تعلیمکالمز

تعلیم حاصل کرنا خواب بن چکا

تحریر: شیرین کریم

محکمہ تعلیم یونیورسل انرولمنٹ کے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی،  حکومت اور محکمہ تعلیم کے لیے ایک معمہ بن گیا ہے کہ 16 سے 20 فیصد سکولوں سے باہر بچوں کو تعلیمی دھارے میں کیوں نہیں لا سکی

خالدہ کا تعلق ضلع غذر کے گاؤں داماس سے ہے وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے تعلیم حاصل کرنا اس کا  خواب تھا وہ تعلیم حاصل کرکے اپنی تعلیم کو دوسروں تک پہنچانا چاہتی تھی، تعلیم حاصل کرنے کا اسکا خواب اب خواب ہی رہ چکا ہے کیونکہ خالدہ کے گاؤں میں گرلز سکول نہیں ہے صرف بوائز سکول ہے، لڑکیوں کیلئے صرف پرائمری سکول ہے۔ 20سالہ خالدہ کہتی ہے کہ پرائمری تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجھے گھر میں روکا گیا، سکول نہیں بھیجا گیا، مجھے گھریلو کام کاج میں لگا دیا، میری سہیلیاں میٹرک میں پڑھ رہی ہیں جبکہ میرے والدین نے میری شادی کر دی ہے، سخت گرمی، دھوپ اور سردیوں کے سخت موسم میں ٹھنڈ، برف باری میں بھی کئی میلوں سفر طے کرکے سکول جاتی تھی جہاں پر ہمارے لئے ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام نہ ہونے کی و جہ سے میں اکثر بیمار رہتی تھی۔ پرائمری تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرے والدین نے مخلوط تعلیم سے مجھے روکا، مجھے اجازت نہیں ملی کہ میں آگے تعلیم حاصل کروں، نہ صرف میں بلکہ میری جیسی کئی لڑکیاں ہمارے خاندان میں پرائمری تعلیم کے بعد آگے تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا ہمیں گھریلو کام کاج میں لگا دیا گیا ۔ ہمارے خواب اب خواب ہی رہ چکے ہیں جن کی تعبیر ممکن نہیں ہے، اکیسویں صدی اور جدید دور میں بھی ہم تعلیم کے زیور سے محروم ہیں، تعلیم انسان کی بنیادی ضرورت ہے لیکن تعلیم حاصل کرنا اب ہمارے لئے نا ممکن بن چکا ہے کیونکہ ہمارے گاؤں میں گرلز سکول نہیں ہے،ہمارے علاقے میں اکثر میری سہیلیوں کو شہر بھی بھیج دیا تاکہ وہ مزید تعلیم حاصل کریں اور بعض مخلوط تعلیمی اداروں میں بھی تعلیم حاصل کررہی ہیں،  لڑکیوں کیلئے علیحدہ سکول نہیں ہیں، محکمہ تعلیم کےمطابق متعلقہ ضلعوں جہاں گرلز سکولز نہیں اسکی اہم وجہ عوامی نمائندوں اور حکومت کی لا پرواہی ہے،  اس حوالے سے داماس کے علاقہ مکینو ں نے کہا کہ حکومت کی زیادہ توجہ شہری علاقوں کی طرف ہے، دیہی علاقوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی ہے، شہری علاقوں کےسکولوں کی حالت بہتر کرکے وہ اچھا ہے کا نعرہ لگاتے ہیں، ہماری بچیوں کیلئے الگ تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔

گلگت بلتستان کی خواتین جو نہ صرف علاقائی سطح پر بلکہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں جن کی اہم مثال  سلیمہ بیگ کی ہے جن کو عالمی سطح پر تعلیمی  میدان میں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

 ایک سال کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق سکولوں میں زیادہ تر لڑکیوں نے پوزیشن حاصل کئے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کا شوق لڑکیوں میں بہت زیادہ ہے۔

