کالمز

امن کانفرنس اور عید غدیر

چوبیس اگست کا دن خاصا گرم تھا۔ میں غذر سے ابھی ابھی آفس پہنچا تھا۔ دوست محترم محبوب علی خان سابق سیکریڑی ایجوکیشن نے فون پر بتایا کہ رحیم آباد میں خطیب و امام امامیہ جامع مسجد گلگت آغا سید راحت حسین الحیسنی کی سرکردگی میں ایک عظیم الشان امن کانفرنس اور عید غدیر منائی جا رہی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی بہ حیثیت مقرر شرکت کروں۔ میں نے خوشی سے حامی بھر لی۔ کیونکہ میرے خیال میں یہ اوّلین عید غدیر تھی جس کو شیعہ اثنا عشری برادری اور اسماعیلی کمیونٹی مل کر منا رہے تھے اور دنیا کو امن کا پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہمارے فروعی گوناگونی اپنی جگہ لیکن امامت کی اساس یہی عید غدیر ہی ہے۔

پروگرام سہ پہر دو بجے شروع ہونا تھا لیکن میں اور محبوب صاحب آدھ گھنٹے کی تاخیر سے پروگرام میں پہنچے۔ پروگرام شروع ہوچکا تھا۔ جب ہم پروگرام میں پہنچے گلگت بلستان کونسل کے ممبر ارمان شاہ صاحب خطاب کر رہے تھے۔ جبکہ الواعظ شیر احمد صاحب ہمارے پہنچنے سے پہلے خطاب فر چکے تھے۔ آغا راحت صاحب سے میری اس سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی تھی میں حیران ہوا جب میں اسٹیج کی طرف گیا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آگے آئے اور بڑی محبت سے بغلگیر ہوئے۔ جہاں تسبیحات ٹکرائے وہاں آغا صاحب کی انگلیوں میں ڈھیر ساری آنگوٹھیوں کو دیکھ کر اپنی چار انگوٹھیاں کم لگیں۔ انہوں نے محبت سے مجھے اپنے پہو میں جگہ دی۔ اسٹیج پر آپ کے ساتھ شیخ نئیر عباس مصطفوی اور الواعظ شیر احمد صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ جبکہ سامعین میں رحیم آباد، نومل، گورو، جگلوٹ اور آس پاس کی دیہات سے عوام الناس کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔

عید غدیر کو امن کانفرنس کے نام سے منانے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جوتل میں کسی چراگاہ پر کئی سالوں سے اہالیانِ رحیم آباد اور آس پاس کی دیہات کے مکینوں کے درمیان کوئی کیس چل رہا تھا لیکن آغا صاحب کی انفرادی کوششوں سے ان اہالیان میں تصفیہ ہوا تھا اور وہ کورٹ سے کیس واپس لے کر امن معاہدے کے تحت ایک ہوئے تھے۔ یہ سارا کریڈٹ یقیناً آغا صاحب کی امن پسند پالیسوں کے سر ہے جس کے لیے یقیناً وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

مقررین نے بھی کھل کے اپنی تقریر میں آغا صاحب کی کاوشوں کو سراہا۔ خصوصاً جی بی کونسل کے ممبر ارمان شاہ صاحب نے آغا صاحب کی امن پالسیوں کو کھل کر سراہا۔ اس کے بعد شیخ نئیر عباس مصطفوی نے بڑے دلکش پیرائے میں غدیر خم کا پس منظر بیان کیا۔ ان کے بعد اسٹیج سیکریٹری بردار محترم علی داد شفا نے میرا نام پکارا۔ میں نے اپنی تقریر میں جہاں شیعان علی کی عقیدت کو سلام پیش کیا وہاں آغا صاحب کا بھی شکریہ ادا کیا کہ یقیناً وہ اسمِ بامسمیٰ ہیں آغا راحت صاحب جب سے امامیہ مسجد سے بہ حیثیت خطیب منسلک ہوئے ہیں تب سے اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے لوگوں کو راحت پہنچانے کی کاوش کی ہے جوکہ لائقِ تحسین ہے۔ علما کو اس لیے ہی وارث انبیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہ ان کا مقصد وصل کردن ہوتا ہے نہ کہ فصل کردن۔

