلکہ پیسے اپنے پاس رکھ کر حساب رکھتے ہیں، سکول پالیسی کے مطابق حسب ضرورت اتنی رقم دی جاتی ہے جو کہ سب کے لیے مقرر ہے۔ سکول میں ڈیفائینڈ ڈریس اور مقدار کے علاوہ ڈریس رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ سٹوڈنٹس کونسلر اور وارڈن ہمہ وقت سٹوڈنٹس کے سرگرمیوں اور انکے تمام معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔ جب سٹوڈنٹس سکول سے چھٹیوں پے اپنے گھرون کوچل نکلتے ہیں ان کے گھر والوں کو بھی سکول کے پرواکٹیو ٹیم ان کی روانگی کی اطلاع دینے کے ساتھ چھٹیوں کے دنوں میں بھی ان سے انکے سٹیڈیز اور حال احوال پوچھنے کے لئے رابطہ بھی کرتے ہیں۔

ٰؓؓبی بی سلطانہ اور انکی ٹیم کا زیادہ تر واسطہ اور رابطہ عموماً نو عمر بچیوں سے ہوتا ہے اس لیے وہ حاضر دماغ و حاضر جواب، خوش لباس، خوش اخلاق اور بعض صورتوں میں پر مزاح ہونا زیادہ مفید سمجھتے ہیں تاکہ سٹوڈنٹس تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل یا کوئی بھی مسلہ بلا خوف سکول انتظامیہ کے ساتھ شئیر کر سکیں تاکہ مسلہ کسی بھی نوعیت کا ہو،کا حل نکالا جاسکے۔ لطائف و واقعات اور کہانی قصوں کا موقع محل کی مناسبت سے استعمال اپنے درس کے کام کو آسان بنا دیتے ہیں، اور ان سب سے بڑھ کر علم کی مسلسل جستجو، ان تھک محنت کی عادت اور اپنے کام سے والہانہ لگاؤ ہی سٹوڈنٹس کے لئے دلچسپی کا باعث بنتی ہے۔ سلطانہ برہان الدیں اپنے ٹیم کے ساتھ اپنے شاگردوں پر مسلسل توجہ، ان کی ہر وقت نگاہداشت اور جذبہ ایثار کے ساتھ نرم و شائستہ انداز میں رہنمائی کرتے ہیں۔

آغاخان ہائیر سکنڈری سکول کوراغ میں تدریس کو کوئی جز وقتی پیشہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ پرنسپل سلطانہ کی سرپرستی میں اساتذہ اور دیگر تربیت یافتہ عملے جن میں سٹوڈنٹ کونسلر اور وارڈن کی خدمات بھی موجود ہے۔ سٹوڈنٹس کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقتی ذہنی اور جسمانی محنت و مشق کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کمرہ جماعت میں انھیں جو سبق پڑھانا ہو، اساتذہ اس کے لیے تمام مراحل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ پھر کلاس کے ہر بچے کی خوبیوں اور خامیوں کو مد نظر رکھ کر اسی مناسبت سے ان پر توجہ دی جاتی ہے۔ تدریس کا عمل خوش گوار ماحول میں کرتے ہیں۔ مختلف اور متنوع سرگرمیوں کے باعث یکسانیت اور بوریت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ کلاس روم میں سبق دینے میں اگر کوئی تکان محسوس بھی ہو تو وہ دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں دورہوجاتی ہیں۔ مصوری، مضمون نویسی اور تقاریر کے مقابلے، مباحثے، بیت بازی ادبی پروگرام، سالانہ جلسے اور کھیلوں کے مقابلے وغیرہ، سکول اڈمنسٹریشن سٹاف اور اساتذہ ہر وقت چاق چوبند، مستعد اور خوش مزاج رہتے ہیں۔ پرنسپل بذاد خوداور سٹوڈنٹس کاونسلر اورواردن، طلبہ اور ان کے والدین کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں جس کے باعث ہر سٹوڈنٹس کی علمی قابلیت، معلومات اور تعلقات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

اگر ایک پرنسپل یا ٹیچر اپنے شاگردوں کو کامیابی کی طرف گامزن کرتی ہے تو صرف اس کے شاگرد نہیں بلکہ وہ خود بھی کامیاب ہوتا ہے۔

ٓاللہ پاک سب کو پرنسپل سلطانہ برہان الدیں کی طرح معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے۔

جو کام آتے ہیں دوسروں کے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button