گلگت بلتستان کی آبادی اٹھارہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، گنجان آبادی کے لحاظ سے گلگت سر فہرست ہے، دیامر دوسرے جبکہ سکردو تیسرے نمبر پر ہے، کم آبادی والے اضلاع میں کھرمنگ پہلے نمبر، ہنزہ دوسرے اور نگر تیسرے نمبر پر ہے۔گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ تمام بچوں کو سکول میں داخل کرایا جائے پچھلے کئی سالوں سے سرکاری نظام تعلیم میں ریفارمز لائے جارہے ہیں سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح کو زیادہ سے زیادہ کرنے کیلئے اساتذہ کی تنخواہ بڑھا دی ہے سہولیات میں اضافہ کر دیا گیا ہے اساتذہ کی مانیٹرنگ ہورہی ہے اساتذہ کی تقرریوں کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ہرسال داخلے کی مہم چلائی جاتی ہے لیکن پھر بھی محکمہ تعلیم یونیورسل انرولمنٹ کے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی حکومت اور محکمہ تعلیم کے لیے ایک معمہ بن گیا ہے کہ 16 سے 20 فیصد سکولوں سے باہر بچوں کو تعلیمی دھارے میں کیوں نہیں لا سکی

 محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کی جانب سے سکولوں سے باہر بچوں کی تازہ سروے رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں گلگت بلتستان میں شرح خواندگی مجموعی طور پر بہتر ہے تاہم بعض اضلاع میں تعلیمی شرح خواندگی کو بڑھانے کیلئے ایمر جنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے، تعلیمی شرح کے حوالے سے ضلع دیامر سب سے پسماندہ ضلع ہے جہاں پر پانچ سال سے نو سال تک کے 48فیصد بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے یا سکولوں سے باہر ہیں۔ پانچ سال سے نو سال کے بچوں کی کل آبادی کا 63فیصد بچیاں تعلیم سے محروم ہیں جبکہ دس سال سے 19سال کے 66فیصد بچیاں اور 15سے 16سال کے 59فیصد بچیاں سکول سے باہر ہیں، ضلع دیامر کی مجموعی آبادی کا 49فیصد تعلیم سے محڑوم ہیں جس کی اہم وجوہات میں قبائلی نظام راج ہے جہاں پر لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکیاں تعلیم حاصل کرکے کیا کرینگی انکا کا کام گھریلو کام کاج اور گھریلو امور ہی انجام دینا ہے، لڑکیوں کی تعلیم کو اتنی ضرورت محسوس نہیں کیا جاتا ہے۔

لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی اہم وجہ گلگت بلتستان میں غربت اور بے روزگاری ہے جسکی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی بجائے کام کاج پر لگا دیتے ہیں جبکہ دوسری اہم وجہ آمدورفت کا ہے کیونکہ علاقہ وسیع ہے اکثر خاندان پہاڑوں اور دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں جہاں سے شہری آبادی کی طرف آمدورفت کا مسئلہ پیش آتا ہے، گھروں سے تعلیمی اداروں کی طرف فاصلہ دور ہونے کی وجہ سے والدین اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں، تیسری اہم وجہ روایتی  رسم و رواج  ہونے کی وجہ سے والدین  اپنی بچیوں /بیٹوں کی شادیاں کم عمری میں ہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے شادی کے بعد لڑکیاں گھر داری میں ہی لگا دی جاتی ہیں اسکے علاوہ ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم سے دوری کی ایک اہم وجہ حکومت اور این جی واز کی توجہ کم ہے،  اگر حکومت ان علاقوں کی طرف ذاتی دلچسپی لے کر تعلیم پر کام کریگی تو وہ دن دور نہیں کہ دیہی علاقوں میں بھی تعلیم کا حصول نا ممکن نہیں ہوگا۔