میرا موضوع غدیر نہیں غدیر تک پہنچنے کے وہ سارے واقعے تھے۔ میں نے دعوت زی عشیرہ سے لے کر شبِ ہجرت تک، جنگ خندق سے لے کے جنگ احد تک، اور حبیبِ کبریاؐ کی زندگی کا وہ کونسا موقع تھا کہ وہاں مولا علیؑ کی مدد و نصرت آپ کے ساتھ شامل نہ ہو۔ جنگ احد کے بارے میں تاریخ کی کتابیں چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ نبی پاکؐ کو جب کافروں نے گھیرا۔ نبی پاکؐ کی جان کو خطرہ درپیش ہوا۔ حبیب کبریاؐ نے بڑے مطئین لہجے میں کہا یا علیؑ! اب علیؑ کی ی بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ مولا علیؑ اپنا ذوالفقار لے کر پنچتے ہیں۔ اور کافروں کو ایسا مارتے ہیں کہ کسی کا ہاتھ نہیں رہتا، کسی کی انگلی نہیں رہتی، کسی کا سر نہیں رہتا اور کسی کی پیر نہیں رہتی۔ علیؑ محمد مصطفیٰؐ کا طواف بھی کرتے جاتے ہیں اور کافروں کو مارتے بھی جاتے ہیں۔ لکھنے والے نے لکھا ہے کہ اچانک مولا علیؑ تلوار بائیں ہاتھ میں لیتے ہیں تو صحابہ کرامؓ حیران ہوکر پوچھتے ہیں یاعلیؑ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ میرے کانوں میں یہ ناخوش گوار آواز آئی ’’قد قتیلا محمد۔‘‘ محمدؐ قتل ہوگئے۔ میرے کانوں میں یہ آواز ناگوار گزری۔ میں نے تلوار کو دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں لیا اور دائیں ہاتھ میں محمدؐ کو اٹھایا میں لڑتا بھی جاتا تھا اور کافروں کو بتاتا بھی جاتا تھا ’’ہذا محمدؐ، ہذا محمدؐ، ہذا محمدؐ۔‘‘ یہ محمدؐ ہے، یہ محمدؐ ہے، یہ محمدؐ ہے۔‘‘ اس موقع پر آیت نازل ہوتی ہے ’’ہل جزا الاحسان اللاحسان‘‘ یعنی احسان کا بدلہ احسان ہے۔ محمد مصطفیٰؐ یاد رکھنا آج علیؑ نے آپ کو کافروں کے مجمع میں ہذا محمدؐ کہا ہے کل آپ سوا لاکھ کے مجمع میں کہنا ’’من کنت مولاہ فھذا علی مولا۔‘‘

ایسے میں نعرۂ حیدری تو بنتا تھا جو سامعین نے عقیدت اور بلند آواز میں لگاکے ثوابِ دارین حاصل کیا۔ میں خود حیران تھا کہ اپنے بیس منٹ کی تقریر میں مولا علیؑ کی کونسی صفات بیان کروں۔ بہادر اتنے کہ خیبر کا قلعہ آپ کے ضرب سے پاش پاش ہوتا ہے، رحم دل اتنے کہ گستاخ رسول کو بھی معاف کر دیتے ہیں، سخی اتنے کہ رکوع میں بھی زکواۃ دیتے ہیں، مصلح اتنے کہ گھمبیر سے گھمبیر معاملات کو چند سیکنڈوں میں حل کر دیتے ہیں۔ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کو کہنا پڑتا ہے کہ علیؑ نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔ کیا کیا بتاؤں اور کیا کیا نہ بتاؤں۔ سچ کہا ہے کسی عاشقِ علی نے؎

علیؑ کو کیسے میں مولائے کائنات کہوں

علیؑ کی ذات بڑی کائنات چھوٹی ہے

میرے بعد آخری مقرر اس تقریب کے مہمان خصوصی جناب آغا راحت حسین الحسینی نے دو گھنٹے پانچ منٹ کی تقریر میں جہاں مولا علیؑ کی امامت و ولایت، رسول کریمؐ کی آخری رسومات، باغِ فدک کا معاملہ اور ثقیفہ بنی ساعدہ سے متعلق گفتگو فرمائی وہاں صوبائی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ہر محکمے میں کرپشن کی داستان چھڑی اور ایسے ایسے چشم دید واقعات بیان کیے کہ مجھے ان کی تقریر کے دوران مولا علیؑ کا یہ قول یاد آیا ’’حکومت کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔‘‘

آغا راحت نے نوکریوں کی بندربانٹ کو غیر اسلامی فعل قرار دیا۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا ’’میں حیران ہوں کہ اسماعیلی برادری اس ناانصافی پر چپ کیوں ہیں، ہم تو کسی نہ کسی طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرتے ہیں۔ اپنا حق بھی چھینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آپ (اسماعیلی) کیوں چپ ہیں؟ میرٹ میں آپ سب سے آگے لیکن نوکریاں کہیں اور بانٹی جاتی ہیں۔‘‘

آغا راحت صاحب کی تقریر کی صداقت آپ اس دعا سے لگا سکتے ہیں۔ ایسی دعا تو انتہائی مجبوری کے عالم میں کی جاتی ہے۔ آغا راحت صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں دعا کی ’’یا اللہ! آپ ہمارے حکمرانوں کو اگر وہ قابلِ اصلاح ہیں تو انہیں توفیق دے اگر قابلِ اصلاح نہیں تو مولا انہیں نیست و نابور کر۔‘‘ سب نے آمین کہ کر اس محاورے کو سچ کر دیا کہ آوازِ خلق نقارہ خدا ہے۔ آپ حکومت کر سکتے ہیں، ظلم کرسکتے ہیں، ناانصافی کر سکتے ہیں لیکن رب کی لاٹھی یقیناً بے آواز ہوتی ہے۔ ہر ظالم کا انجام عبرت ناک ہوا ہے۔

خیر عید غدیر کے کیک اور مغرب کی نماز کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ دسترخوان پر بڑی دلچسپ باتیں ہوئیں۔ آغا راحت صاحب نے کہا کہ الواعظ صاحب! ایک ہی رنگ کی انگوٹھیاں کیوں پہنی ہیں؟ میں نے از راہِ تفنن کہا کہ آغا صاحب! بس کسی مہربان نے محبت سے پہنایا ہے۔ محفل زعفران زار ہوئی۔ میں نے آغا صاحب سے غذر تشریف لانے کی بات کی اور خصوصاً انہیں اپنی رہائش گاہ دعوت دی جو انہوں قبول کی انشااللہ کسی مناسب وقت پر آغا صاحب کو کریم منزل غذر کی یاترا کرائیں گے۔

یار زندہ، صحبت باقی!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button