تعلیمی پسماندگی کے اعتبار سے دوسرا ضلع کھرمنگ ہے جہاں پر پانچ سال سے 16سال کے 31فیصد بچے سکول نہیں جاتے جبکہ تعلیمی پسماندگی کے اعتبار سے ضلع استورتیسرا ضلع ہے جہاں 11فیصد بچے سکول نہیں جاتے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے

محکمہ تعلیم گلگت بلتستان سے موصولہ اعداد و شمار کے مطابق ضلع گلگت میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں کی کل تعداد 419ہے، غذر میں 357، ہنزہ 99، نگر 125،سکردو 437، گانچھے 337، شگر 182، کھرمنگ 165، دیامر 371، استور 206ہے جبکہ مجموعی تعداد 20ہزار 6سو 69ہے۔

گلگت بلتستان کے تمام سکولوں میں کل بجٹ 7233243000فراہم کیا جا رہا ہے، اس سال گلگت بلتستان ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ٹوٹل 7433485000بجٹ فراہم کیا گیا جن میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ شامل ہے اسی بجٹ کے اندر رہتے ہوئے سرکاری تعلیمی ادارے اپنی ضروریات پوری کررہے ہیں، گلگت بلتستان کے شہری علاقوں میں سرکاری سکولوں اور غیر سرکاری سکولوں کا معیار اور نظام کافی حد تک بہتر ہے لیکن تسلی بخش نہیں، بعض پرائیویٹ سکولوں میں گراؤنڈ نہیں نہ ہی کمپیوٹر لیبارتری موجود ہے بلکہ چند کمروں پر سکولوں کا نظام چل رہا ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی کمی ہے اور اساتذہ کیلئے کسی قسم کی ٹریننگ کا بھی بندوبست نہیں ہوتا جس سے وہ اپنی تدریسی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔

گلگت بلتستان کے دیہی اور بالائی علاقوں یں تعلیم کا نظام سرکار کے سپرد ہے اور بعض علاقوں میں چند ایک پرائیویٹ سکولز قائم ہیں، بالائی اور دیہی علاقوں میں ایک طرف شرح داخلہ کم ہے تو دوسری جانب معیار تعلیم بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے ایسے علاقوں میں زیادہ تر غریب والدین کے بچے ہی ہوتے ہیں وہ پرائیویٹ سکولوں کی بھاری فیسیں برداشت نہیں کر سکتے۔ صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے گزشتہ ادوار کی نسبت شعبہ تعلیم پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے، مختلف ضلعوں میں یونیورسٹی کے کیمپس کھولے ہیں اور سرکاری سکولوں میں پہلی جماعت سے میٹرک تک تعلیم، کتابیں مفت مہیا کررہے ہیں جہاں پر کسی قسم کی فیس بھی نہیں لی جاتی ہے جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں فیسوں کی مد میں ہزاروں روپے غریب عوام سے بٹورے جا تے ہیں جن میں ماہانہ فیس، صفائی فیس، ہیٹنگ سمیت دیگر فیسوں کی مد میں ایک ہزار سے پانچ ہزار تک کی فیس وصول کی جاتی ہے۔

سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم بہتر نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقوں کی بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات تعلیم سے محروم ہیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہے گا، محکہ تعلیم گلگت بلتستان کے مطابق گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں میں ”ہر بچہ سکول میں“ کی مہم کے تحت بہت سارے بچوں کو سکولوں میں لایا گیا اور بہت جلد حکومت گلگت بلتستان کے دیہی علاقوں میں تعلیم کو فروغ دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کریگی اور ان علاقوں میں خواتین کیلئے الگ تعلیمی اداروں کا قیام بھی بہت جلد کیا جائیگا وہ لڑکیاں جو تعلیم سے محروم ہو چکی ہیں اب وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے روشناس کرائینگے۔ خالدہ کو بھی اب امید ہے کہ اسکی بیٹی تعلیم حاصل کریگی اور اسکا خواب اب اسکی بیٹی پورا کریگی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button